بسم اﷲ الرحمان الرحیم
صحبت خیر الانام ﷺ سے فیض یافتہ نفوس آسمان ہدایت کے تابندہ ستارے ہیں،ہر
ایک ھدایت یافتہ،اوصاف و کمالات کا جامع اورایمان وایقان کا معیار ہے۔کبار
صحابہؓ میں ایک روشن نام امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ کا ہے جو غیر
معمولی صلاحیتوں کے مالک،سلیم الفطرت،تفقہ اور علم کے شناور اور حکمت و
تدبر کے امام ہیں جن کی تریبت امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خود
فرمائی، صحبت نبویﷺ کا وافر حصہ پانے والے حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ
کوکاتب وحی ہونے کا اعزاز حاصل ہے،نبی کریم ﷺ نے آپ کے لیے ھادی اور مہدی
ہونے کی دعا فرمائی اور آپ ﷺکا ارشاد مبارک حضرت امیر معاویہؓ کے مدبر
وفقیہ ہونے پر سند قوی ہے کہ میری امت میں حضرت امیر معاویہ سب سے زیادہ
بربار ہیں۔ آپ کو بارگاہ رسالت سے مسلمانوں کی خلافت وقیادت کی بشارت ملی،
آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کومخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ اے معاویہؓ!اگر
تمہارے سپرد خلافت کی جائے تو تم اﷲ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا(الاصابہ)۔
حیات نبوی ﷺ میں حضرت امیر معاویہؓ کو دربار رسالت ﷺ میں خصوصی مقام حاصل
تھا ،کتابت وحی کی سعادت کے ساتھ ساتھ بنی کریم ﷺ خدمت کاکوئی موقع اپنے
ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے،قیادت و سیادت خاندانی وصف تھاتاہم حلقہ
اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہوا ،حضرت
عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ،اے اﷲ!
معاویہ ؓ کو کتاب سکھا دے اور شہروں میں اس کے لے ٹھکا نا بنا دے اور اس کو
عذاب سے بچا دے۔(مجمع الزوائد) خلیفہ الرسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور
میں جنگ یمامہ میں بھرپور انداز میں شرکت کی۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ
نے آپ کو 19 ھ میں حضرت یزید بن ابو سفیانؓکی وفات کے بعد گورنر شام مقرر
فرمایا،خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور میں شام کے ساتھ ساتھ
حمص،قنسرین اور فلسطین کے علاقے بھی آپ کے ماتحت کردئیے، آپ اپنے زیر اثر
علاقو ں پر مضبوط گرفت رکھتے تھے، حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ تم
قیصر و کسریٰ اور ان کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ تم میں امیر معاویہ
موجود ہیں، اے لوگو! تم میرے بعدآپس میں تفرقہ بندی سے بچو ، اگر تم نے
ایسا کیا تو سمجھ رکھو معاویہ شام میں موجود ہے۔(الاصابہ)جنگ صفین کے بعد
حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ، اے لوگو!تم معاویہ کی
گورنری اور امارت کو ناپسند مت کرو، اگر تم نے ان کو گم کر دیاتو تم دیکھو
گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کے گریں گے جس طرح حنطل کا پھل اپنے
درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔(البدایہ والنہایہ)حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ
میں نے امیر معاویہؓ سے بڑ ھ کرسلطنت اور بادشاہت کے لائق کسی کو نہیں
پایا۔(الاصابہ)حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے معاویہ سے بڑھ کر سرداری
کے لائق کسی کو نہیں پایا۔(البدایہ والنہایہ)
بحیثیت گورنر شام 25ھ میں آپ نے روم کے خلاف جہاد شروع کیا ،27 ھ میں
انسانی تاریخ کا پہلا جنگی بحری بیڑہ تیار کرواکر قبرص کی طرف روانہ کیا،
ایک سال بعد قبرص پر اسلامی پرچم لہرا کر اس لشکر نے فتح حاصل کی،یہ بہت
عظیم سعادت و بشارت حضرت امیر معاویہ ؓ کے حصہ میں آئی ،جس کے بارے میں نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میری امت کے پہلے لشکر نے جو بحری لڑائی لڑے گا
اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔( صحیح البخاری) 41ھ میں حضرت علی المرتضی ؓ کے
جانشین حضرت حسن ؓ کے ساتھ صلح کے نتیجے میں حضرت امیر معاویہ ؓ امیر
المؤمنین کے منصب پر فائز ہوئے ، اس سال کو تاریخ عرب میں عام الجماعۃ کہا
جاتا ہے یہ وہ سال ہے جس میں امت کا منتشر شیرازہ پھر مجتمع ہو گیا اور
پوری دنیا کے مسلمانوں نے ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔
امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ نے خلافت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے ساتھ
ہی جہاد اسلامی کے رکے ہوئے سلسلہ کو دوبارہ شروع کیا جو حضرت عثمان غنی ؓ
کی شہادت کے وقت سے رکا ہوا تھا،آپ نے رومیوں کے خلاف 16جنگیں لڑیں،49ھ
میں قسطنطنیہ کی طرف زبردست لشکر روانہ کیا،جس میں کبار صحابہ ؓ شامل تھے
لشکر کے سپہ سالار سفیان بن عوف ؓ تھے،یہی وہ خوش نصیب تھے جن کے بارے میں
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ پہلا لشکرجو قسطنطنیہ کا جہاد کرے گا ان کو
بخش دیا جائے گا۔(البدایہ والنہایہ)آپ نے براعظم یورپ،افریقہ اور جنوب
ومشرق ایشیائی ممالک ہندوستان، افغانستان ، بخارا وسمرقند تک خلافت اسلامیہ
کی سرحدوں کو وسعت دی اور مسلم قوت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔
امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنے دور خلافت میں باقاعدہ بحری فوج
کا قیام عمل میں لایااورامیرالبحرجنادہ بن ابی امیہ کو مقررکیا،مصر و شام
کے ساحلی علاقوں پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کئے ،جن سے ایک ہزار سات سو
بحری جنگی جہاز تیار کرکے اسلامی بحری بیڑے میں شامل کئے گے۔ڈاک کے محکمہ
کو توسیع دے کر مزید مستحکم کیا گیا، محکمہ دیوان خاتم کا قیام عمل میں
لایا،خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے خادمین مقرر کئے گے اور حریر و دیباج کا
غلاف تیار کروا کربیت اﷲ پر چڑھایا گیا۔مجموعی طور پر آپؓ اکتالیس (41)سال
تک امارت و خلافت کے منصب پر رہے،علامہ ابن کثیر آپ کی خلافت کے بارے میں
فرماتے ہیں کہ آپ کے دور میں جہاد کا سلسلہ قائم رہا، کلمۃاﷲ بلند ہوتا
رہااور مال غنیمت اطراف سلطنت سے بیت االمال میں آتا رہا،مسلمانوں نے راحت
و آرام اور عدل و انصاف کی زندگی بسر کی۔(البدایہ والنہایہ)آپ کا دور ہر
اعتبار سے کامیاب تھارعایا کوآرام و سکون پہچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے
تھے،رعایا تک ان کاحق پہچانے اور دیکھ بھال کے لیے آپ نے ایک مکمل نظام وضع
کیا کہ ہر قبیلہ اورعلاقہ میں ایک شخص کونمائندہ مقرر کیا کہ وہ اپنے
متعلقین کے احوال معلوم کرتا رہے ،بچے کی پیدائش ہو یا کسی مہمان کا آنااس
کا وظیفہ اور اخراجات بیت المال سے ادا کئے جاتے۔رفاہ عامہ کے لیے نئی
نہروں کی کھدائی اور پرانی نہروں کو از سر نو جاری کیا، مساجد و مکاتب کا
جال بچھایا،دمشق کے غنڈوں اور بدمعاشوں کی فہرست بنوائی، عوامی فلاح و
بہبود کی ہر ممکن کوشش کی، ان تمام اقدامار کا نتیجہ یہ ہوا کہ رعایا میں
آپ کی مقبولیت اور محبوبیت قابل رشک تھی(الادب المفرد، امام بخاریؒ)۔آپ ؓ
عام مسلمانوں کے حالات میں دلچسپی لیتے اوران کی شکایات کو بغور سنتے،پھر
حتیٰ الامکان اس کو دورفرماتے تھے ۔مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کا
دور خلافت میں امن ،خوشحالی اورفتوحات ہونے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے
لحاظ سے کامیاب ترین دور تھا۔
حضرت امیر معاویہ ؓ نے پوری زندگی عوامی خدمت اور اسلام کی تبلیغ و ترویج
کی جدوجہد میں گزار ی، 60ھ میں اٹھتر سال کی عمرمیں خلافت اسلامیہ کا عظیم
باب ،علم و حلم اور تدبر کا مہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا،آپ کی نماز
جنازہ حضرت ضحاک بن قیس نے پڑھائی اور آپ کی تدفین دمشق میں ہوئی ۔ |