پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر بھی اﷲ کو پیارے ہوئے

علم و ادب کا درخشندہ آفتاب ، گوہر نایاب، بے شمار کتابوں کے مصنف ، بلوچستان پر تحقیق کا معتبر حوالہ ، تاریخ دان و مورخ ، نفیس انسان کوئٹہ کے سابق ڈائریکٹر تعلیمات پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر بھی اﷲ کو پیارے ہوئے۔مجھے ان کے سانحہ ارتحال کا علم ہماری ویب پر لکھنے والے ساتھی غلام ابن سلطان (غلام شبیر) کے مضمون ’ ڈاکٹر انعام الحق کو ثر: وقت کی گو د میں لمحات نے دم توڑ دیا‘ سے ہوا۔ میں گزشتہ ایک ماہ سے جدہ میں ہوں، یہاں دنیا سے بے خبری کا راج ہوتا ہے۔ نیٹ پر اخبار پڑھ لیا تو کچھ احوال اپنے ملک کا مل گیا ورنہ بلیک آؤٹ والی کیفیت ہوتی ہے۔ اگر میں ہماری ویب پر موجود یہ مضمون نہ دیکھتا تو اس قدر اہم خبر سے نہ معلوم کب تک بے خبر رہتا۔ اردو ادب کا یہ لکھاری میرا مہربان ، شفقت سے پیش آنے والا، بلوچستان میں میری میزبانی اور مجھے کچھ وقت سے نوازنے والا 14دسمبر 2014کو لاہور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا۔میری لاعلمی ہی تھی کہ مجھے اپنے اس مہربان دوست کے انتقال کا بر وقت علم نہ ہوسکا۔ بہت دکھ اور افسوس ہے۔ میں تو اپریل کے شروع میں جدہ آیا تھا۔ آج حسب معمول ہماری ویب کے مضامین دیکھ رہا تھا کہ یہ مضمون نظر سے گزرا، مضمون پڑھ کر ڈاکٹر صاحب سے اپنے تعلق اور ان کی محبت کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ابھی کل ہی کراچی میں علم کا ایک اور چراغ بجھادیا گیا ۔ جامعہ کراچی کے ایک استاد ڈاکٹرسید وحید الرحمٰن کو نامعلوم افراد نے گولیوں سے ایسا چھلنی کیا کہ علم کی یہ شمع اسی جگہ ، اسی لمحہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل ہوگئی۔ آج مجھے مدینہ بھی جانا ہے ارادہ تھا کہ فجر کی نماز کے بعد کراچی میں ہونے والے علم و ادب کے معماروں کے بلا جواز ، افسوس ناک سانحات پر لکھوں گا۔ جوں ہی ڈاکٹر کوثر کی خبر سامنے آئی میری سوچ کا دھارا اپنے اس مہر بان کی جانب ہوگیا ۔

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے میری انگلیاں ساتھ نہیں دے رہیں ، دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہورہی ہے ، نظروں کے سامنے ڈاکٹر صاحب مرحوم کا چہرہ اور ان کی برد بارشخصیت گفتگو کرتی نظرآرہی ہے۔ لیکن موت تو ایک حقیقت ہے ، ہر ایک کو جو اس دنیا میں آیا ایک نہ ایک دن واپس لوٹنا ہی ہے۔ بس وقت مقرر ہے۔ ڈاکٹر کوثر نے 83 سال عمر پائی ، بھرپور زندگی گزاری، جی بھر کے ادبی و علمی کام کیا ، علم و ادب کی خدمت کی اور طبعی طور پر دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں انشاءاﷲ خانہ کعبہ میں اور مدینہ منورہ میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے لیے بلند درجات کی دعا کروں گا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کی علمی و ادبی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر سے میرا تعلق ایک محقق کی حیثیت سے شروع ہوا۔ میری پی ایچ ڈی تحقیق حکیم محمد سعید کی کتاب اور کتب خانوں سے تعلق کے حوالے سے تھی ۔ اس حوالے سے مجھے ان لوگوں سے جو حکیم صاحب سے زیادہ قریب تھے اس موضوع پر گفتگو کرنا تھی یعنی انٹر ویوز کرنا تھے اور وہ میں نے کیے جو میرے تحقیقی مقالے میں شامل ہیں۔ان شخصیات میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر بھی شامل تھے کیونکہ وہ بھی حکیم صاحب کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھے جو بلوچستان میں ہمدرد کے تحت ہونے والے علمی و ادبی پروگراموں مثلاً شامِ ہمدرد کے انعقاد اور دیگر امور کی نگرانی کیا کرتے تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر سے میری پہلی ملاقات 2003میں کوئٹہ میں ہوئی ۔ اس وقت وہ بلوچستان کے ڈائیریکٹر تعلیمات تھے۔ جب میں نے انہیں ملاقات کی وجہ سے آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے اسی دن اپنے گھر آنے کی دعوت دی کوئٹہ میں سیٹلائٹ ٹاؤن میں ان کی رہائش تھی۔ ان سے جو گفتگو ہوئی وہ ذیل میں درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ مزاج انسان تھے۔ دن بھر آفس میں مصروف رہنے کے باوجود جوں ہی گھر پہنچے نماز سے فارغ ہوکر مجھ سے تفصیلی گفتگو کی۔ میں کراچی آکر اپنی مصروفیات میں کھو گیا۔ پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی ، ڈگری بھی مل گئی، ڈاکٹر صاحب کوئٹہ سے ریٹائر ہوکر لاہور چلے گئے۔یہ بات ہے 2014کے ابتدائی دنوں کی ایک دن میرے موبائل پر فون آیا، انہوں نے سلام کیا میں نے جواب دیا ، گویا ہوئے میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر لاہور سے بات کر رہا ہوں۔ آپ نے مجھے پہچانا، یہ آواز اور جملہ سن کر میں فوری طور پر حیرت اور ندامت کے احساس میں کھو گیا ، پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں کوئٹہ میں آپ کی عنایت کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ مجھے آپ بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ پھرکہنے لگے کہ میں کوئٹہ سے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور آگیا تھا اور اب یہی پر ریٹائر لائف گزار رہا ہوں۔انہوں نے مجھے اپنا ایڈریس بھی غالباً واپڈا ٹاؤن کا نوٹ کرایا ۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ اب میںجب بھی لاہور آیا آ پ سے لازمی ملاقات کروں گا۔ میرے ایک اور علمی دوست صابر لودھی بھی واپڈا ٹاؤن میں رہتے ہیں میں ان سے ملنے جایا کرتا ہوں آپ سے بھی ضرور ملاقات کرونگا۔ یہ ہوتی ہے انسان کے نیک ، بلند کرادار اور واقعتا بڑا ہونے کی نشانی ۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں نے پی ایچ ڈی مکمل کی یا نہیں۔ کہنے لگے کہ آج میری ڈائری میں آپ کا نمبر سامنے آیا تو سوچا کہ آپ سے سلام دعا کر لوں۔ میں اپنے دیگر سفر کے معاملات اور کراچی کی ادبی و علمی مصروفیات میں ایسا مصروف ہوا کہ اس سال لاہور جانا ہی نہیں ہوا۔ اور ڈاکٹر صاحب قبلہ اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ جس طرح شہید مرا نہیں کرتے اسی طرح علمی و ادبی کام کرنے والے دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی علمی ، ادبی،تصنیفی و تالیفی خدمات انہیں امر رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا علمی سرمایا خاص طور پربلوچستان کے حوالے سے انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا، محققین، مصنفین اور طالب علم اُس سے فیض حاصل کرتے رہیں گے۔اﷲ تعالیٰ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ذیل میں وہ انٹر ویو ہے جو راقم نے ۹۱ جون ۳۰۰۲ءبروز جمعرات ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ واقع سیٹلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ، بلوچستان میں لیا تھا اور یہ میرے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بھی شامل ہے۔

تعارف :
پروفیسرڈاکٹرانعام الحق کوثرکا تعلق پا کستان کے صوبہ بلو چستان سے ہے۔ آپ ایک ما ہر تعلیم ‘ ادیب ‘ دانشور ‘ مصنف و مترجم ہونے کے علاوہ بلو چستان میں حکیم محمد سعید شہید کے دستِ راست اور قریبی ساتھی تھے ۔ بلو چستان میں ہمدرد کے تحت تما م علمی و ادبی پروگرم آپ ہی کی نگرانی میںمنعقد ہو اکرتے تھے۔ ڈا کٹر کو ثر کے با رے میں شہید پا کستان کا کہنا تھا کہ ’بلو چستان میں یہ میرا مرد سعید ہے ‘ ۔ ڈاکٹر صاحب کی پو ری زندگی علمی و تحقیقی خدما ت سے عبا رت ہے۔ آپ سو(100) سے زیا دہ کتابوں اور 150 سے زیا دہ تحقیقی مقا لات کے خالق ہیں۔ کتا ب اور کتب خانو ں کے حوالے سے بلو چستان کے تعلیمی اور ادبی حلقوں میںآپ کو ایک معتبراور اعلیٰ مقا م حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ وزارت تعلیم ، حکومت پا کستان کے قائم کردہ ’ٹیکنیکل ور کنگ گروپ‘ جسے پا کستان میں عوامی کتب خانو ں کے لئے ایک مربوط نظام تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی نے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور وہاں کی اہم شخصیات سے انٹر ویوز کئے تو بلوچستان سے ڈاکٹر انعام الحق کوثر سے بھی تفصیلی انٹر ویوکیا ۔

آپ کی علمی و تحقیقی خدما ت اور شہید پا کستان سے تعلق کے حوا لے سے را قم نے شہیدحکیم محمد سعید کے با رے میں ڈا کٹر کوثر کے خیا لات سے استفادہ کر نے لئے خصو صی انٹر ویو کیا ۔ 19 جون 2003ءبروز جمعرات بلو چستان یو نیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس کے بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ میں شرکت کے مو قع پر راقم نے ڈا کٹر صا حب سے ان کے آفس فون پر مدعا بیا ن کیا اور ملا قات کی درخواست کی ۔ آپ نے ازراہِ عنا یت گھر کا پتہ بتا یااور کہا کہ میں ظہر کی نماز پڑھ کر گھر پہنچ رہا ہوں آپ بھی آجا ئیے۔ انتہا ئی شفقت اور محبت سے ملے ۔یہ جان کر بے انتہا خوش ہو ئے کہ میں شہید پا کستان کی ان خدما ت پر تحقیق کررہا ہوں جو انہو ں نے پا کستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی کے لئے انجا م دیں۔ آپ نے اس مو ضوع کو انتہا ئی اہم اور وقت کی آواز قرار دیا۔

ڈاکٹر کو ثر نے اپنے با رے بتایا کہ وہ بلو چستان کے پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد 1963ءمیں پی ایچ ڈی کی سند حا صل کی۔ آپ نے ۶۵۹۱ءمیں گورنمنٹ کا لج کو ئٹہ سے تدریس کا آغاز کیا ۔ 1969ءمیں اسسٹنٹ پروفیسر ہو ئے ، پہلے گورنمنٹ کا لج مستو نگ بعد از آں گورنمنٹ کا لج لورالائی کے پرنسپل کے فرا ئض انجا م دئیے، بلو چستان یو نیورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدما ت انجام دیں۔ 1980ءمیں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کو ئٹہ کے چیر مین مقرر ہو ئے ۔ 1985ءمیں ڈا ئریکٹر تعلیمات بلو چستان کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اسی حیثیت سے 1991ء،میں ریٹا ئرہو ئے۔

ڈاکٹر کو ثرکو ان کی تعلیمی اور علمی خدمات کے اعتراف میں بے شمارعلمی ‘ ادبی ‘ سماجی تنظیموں کی جا نب سے انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ہمدرد کی جا نب سے 1982ءمیں آپ کو وثیقہ اعتراف پیش کیا گیا، 1998ءمیں حکومت پاکستان کی جا نب سے آپ کو صدارتی تمغہ حسن کارکر دگی سے نوازا گیا۔ ڈا کٹرصا حب بطور اقبال شناس ‘ محقق ‘ غا لب شناس ‘مصنف و مترجم اور نقاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا تحریری سر مایہ ہما ری تاریخ کا اہم ورثہ ہے۔ بلو چستان کے حوا لے سے آپ نے بے شمار تخلیقی کا م کیا۔

شہید پا کستان سے اپنے تعلق کے با رے میں ڈاکٹر کو ثرنے بتا یا کہ شا م ہمدرد کے حوالہ سے حکیم محمد سعید سے تعلق قا ئم ہوا وقت کے سا تھ سا تھ یہ تعلق گہرا ہو تا گیا حتیٰ کہ قلبی تعلق میں بدل گیا۔وہ بہت ہی صاف ستھری شخصیت کے مالک تھے ۔ جیسے وہ با ہر سے صاف شفاف نظر آتے تھے ان کا اندرون اس سے بھی زیادہ شفاف تھا۔ صاف گو اور بے باک ساتھ ہی نڈر جو بات درست سمجھتے بر ملااس کا اظہار کر دیا کرتے تھے۔انہوں نے احکام خداوندی اور شریعت محمدی پر عمل پیرا ہو کر بیمار انسانوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اور ان کی دلنوازگفتگو نے ہزاروں انسانوں کے لیے مرہم کا کام کیا۔

ڈاکٹر کو ثرکا کہنا ہے کہ حکیم صا حب کی شہادت کے بعدانہوں نے با قاعدہ طور پر شہید پا کستان کو ” فخر ملت “ کا خطاب دیا۔ ڈاکٹر کو ثرکی ذا تی لا ئبریری انتہا ئی نا یاب و نا در کتا بوں سے مزین ہے ۔ آپ نے بتا یا کہ قیام پا کستان سے قبل آپ کے گھر کی لا ئبریری میں نا در و نا یا ب تصانیف کے علا وہ فا رسی کے قلمی نسخے بھی تھے ،تا سیس پا کستان کے وقت یہ سب قیمتی اسناد اور کتا بیں ضا ئع ہو گئیں۔ آپ کو کتابوں سے محبت اور کتا بیں جمع کر نے کا شوق ابتدا ہی سے ہے۔ آپ نے کہا کہ میرے پاس ملا محمد حسن براہوی کا دیوان مو جود ہے جو ایک نا یا ب تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صا حب اب کتا ب کلچر کے فروغ کے لئے مصروف عمل ہیں۔

آپ کو تحقیقی مقالہ ” باباشیرازی فغانی اور اس کے عہد کے شعراء“ اور ” بلو چستان میں اردو “ جیسی کتاب نے شہرت بخشی۔ آپ بلو چستان کے ماضی و حال کے علمی ورثہ سے پوری طرح با خبر ہیں۔ بلو چستان کی تاریخ اور ادب مین تحقیقی اور تخلیقی کام کو آپ نے اپنی زندگی کا مقصد بنا یا ۔

بلو چستان کے حوا لے سے شا ید ہی کوئی مو ضوع یا گوشہ ایسا ہوگا جو ڈا کٹر صاحب کی نظر سے اوجھل ہو اور آپ نے اس پر کام نہ کیا ہو ۔ آپ کو بلا شبہ بلو چستان پر ایک مستند اور معتبر محقق کی حیثیت حاصل ہے۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437890 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More