شہر کراچی میں ضمنی الیکشن کے
موقع پر لگنے والی موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی ایک معمہ بن گئی پہلے
یہ پابندی پورے شہر کراچی میں لگائی گئی اس کے بعد شہریوں کی مشکلات کے پیش
نظر اسے صرف ضلع وسطی تک محدود کردیا لیکن پھر 23 اپریل کی علی الصبح تمام
چینلز پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہوگئیں کہ انتخابی حلقے سے ڈبل سواری پر
پابندی ختم کردی گئی ہے لیکن نوٹیفیکیشن جارہ نہیں ہوسکا کچھ وقت تک یہ
نیوز چلتی رہی لیکن ڈبل سواری پر پابندی ہے یا نہیں کسی بھی ادارے نے اس کی
تصدیق نہیں کی لیکن تصدیق صرف ایک ہی طرح سے ہورہی تھی کہ اس انتخابی حلقے
میں ڈبل سواری کرنے والوں کو سیکیورٹی ادارے روکتے اور پابندی پر عمل درآمد
کرا تے نظر آئے جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ڈبل سواری پر پابندی تاحال
برقرار ہے اسی دوران ایم کیوایم کا مطالبہ بھی آگیا کہ ڈبل سواری سے پابندی
ختم کی جائے جس سے اس بات کو مزید تقویت ملی کے پابندی ہے اور اس بات سے
بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کئی لوگوں کو اس پابندی سے کافی پریشانیاں
اٹھانی پڑی ہونگی اپنے پولنگ اسٹیشن تک پوہنچنے میں یا خواتین اور ضعیف
لوگوں کو لے جانے میں ۔
میری تو روح کانپ اٹھی اس وقت جب سندھ کے وزیراعلی جناب قائم علی شاہ صاحب
نے میڈیا پر فرمایا کہ میرے علم ہی میں نہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی لگائی
کس نے اوروہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر ! اب وزیر اعلی کے اس بیان کے بعد تو
بہت ہی خطر ناک صورتحال پیدا ہوگئی کہ سندھ حکومت کے سربراہ اور کراچی میں
جاری آپریشن کے کپتان کو ہی علم نہیں کہ یہ احکامات جاری کس نے کیئے اور اس
پر ستم یہ کہ جب احکامات کسی مستند اتھارٹی نے جاری ہی نہیں کیئے تو اس
احکام پر سیکورٹی اداروں نے عمل درآمد کس وجہ سے کرایا جبکہ ان کے پاس کوئی
بھی احکامات نہیں آئے تھے ابھی ہم اسی سوچ میں تھے کہ یا خدا یہ کیا ہورہا
ہے تو دوسرے دن ڈی جی رینجرز صاحب کا یک بیان آگیا کہ ہم نے ڈبل سواری پر
پابندی لگائی نہ ہی سندھ حکومت سے اس کے لگانے کئ لیئے سفارش کی ساتھ ہی
انھوں نے اپنے ادارے کی جانب سے جاری کیئے جانے والے 20 اپریل کے اس بیان
کی بھی تشریح کردی جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی کی عوام اپنے ساتھ اصلی
شناختی کارڈ رکھیں ورنہ ان کی شناخت ہونے تک انھیں گرفتار کیا جاسکتا ہے اب
انھوں نے کہا کہ عوام شناختی کارڈ کی نقول بھی رکھ سکتے ہیں جو قابل قبول
ہوگی اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہی دونوں باتیں ضمنی الیکشن سے قبل اگر
دونوں اتھارٹی کی طرف سے کردی جاتیں تو عوام میں پیدا ہونے والا ابہام ختم
ہوجاتا لیکن یاب الیکشن کے بعد ہی کیوں وضاحتیں دی جارہی ہیں کیا وزیر اعلی
سندھ ہر چینلز پر چلنے والی بریکنگ نیوز سے بھی بے خبر تھے جس میں بار بار
کہا جارہا تھا کہ ڈبل سواری کی پابندی سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے
میرے خیال میں اسی وقت وزیر اعلی سندھ کو اور ڈی جی رینجرز کو میڈیا پر آکر
وضاحت کرنا چاہیے تھی کہ ڈبل سورای پر کوئی پابندی نہیں ہے اور کراچی کے
عوام شناختی کارڈ کی نقل بھی رکھ سکتے ہیں لیکن ووٹ ڈالنے کے لیئے اصلی
شناختی کارڈ لازمی ہے ۔ میرے خیال میں یہ سب اس وقت کرنے کی ضرورت تھی نہ
کہ اب ۔اب جناب اگر آپ تھوڑی دیر کے لیئے یہ تصور کرلیں کہ واقعی ڈبل سواری
پر پابندی کے احکامات کہیں سے جاری نہیں ہوئے اور یہ میڈیا نے ہی خبر اڑادی
تھی تو صورتحال مزید خطرناک نظر آنے لگتی ہے وہ اس طرح کہ اگر میڈیا کی خبر
پر ہی عملدرآمد شروع ہوجاتا ہے تو خدا نا خواستہ الیکشن کے رزلٹ کے بعد
کریم آباد میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور لوگ ایک وقت میں قطعی بے قابو
ہوگئے تھے اگر اس وقت کہیں سے کوئی خبر چل جاتی کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں
کو گولی مارنے کے احکامات جاری اور اسی طرح ایسی خبر پر بغیر نوٹیفیکیشن
ملے عملدرآمد شروع ہوجاتا تو سوچیں کیا ہوتا جب کوئی ذمہ داری نہ لیتا اور
کہا جاتا کہ یہ احکامات کس نے جاری کئے میرے تو یہ سوچتے ہی پاؤں کے نیچے
سے زمین سرکتی محسوس ہوتی ہے ۔
یہ کوئی ایسی غیر اہم بات نہیں کے اسے بھلا دیا جائے اس کی لازمی تحقیقات
ہونی چاہیں کہ ایسا کس کی وجہ سے ہوا اور اس کا کون زمہ دار ہے اور ان
باتوں کی تردید یا تصدیق الیکشن والے ہی دن کیوں نہیں کی گئی یہ سب اس لیے
بہت ضروری ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا اور اداروں کے درمیان مکمل رابطے اور
ہم آہنگی نہ ہوئی تو ہم کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتے ہیں اور جو رینجرز
پولیس اور تمام سیکیورٹی اداروں نے مل کر اس ضمنی الیکشن کو پرامن اور
مثالی بنایا جس کی تعریف ضرور کرنی ہوگی لیکن جہاں اس طرح کی مبہم باتیں
ہونگی تو ان کی بہترین کارکردگی پر سوالیا نشان ہمیشہ رہے گا جو شکوک و
شبہات پیدا کرتا رہےگا اس لیئے اس وقت اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ان باتوں
کی تہہ تک پہنچا جائے کہ ایسا کس کی غفلت سے ہوا تاکہ آئیندہ ان چیزوں کا
بھی خاتمہ ہوسکے جو اداروں اور شہریوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں۔
|