آپ کو یاد ہوگا کہ ۳۲ جون ۳۱۰۲ کو نانگا پر بت کے بیس
کیمپ فیری میڈوز پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔ حملہ آور فوجی وردیوں میں
ملبوس تھے اور انہوں نے کیمپ میں گھس کر دس غیر ملکیوں سمیت گیارہ افراد کو
قتل کر دیا۔ یہ ایک لرزہ خیز واقعہ تھا جس کا مقصد پاکستان کی سیاحت کو
بربادکرنا اور پاکستان کے دوست ملکوں سے تعلقات کو خراب کرنا تھا۔ اسی طرز
کا ایک دلخراش واقعہ حال ہی میں بلوچستان کے علاقے تر بت میں پیش آیا، تربت
کے علاقے گوگدان میں دہشتگردوں نے بیس مذدوروں کے کیمپ پر حملہ کر کہ انکو
موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس واقعہ کے چند دن بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف
صاحب نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور بلوچستان کی سیکورٹی کی صورتِ کا
جائزہ لیا اور اپنے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی
علاقوں میں سر گرمِ عمل غیر ملکی خفیہ اداروں کو یہ باور کرا دیا کہ وہ
ایسے مکروہ افعال سے باز آجائیں اور غیر ملکی ادارے اور ایجنسیاں دہشتگردوں
کو امداد فراہم کرنا بند کریں۔
آپ اسبات سے بھی آشنا ہونگے کہ افغان خفیہ ایجنسی خاد برہمداغ بگٹی کی کس
انداز میں پشت بناہی کر رہی ہے۔ انہیں کس قسم کی آسائشات فراہم کی جا رہی
ہیں۔ یہ وہ براہمداغ بگٹی ہیں جنکے بھارت خفیہ اداروں سے روابط کسی سے ڈھکے
چھپے نہیں اور انکے دہلی کے دورے بھی محتاجِ بیاں نہیں۔ جبکہ دوسری جانب
امریکہ افغان جنگ میں نیٹو کے انیس ہزار کنٹینرز غائب ہوئے اور یہ اسلحہ
پشاور کی اسلحہ مارکیٹوں میں سرِ عام بکتا رہا جس کا اظہار سابق چیف جسٹس
افتخار چوہدری کی زیرِ صدارت کراچی امن و امان کیس کی سماعت کے دوران جسٹس
جواد ایس خواجہ نے کیا۔
یوں پے در پے سانحات کو دیکھیں تو یہ بات طے ہے کہ بلوچستان میں بیرونی
مداخلت ماضی میں بھی تھی اور تاحال زوروں سے جاری ہے۔پاکستان دشمان قوتیں
باالخصوص راء۔ موساد۔ اور سی۔ آئی۔ اے۔ جیسی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر
مستحکم کرنے کیلئے عرصہ دراز سے کوشاں ہیں۔یہ پہلے افغانستان جنگ اور اب
افغانستان میں تعمیر کی آڑ میں ااپنے شیطانی منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔کبھی
تو یہ سیلاب زدگان کی امداد کی آڑ میں توکبھی طالبان کا روپ دھاڑ کر اپنی
کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس کا پشت پناہ کون تھا، کون ہے یہ وہ سوال ہیں جنکا
جواب دینے کی اول تو کوئی جسارت نہیں کرتا اور اگر کرے تو ماضی کے کئی
واقعات اسکے ا نجام کے عکاس ہیں۔ پہلے ایک مکتی بانی تھی جسنے ہمارا ایک
بازو پہلے ہی بنگلہ دیش کی سورت میں کاٹ کر علیدہ کر دیا ہوا ہے اور اب
عالمی طاقتیں بلوچستان کے در پہ ہیں۔یہ کبھی تو بلوچستان میں لسانی بنیاد
پر فساداد کو ہوا دیتی ہیں تو کبھی صوبوں کے دریان نفرت کی لکیر کھینچکر
انکو علیدہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی اس مکروہ دھندے کو مذہبی بنیادوں
پر ہوا دے کر اپنے افعالِ مکروہہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری جانب ایک عجیب حقیقت یہ ہے کہ بھارت صرف ایک بمبئی حملوں کو لیکر
عرصہ دراز سے عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص مجروح کر رہا ہے جبکہ امریکہ
ایک نائن الیون کی آڑ میں لا تعداد انسانی جانوں کو ضائع کر چکا ہے۔ اور
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کو اپنے مکروہ چہرے نطر نہیں آتے اور دوسروں
پر پابندیاں لگانے چلے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنا ناقابلِ تلافی نقصان
کرانے کے بعد بھی خاموش ہیں اور ان بیرونی سازشوں کو سمجھ کر انکا سدِ باب
کرنے کی بجائی ااپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔اور یہی دشمانِ پاک سر زمین کا مشن
ہے جس میں بڑی آسانی سے وہ کام یاب ہو رہا ہے۔
لہذاس ساری صورتِ حال میں جہاں بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں غیر
ملکی ایجنسیوں کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں ۔ اب یہاں پر ایک پہلو تو یہ
ہے کہ وہ ادارے اور گروہ جو ہندوستان کے گن گاتے نہیں تھکتے اب اپنی زبانوں
کو لگام دیں اور اپنا رونا بند کریں اور تھوڑی اخلاقی جرئات کا مظاہرہ کرتے
ہوئے اس ہندوستانی بدمعاشی پر بھی اپنی آواز بلند کریں۔دوسر اوراہم ترین
پہلو یہ ہے کہ حکومت اور متعقہ ادارے بھی اس مشن کو پاےۂ تکمیل تک پہنچا کر
ملک و ملت پر مہربانی کریں کیونکہ جب تک ایسے ملک دشمن عناصر کا خاتمہ نہ
ہوگا تب تک ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ |