بیت اللہ (کعبہ شریف) جائے امن و خیر ہے۔ جس کی حدود میں
کسی ذی روح کی جان لینے کی اجازت نہیں۔ اس جائے خیر سے تعلق رکھنے والے
(امام کعبہ) ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ایک سچے اور پکے مسلمان کے
نزدیک جس طرح کعبہ جائے خیر ہے، تو اس سے منسلک برگزیدہ شخصیات بھی خیر و
امن کی پیامبر ہوں گی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جب امام کعبہ پاکستان میں تشریف
لائے، تو پاکستان کے گناہ گار مسلمانوں کو امید نظر آئی کہ وطن عزیز میں
بھی اب امن ہی امن اور خیر ہی خیر ہوگی۔ پیر پرست طبقہ دلیلیں پیش کر رہا
تھا کہ محترم شخصیات کے قدم بھی بابرکت ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں پڑتے ہیں، وہاں
وہاں فتنہ، فساد اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔ ایمان کے کچے پاکستانی مسلمانوں
کو یقین تھا کہ امام کعبہ اپنے مرتبے کا حق ادا کرتے ہوئے دین اسلام کے
تمام مسالک کو اکٹھا بٹھا کر اخوت، بھائی چارے اور اتحاد بین المسلمین کا
ایسا درس دیں گے کہ وطن عزیز سے فرقہ واریت کا جنازہ نکل جائے گا۔ یہ
پاکستانی قوم جتنی بھی بری، گناہگار اور گمراہ ہو، لیکن حسن ظن کی خوبی سے
مالا مال ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس قوم کا حسن ظن ہمیشہ حزیرہ نما عرب کے
اندر تک محدود رہتا ہے۔ اسی حسن ظن سے سرشار ہو کر انہوں نے کھلے دل سے
امام کعبہ کا خیر مقدم کیا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف وابستہ
امیدیں دم توڑتی چلی گئیں، بلکہ معزز مہمان کے نظریات و خیالات سے لاکھوں
دل مجروح بھی ہوئے۔
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستانی عوام پارلیمنٹ کی قرارداد
سے متفق نظر نہیں آتے۔ یمن میں ’’باغیوں‘‘ حوثی قبائل کا فتنہ سر اٹھا رہا
ہے۔ قانونی حکومت بحال کراکے دم لیں گے۔ کجا حرمت کعبہ، کجا ابو ربہ منصور
ہادی جیسے اسرائیل و امریکہ دوست، خائن حکمران کی حکومت کی بحالی کی خواہش۔
اس پاکستانی قوم نے کعبہ شریف کی امامت کے مرتبے کو مدنظر رکھ کر آپ کی راہ
میں دید و دل وا کئے، جبکہ آپ کا مطمع نظر تو ایک کرپٹ، مستعفی، سابق
بھگوڑے صدر کی حکومت کا قیام نکلا۔ کیا منصور ہادی حکومت کی بحالی اسلام کا
مسئلہ ہے، یا کعبہ کے تقدس کیلئے ضروری ہے، یمن میں منصور ہادی کی ہی حکومت
قائم رہے۔ چلیں مان لیا کہ یمن آپ کا پڑوسی ہے، آپ کو بہتر پتہ ہوگا کہ کس
کی حکومت وہاں کیسے بحال ہونی چاہیے۔ پاکستان میں اس حکومت کی بحالی کی بات
چہ معنی۔ تقریباً بیس کروڑ پاکستانیوں کی حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ نے جب ایک
مرتبہ کہہ دیا کہ ہم یمن جنگ میں فریق نہیں ہیں تو اس پر آپ کا اعتراض
کیوں۔؟
روزنامہ نوائے وقت نے اپنے اداریے میں بجا فرمایا کہ ’’سعودی عرب میں چونکہ
پارلیمنٹ کا کوئی وجود نہیں، اس لئے شاید امام کعبہ پارلیمنٹ کی حیثیت اور
اہمیت سے آگاہ نہیں ہونگے، ورنہ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی
رائے کو ہی فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر سعودی عرب یمن میں قانونی
حکومت کی بحالی کیلئے برسرپیکار ہے تو اسے پاکستان کی قانونی پارلیمنٹ کی
آواز کو بھی سمجھنا ہوگا۔‘‘ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا مصر میں صدر
مرسی کی حکومت قانونی نہیں تھی، اس حکومت پر شب خون مارنے والے ڈکٹیٹر سابق
جنرل سیسی آپ کے پیاروں میں کیوں شامل ہیں۔ آپ نے یہ آواز اس وقت بلند کیوں
نہیں کی، جب ایک اسلامی تنظیم کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس کے سینکڑوں
حامیوں کو پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا۔ اس وقت آپ کی خاموشی اور حالیہ گونج
گرج والے دورے کئی خدشات کو جنم دیتے ہیں۔ عوام دہرے معیار سے متعلق مغالطے
کا شکار ہوسکتے ہیں۔
عالی مرتبت! آپ کے خطے میں یقیناً قانونی حکومتیں قائم ہوں گی۔ جن کو عوام
کی زبردست تائید و حمایت حاصل ہوگی، مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز
پاکستان میں جمہوریت نامی عفریت قابض ہے۔ یہاں کے گناہ گار عوام اپنے
حکمرانوں کا خود ہی انتخاب کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں، کوتاہیوں کا بھی خود
ہی احتساب کرتے ہیں۔ لہذا یہ ہمارے وطن کا اندرونی معاملہ ہے کہ ہمارے
منتخب کردہ نمائندے ہماری حمایت سے کوئی قرارداد منظور کرتے ہیں یا ہمیں
خاطر میں لائے بغیر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کو چنداں پریشان
ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت آپ کے
شایان شان ہے۔ بس آپ ہمارے حق میں دعا فرمائیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت زیادہ
سے زیادہ قوی ہو۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوامی جذبات
کو مدنظر رکھتے ہوئے غاصب، ناجائز غیر قانونی اسرائیلی ریاست کو تاحال
تسلیم نہیں کیا۔ امت مسلمہ کے حقیقی دشمن اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں
کئے، اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی آثار ہیں۔ ’’اگر آپ کی جانب سے دباؤ
نہ آیا تو۔‘‘ محترم امام صاحب یمن آپ کے نزدیک اور ہم سے دور ہے۔ آپ کو تو
پتہ ہوگا کہ کیا اسرائیلی طیارے بھی یمن پر حملوں والے فضائی اسکواڈ میں
شامل ہیں۔؟
جناب عالی! ہم یہاں امن کو ترستے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ہماری پارلیمنٹ نے ہی
قومی ایکشن پلان منظور کیا۔ جس میں دہشت گردی کی فکری اور مالی فنڈنگ روکنے
پر اتفاق رائے کیا گیا اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کیا گیا۔ کئی ایسے
مدارس کے سراغ ملے جو براہ راست دہشت گردی میں ملوث تھے۔ ہماری وزارت داخلہ
کو کچھ ایسے شواہد بھی ملے کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ آپ کے علاقے کی حکومتیں
کرتی ہیں۔ ہمارے ایک وفاقی وزیر نے برملا اس کا اظہار بھی کیا اور ہماری
وزارت خارجہ نے بھی ان کے بیان کی تائید کی۔ اس کے بعد ہمارے اداروں نے
سختی برتی، کچھ بینک اکاؤنٹس پکڑے بھی اور یوں یہ سلسلہ کچھ حد تک روکنے
میں کامیابی نصیب ہوئی۔ جس کے بعد کچھ عرصے کیلئے دہشت گردی کی کارروائیوں
میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ مگر نہیں معلوم، اس امن کو کس کی نظر لگی۔
ادھر پاکستان نے یمن کی جنگ میں فریق بننے سے انکار کیا۔ ادھر آپ کے ملک کی
شاہی حکومت کے معززین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے بعد ہمارے ملک میں
ایک بار پھر دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کوئٹہ میں
زائرین کی بس پر حملہ کیا گیا۔ حیات آباد میں بم دھماکہ ہوا۔ ڈی آئی خان
میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ کراچی میں انسانی حقوق کی تنظیم کی
سربراہ ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔ ٹانک کلاچی روڈ کنارے ریموٹ کنٹرول بم
دھماکہ ہوا۔ کراچی میں پولیس پر حملہ ہوا اور مقابلے میں تین دہشت گرد ہلاک
ہوگئے۔ یقینی طور پر یہ حالات ہر پاکستانی کیلئے باعث تشویش ہیں۔ چنانچہ آپ
کی خدمت میں استدعا ہے کہ اپنی حکومت سے سفارش کرکے ایسے تحائف کا سلسلہ
بند فرمائیں، جو یہاں ہمارے لئے مسائل کا باعث بنیں۔ میں نجی ذرائع سے
موصول ہونے والی اس خبر پر ہرگز اعتبار نہیں کرتا کہ کھجوروں کے ڈبوں میں
ریالوں کے تحائف بانٹے گئے، مگر کیا کریں اپنے ملک کے مولوی حضرات کا جو
بڑی توندیں ہونے کے باوجود کوئی بات اندر نہیں رکھ پاتے، اور حیلے بہانے سے
اگل ہی دیتے ہیں۔
عوام اس حوالے سے بھی پریشان ہیں کہ جو بھی آپ کے ملک سے آنیوالی معزز
شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا ہے، منافرانہ، شر انگیز اور جنگ و جدل
پر مبنی بولی بولنے لگتا ہے۔ حال ہی میں ایک کالعدم جماعت کے سربراہ نے
اعلان کیا کہ وہ آپ کے ملک سر کے بل چل کر آئیں گے، ہم دعا گو ہیں کہ ان کی
الٹا لٹکنے کی خواہش کعبہ کے حقیقی مالک و وارث جلد پوری فرمائیں۔ اس کے
علاوہ ایک اور دینی جماعت کے سربراہ نے یمن کے مسلمانوں پر ایٹمی حملے کی
تجویز پیش کی ہے۔ یقینی طور پر ان کی یہ تجویز سعودی عرب کے وسیع تر مفاد
میں ہوگی اور وطن عزیز پاکستان کو مسائل میں دھکیلنے کی ایک ادنٰی کوشش،
کیونکہ اسلامی دنیا کی اس اکلوتی جوہری طاقت کے خلاف بڑی طاقتیں شروع سے ہی
سرگرم ہیں، اور کسی طور پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار ریاست ثابت کرنے کیلئے
نت نئی سازشوں میں مصروف ہیں، لہذا اس تجویز سے انہیں ایک نیا مدعا مل گیا
ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی آپ کی حکومت کی
خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یمن کے غریب مسلمانوں پر آگ و بارود برسانے کی
حمایت کی ہے۔ جناب آپ اگر غور فرمائیں تو یہ تمام وہی چہرے ہیں جو آپ کے
ملک میں اکثر و بیشتر مختلف حوالوں سے قیام پذیر نظر آتے ہیں، اور آپ کی
حکومت کی ان پر نوازشات جاری ہیں۔ چنانچہ ان کی لن ترانیوں کو آپ بیس کروڑ
غیور پاکستانیوں کی رائے ہرگز نہ سمجھیں۔
اس کے علاوہ آپ کی بطور امام کعبہ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے والی
اتھارٹی یعنی وزارت مذہبی امور کے سربراہ جب پاکستان آئے تو ان کو عوام کی
جانب سے وہ پروٹوکول نہیں ملا، جو آپ کو نصیب ہوا ہے۔ جس کی وجہ فقط اتنی
ہے کہ یہاں کے عوام دیگر شخصیات کو سعودی حکومت کے نمائندے کے طور پر لیتے
ہیں اور آپ کا احترام خانہ کعبہ کی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ عالی محترم! کعبہ
تمام مسلمانوں کا مرکز ہے۔ جس کی تعظیم تمام مسالک کے مسلمان یکساں کرتے
ہیں۔ آپ بھی اپنی اسی نسبت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں، اور اپنی گفتگو
میں تمام مسلمانوں کی نمائندگی کو شامل رکھیں۔ آپ نے بجا فرمایا کہ اسلام
ہمیں تشدد اور فرقہ واریت سے روکتا ہے، تو جناب یمن میں ہزاروں بے گناہ
افراد سعودی عرب کے گولہ بارود کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ کیا اسلام بچوں،
خواتین اور مفلوک الحال لوگوں پر آگ برسانے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ نے بجا
فرمایا کہ تمام مسالک کے درمیان اتحاد کے ذریعے امت کو مضبوط کرنے کی ضرورت
ہے، تو بیت اللہ شریف میں آپ کی اجازت سے کسی اور مسلک، مکتب کا مسلمان
عالم دین امام کعبہ کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔؟ آپ امام کعبہ ہیں، کعبہ تمام
مسلمانوں کا ہے تو پھر آپ فقط ایک ہی مسلک کی نمائندگی کیوں فرما رہے ہیں۔
جناب محترم! سعودی عرب کے قوانین کے بارے میں ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں،
مگر کیا یہ سچ ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے آپ کو امام کعبہ تعینات کیا
گیا ہے، جس کی آپ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا سعودی حکومت
کے احکامات کی پاسداری بھی آپ کے فرائض میں شامل ہے۔؟ تو کیا آپ حکومت
سعودی عرب کے حکم پر پاکستان کا یہ دورہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ حکومتی دورہ ہے
تو پھر اسے مذہبی رنگ کیوں دیا جا رہا ہے۔؟ عرب اتحادیوں نے ملکر مشترکہ
عرب فوج کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس کے باوجود بھی آپ کی حکومت اور اس کے
اتحادی حرمین کے تحفظ سے قاصر ہیں۔ کیوں؟ کیا آپ کے فوجیوں کے دل اللہ اور
اس کے رسول (ص) کی محبت سے سرشار نہیں ہیں۔ کیا آپ کی فوج حرمین کے تحفظ کو
حقیقی جہاد کا درجہ نہیں دیتی، اور کیا آپ کی فوج شہادت کے جذبے عاری ہے۔؟
آپ پوری دنیا کے مسلمانوں کو جہاد، ثواب، شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں، پھر کیا
وجہ ہے کہ آپ کی تبلیغ کا اثر آپ کی اپنی سرزمین کے لوگوں پر نہیں ہوتا۔؟
کیا وجہ ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودی اور حرمین کے تحفظ کے نام پر یمنی
مسلمانوں پر بمباری کرنے سے انکاری ہیں، اور ان کو راضی کرنے کیلئے آپ کو
بھاری انعامات، قیمتی گاڑیوں کا لالچ دینا پڑتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ
آپ کی عرب فوج کے جوان حقیقت سے آشنا ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ یمن کی جنگ خانہ
خدا اور روضہ رسول (ص) کے تحفظ کی جنگ نہیں ہے، بلکہ نصف صدی سے مسلط
بادشاہوں کے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی جنگ ہے۔ جس کے باعث وہ اس کا حصہ
بننے سے کتراتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ باقی مسلم دنیا کے سامنے تحفظ
حرمین کے نام پر جھوٹ کیوں بول رہے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے نبی (ص) نے
جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے۔
آپ کی حکومت کی جانب سے آئے روز نت نئی تجاویز اور ارشادات موصول ہوتے ہیں۔
ہم آپ کی خدمت میں تحفظ حرمین شریفین کی ایک تجویز پیش کرتے ہیں۔ آپ سے
گزارش ہے کہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس تجویز پر غور فرمائے، چونکہ
آپ کی حکومت نے تحفظ حرمین شریفین کے نام پر فوجی مدد مانگی ہے، جو اس بات
کا کلی اعتراف ہے کہ آپ کی حکومت حرمین کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان
ایک بڑی منظم، مضبوط فوجی قوت اور جوہری طاقت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ حرمین کی
حفاظت ہم سے بڑھ کر کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔ لہذا مکہ اور مدینہ عرصہ دس
سال کیلئے پاکستان کی بہادر، غیور، مضبوط فوج کے حوالے کر دیئے جائیں۔ اس
عرصہ میں حج اور زیارات کے سلسلے میں حاصل ہونے والی آمدن بھی ہماری فوج کو
دی جائے۔ آپ کی حکومت کا ہم سے فوجی مدد مانگنا اس امر کا بھی اعتراف ہے
کہ ہماری پاک فوج حقیقی معنوں میں حرمین کے تحفظ کی اہل ہے۔ دس سال کے بعد
دونوں مقدس و محترم شہروں کی حفاظت عالم اسلام کے دوسرے ملک ترکی کے حوالے
کی جائے۔ ترکی بھی ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔
اس کے بعد اگلے دس سال کیلئے حفاظت کی ذمہ داری برادر اسلامی ملک ایران کے
سپرد کی جائے، ایران نہ صرف ایک تجربہ کار، قوی فوج کا حامل ہے، بلکہ اسے
مقامات مقدسہ کی حفاظت کا وسیع تجربہ ہے۔ اس اکیلے نے نہ صرف حرم امام رضا
(ع) کی حفاظت کی بلکہ عراق اور شام تک مقامات مقدسہ کی حفاظت کا حق ادا
کیا۔ ان مقامات مقدسہ کی دشمن کوئی چھوٹی طاقتیں نہیں تھیں۔ بڑے بڑے
بادشاہ، سورما، نام نہاد سپر پاور کے دعویدار اور سی آئی اے، موساد جیسے
عالمی اداروں کے دہشتگردوں نے ان مقامات مقدسہ کی جانب پیشقدمی کی تھی، مگر
ان کا انجام آپ کے سامنے ہیں۔ آپ ہماری تجویز پر عمل فرمائیں، ہم آپ کو
یقین دلاتے ہیں کہ حرمین کی طرف اٹھنے والے ہاتھ اور قدموں کا بھی وہی حال
ہوگا، جو دیگر مقامات مقدسہ کی جانب اٹھنے والے شرپسندوں کا ہوا ہے۔ ہم آپ
کو یہ بھی یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان رہے نہ رہے، ترکی رہے نہ رہے، ایران
رہے نہ رہے، مکہ و مدینہ کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔
جہاں تک حوثیوں کی بات ہے تو انہیں چھوڑیں۔ انہیں یمن میں حکومت کرنے دیں،
وہ اصول پسند، نیک، خوددار دیندار اور بہادر لوگ ہیں۔ وہ آپ کی حکومت کے
لئے خطرہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے اپنی سرزمین پر ان پاکستانیوں کو کوئی
گزند نہیں پہنچائی، جن کے دل میں کعبہ، محمد و آل محمد کی محبت تھی، تو وہ
حرمین شریفین کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں اپنی افواج
بھیجنے کی غلطی بھی مت کیجئے گا، معلوم نہیں ان کا کیا حال ہو، کیونکہ
اسلامی یکجہتی کونسل کے چیئرمین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب اور
اتحادی افواج کی طرف سے یمنی عوام پر بمباری سے مسائل مزید بڑھیں گے۔ جنگ
جتنی بھی طویل اور شدید ہوجائے، اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب
اور یمن کے سیاسی گروہوں کو چاہیے کہ آپس کے مذاکرات سے مسئلے کا پرامن حل
نکالیں، تاکہ خطے میں خوشحالی اور ترقی لائی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ یمن پر
مسلسل بمباری جاری رہی تو وسائل اور اسلحہ رکھنے کے باوجود سعودی عرب کا
یمن میں حشر وہی ہوگا جو روس کا افغانستان اور امریکہ کا ویتنام میں ہوا
تھا۔ اس لئے فریقین کی طرف سے سیاسی بلوغت کا اظہار بہت ضروری ہے۔ امید ہے
کہ آپ یہ تجاویز ضرور اپنی حکومت کے گوش گزار فرمائیں گے، اور انہیں یہ بھی
بتائیں گے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ |