یکم مارچ سے بجلی نرخوں میں مزید اضافہ، الیکٹرک آمریت کا کیا علاج ہوگا؟

عوام کی مرضی سے دئے گئے مینڈیٹ کے نتیجے میں منتخب ہونے کا دعویٰ رکھنے والی عوامی حکومت کی جانب سے عوام ہی پر ایک اور بجلی بم گرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ یکم مارچ سے گرائے جانے والے بم کا حجم اگرچہ کم ہے لیکن معاشی طور پر پہلے سے نزع کے عالم کو پہنچی ہوئی قوم کے لئے یہ جھٹکا برداشت کرنا بھی دشوار محسوس ہوتا ہے۔ وزارت پانی و بجلی کی جانب سے سامنے آنے والی اطلاع کے مطابق پاور سیکٹر میں ہونے والے خرچ کا تناسب بڑھ جانے سے مذکورہ اضافہ ناگزیر ہوگیا تھا، وزارت پانی و بجلی کے مطابق پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ایک روپے بیس پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے، نئی قیمت کا اطلاق یکم مارچ سے کیا جائے گا۔ وزارتی ذرائع کے مطابق پاور سیکٹر سے وابستہ اداروں کی جانب سے پاکستان اسٹیٹ آئل کو تیل کی مد میں ادائیگی نہ کئے جانے کی وجہ سے پیپکو کے ذمہ واجب الادا رقم اکانوے ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

جواباً پی ایس او سمیت دیگر تیل صاف کرنے والے اداروں نے پاور سیکٹر کو تیل کی سپلائی معمول سے ساٹھ فیصد کم کر دی ہے۔ مذکورہ تبدیلی کی وجہ سے پاور سیکٹر تھرمل یونٹس کو چلانے کے لئے فرنس آئل کے بجائے ڈیزل کا استعمال کر رہا ہے جو 72روپے فی لیٹر کی قیمت کے سبب پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

اس تبدیلی کے بعد ایک بار پھر حکومت نے پاور سیکٹر کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے مسئلہ حل کرنے اور سابقہ ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے بجائے اس کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا قریب ترین سبب بھی اس کے علاوہ کوئی نہیں کہ ہر ظلم پر خاموش رہ کر عام آدمی نے حکومتی اداروں کو اتنی شہہ دے دی ہے کہ وہ جب، جہاں، جیسے چاہیں اپنے ظالمانہ فیصلوں کو مسلط کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

تاہم جو وجہ بتائی گئی ہے ماہرین کے نزدیک وہ اصل سبب نہیں بلکہ مسئلہ سراسر کچھ اور ہے۔ پاور سیکٹر کی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے معرو ف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اداروں کے ایک دوسرے کے ذمہ واجب الادا رقوامات کا مسئلہ اس اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ سرکلر ڈیڈ کہلانے والا یہ تنازعہ خاصہ طویل اور پیچیدہ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پی ایس او نے جہاں ایک طرف پیپکو سے رقم وصول کرنی ہے وہیں اس کے ذمہ بھی کچھ دیگر اداروں کے بقایا جات ہیں۔ ایک کی ادائیگی دوسرے پر ڈالے جانے اور اپنے ذمہ واجب الادا رقم کسی دوسرے ادارے سے وصول کرنے کے بجائے وہ پروڈکٹ مہیا کرنے والے ادارے کو دینے کی شرط لگانے کے بعد وقتی طور پر اسے مسئلہ کا حل سمجھ لیا جاتا ہے لیکن عملاً یہ آج تک ممکن نہیں ہوا۔ جب کہ دیگر ادارے بھی پی ایس او سے خریدے گئے آئل کے بدلے چونکہ اسے ادائیگی نہیں کرتے یا وقت پر نہیں کرتے اس لئے وہ مجبوراً مہنگے داموں تیل خرید کر اس سے زائد قیمت پر آگے فروخت کرتا ہے۔

اس سارے گورکھ دھندے کو ذیادہ سے زیادہ حکومتی غفلت،ایڈہاک ازم پر چلائے جانے والے معاملات کو ترجیح دینا اور چند اداروں کی بدانتظامی اور وقت پر کام نہ کرنے کی سزا کہا جا سکتا ہے جسے عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جب کہ پاور سیکٹر کے اداروں کے نجی تحویل میں دینے کے بعد اس کے مالکان زیادہ منافع کے چکر میں ٹیرف میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں، جس سے صارفین متاثر ہوتے اور نتیجتاً بجلی کے نرخ بڑھا دئے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کا فوری حل کالا باغ ڈیم سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈٰموں کی تعمیر ہے۔ جس کے بعد بجلی کی اضافی مقدار بجلی کی قلت اور عدم دستیابی کی خرابی کو دور کرنے کا سبب بنے گی اس کا ایک اور فائدہ حکومت کو پاور سیکٹر کی بلیک میلنگ سے نجات کی صورت بھی حاصل ہو سکتا ہے لیکن ذاتی اور سیاسی مفاد کو عوامی اور ملکی مفاد پر ترجیح دینے والے حکومتی عناصر قطعاً یہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی کام کا نتیجہ، فائدے کی صورت عام آدمی کو منتقل ہو سکے۔

دوسری جانب نئے بجلی بم کے گرنے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا جس کے لئے طویل تجزئے اور پیچ در پیچ اعداد و شمار کی فسوں گری کی جائے۔ ایک عام پاکستانی بھی بجلی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو آئی ایم ایف، منافع خوروں کی ہوس زر اور حکمرانوں کی چشم پوشی سے تعبیر کرنا سیکھ گیا ہے۔ تمام تر الزامات اور خرابیوں کے باوجود میڈیا کی تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں اطلاعات اور واقعات تک ملنے والی رسائی نے اب اسے اتنا باشعور کر دیا ہے کہ وہ تجزئےے کی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد اسے بروئے کار لانے کے فن میں یکتا ہو چکا ہے۔

اس مرحلے پر کسی امن کمیٹی یا حکومتی حمایت یافتہ عنصر کی جانب سے صدارتی اور وزارتی حمایت میں نکالے جانے والی ریلیاں بھی عام فرد کے شکوؤں کا مداوا نہیں کر سکتیں نہ ہی صورتحال کو کوئی اور رخ دینے کی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا اقدام جس کا اکلوتا سبب ہی اپنی بدانتظامی کو چھپانا اور بلاوجہ کے جواز تراشنا ہو اس کا کون، کہاں تک دفاع کر سکتا ہے؟

یہ اضافہ رواں برس بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا دوسرا اضافہ ہوگا جس کے بعد پیدا ہونے والا منظرنامہ مشکلات کی ایک نئی فصل سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قیمتوں میں اضافے کی ایک نئی دوڑ کو جنم دے گا۔ اس ساری خرابی کا حتمی اور آخری اثر پہلے کی طرح اس بار بھی ”عام آدمی“پر ہی پڑنا ہے جو اس لئے عام ہے کہ وہ اف نہیں کرتا۔ ورنہ ان عاموں میں کچھ خاص ایسے ہےں جو بجلی کی قیمت میں کمی بیشی سے قطع نظر اپنے روز و شب ویسے ہی جاری رکھتے ہیں جیسے وہ پہلے ہوتے ہیں۔ ان کی اکلوتی خصوصیت اقتدار کے مراکز یا منبعوں سے قربت ہے جو ان پر اتنا اثر ڈال چکی ہوتی ہے کہ اس کے بعد گویا ساری مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔

ممکن ہے اس اعلان پر عملدرآمد کے وقت تک دیگر جواز بھی تراش لئے جائیں لیکن ہونا وہی ہے جو طے ہو چکا ہے۔ ہمارے حکمران بیچارے نہ پہلے اپنے فیصلے خود کرتے تھے نہ اب وہ اس کی ہمت رکھتے ہیں۔ خواہ کوئی ان کی حمایت میں ریلیاں ہی کیوں نہ نکال لے، جو بگڑ چکا وہ بگڑا ہی رہے گا، اصلاح کی امید رکھنا اندھیرے کو سورج کہنے کے مترادف ہے جس کا نتیجہ کہنے والے کو پاگل پن کا لقب ملنے کا سوا کچھ برآمد نہیں ہونا۔

بجلی کی اس قلت اور نتیجتاً قیمتوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والے اضافے کے باوجود نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی بڑے فخر سے اس بات کو اون کرتی ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی)کی صورت میں ایک پاور جنریشن اور دو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی فروخت سے فائدہ ہوا ہے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے گزشتہ دسمبر میں لوڈ شیڈنگ ختم کئے جانے کا دعویٰ اور اس کی درگت بننے کے بعد ان کی جانب سے اپنے الفاظ واپس لیا جانا بھی دیگ کا ایسا دانہ قرار دیا جا سکتا ہے جو باقی دیگ کے اجزاء کی سنجیدگی اور ان کی مسائل کے حل کے لئے موجود اپرووچ کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔

عوام کی مرضی سے دئے گئے مینڈیٹ کے نتیجے میں منتخب ہونے کا دعویٰ رکھنے والی عوامی حکومت کی جانب سے عوام ہی پر ایک اور بجلی بم گرانے کی تیاری مکمل کر لینے کے بعد سامنے آنے والی صورتحال میں حکومت کی غفلت اور نااہلی کی سزا عوام کو ملتی واضح دیکھی جا سکتی ہے ۔

کیا اب بھی یہ دعویٰ برقرار رہے گا؟

عوام کی سطح پر کیا خاموشی کا طلسم اب بھی اسی طرح سر چڑھ کر بولے گا جس کے نیتجے میں خاموشی سے اف کہہ بھی نہیں سکتا اور خاموش رہ بھی نہیں سکتا کی روش برقرار رہے گی۔ کیا اس الیکٹرک آمریت کا کوئی علاج ہو سکے گا؟ اس کے مسلط کرنے والوں سے نجات کا خوش کن لمحہ کب قوم کی قسمت میں آئے گا؟ ہم بھی انتظار کرتے ہیں آپ بھی انتظار کریں، مگر کوشش شرط ہے۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 29274 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More