وائٹ کالر دھاندلی

جسارت کے سابق فنانس منیجر جناب فخر محی الدین فاروقی صاحب ملک میں کرپشن کی صورتحال کے حوالے سے انگلش کے ایک جملے کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے جس سے کرپشن کے پھیلاؤ کے اسباب کا اندازہ ہوتا تھا جملہ یہ ہے Law maker is limited and Law breaker is unlimited یعنی قانون بنانے والوں کے سامنے بے شمار تحدیدات ہوتی ہیں جبکہ قانون توڑنے والے تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں ۔پاکستان میں بڑے ذہین لوگ پائے جاتے ہیں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں دیکھیں تو آج ہی مجھے یہ خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ مسجد الحرام کے پانچ اماموں میں سے دو اماموں کے معلمین کا تعلق پاکستان سے ہے ،دوسری طرف آئے دن شائع ہونے والی ان خبروں پر دل دکھتا ہے کہ سعودی عرب میں ہیروئن یا نشہ آور اشیاء کی اسمگلنگ کے جرم میں جن لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ان میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے ۔

قومی اسمبلی کے حلقہ 246کے ضمنی انتخابات میں ویسے تو رینجر نے شفاف پولنگ کے بڑے اچھے انتظامات کیے تھے ،سما ٹی وی سے ایک ٹاک شو میں ایم کیو ایم کے فاروق ستارصاحب پی ٹی آئی کے شاہ محمود صاحب سے ہنستے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ اس دفعہ تو فرشتے آپ کے ساتھ ہیں شاہ محمود صاحب نے بھی اسی طرح ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک کے انتخابات میں آپ کو فرشتوں کی حمایت حاصل تھی ۔فاروق ستار کا درپردہ اشارہ اس طرف تھا کہ یہ سیٹ آپ کو دلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ ،فرشتے ،نادیدہ قوتیں وہ اصطلاحات ہیں جو ہر الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کا مشاہدہ ہمیں 2002کے انتخابات میں اس وقت ہوا جب لانڈھی کورنگی کی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے اسلم مجاھد کی رات کو فتح کا اعلان ہو گیا لیکن دوسرے دن معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم حقیقی کے محمود ہاشمی کو کامیاب قرار دے دیا گیا ایم کیو ایم حقیقی کی عوامی پوزیشن کیا تھی یہ سب جانتے تھے ۔اسی طرح 1999میں پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی انتخاب میں لیاقت آباد کی یو سی 6بندھانی کالونی سے جماعت اسلامی کے اشرف بندھانی کو کامیاب ہوئے دوروز تک اخبارات میں ان کا نام بھی آتا رہا پھر اچانک پتا چلا کہ کوئی دوسرا اس پر کامیاب ہوا ہے اس میں ڈرامہ یہ ہوا کہ بندھانی کالونی کے پولنگ اسٹیشن جہاں خود ناظم کا اور اس کے اہل خانہ کے ووٹ تھے اس کے تمام چھ سو سے ازئد ووٹ مخالف امیدوار کے دکھائے گئے اور جماعت اسلامی کے امیدوار کے صفر جب کہ جماعت کاامیدوار کا اپنا ووٹ اسی اسٹیشن میں پڑا تھا ،بہر حال مقدمات سے کچھ نہیں ہوا جب کسی اہم ذریعے سے ایک فرشتے کے پاس پہنچے تو اس نے اپنالیپ ٹاپ کھولا اور کچھ دیر سرچ کرنے کے بعد کہا کہہ رزلٹ ٹھیک ہے یہ نشست جس کو جانا چاہیے تھی اسی کو گئی ہے ،بس قصہ ختم رات گئی بات گئی ۔
23اپریل کو جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اس میں اسٹبلشمنٹ اور ایم کیو ایم کی ذہانت کا مقابلہ تھا کہ کچھ انتظامات رینجر والوں نے بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کو جتانے کے لیے کیے ہوں گے اور ایم کیو ایم کے امیدوار کے لیے ایسے انتظامات کے ووٹ کم پڑیں ان کو سرکار کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف ایم کیو ایم نے بھی ایسے انتظامات کیے تھے وائٹ کالر بوگس ووٹنگ بھی ہوتی رہے اور رینجرز کی حرکات و سکنات پر بھی گہری نظر رکھی جائے ۔ایم کیو ایم نے رینجر کو پریشر میں لینے کے لیے ہر پولنگ اسٹیشن کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ اکٹھا کر کے رکھا تھا جو مسلسل نعرے بازی کر کے رینجر اور انتظامیہ کو اعصابی تناؤ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنا کوئی کھیل ٹھیک سے نہ کھیل سکیں ۔

ایک مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے جہاں انتظامیہ نے کچھ اقدامات کیے ہوں گے وہیں ایم کیو ایم نے بھی آبادی میں اپنے رابطوں کا ٹھیک ٹھیک استعمال کیا کہیں پیار و محبت سے کہیں دھونس و دھمکی اصلی اور نقلی دونوں قسم کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لے کر آئے ،اصلی تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن یہ نقلی ووٹروں سے کیا مراد ہے اس پر بعد میں بات کریں گے ،اس وقت اس نکتہ پر بات ہو جائے وائٹ کالر دھاندلی کا کیا مطلب ہے آپ نے وائٹ کالر کرپشن کا نام سنا ہو گا یہ وہ کرپشن ہوتی ہے جس کا ثبوت ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے اگر کوئی پکڑ میں آبھی جائے تو اس پر کرپشن ثابت نہیں ہو اور وہ آسانی بچ جاتا ہے ۔وائٹ کالر انتخابی دھاندلی میں بھی ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے ،اس دھاندلی کا آغاز انتخابی فہرستوں سے ہوتا ہے ۔اس ضمنی انتخاب میں وہی فہرستیں استعمال ہوئیں ہیں جن پر 2013کے متنازعہ انتخابات ہوئے تھے یہ فہرستیں ایم کیو ایم کے دفاتر میں تیار ہوئیں پہلا کام تو یہ کیا کہ جن لوگوں کے مستقل رہائشی پتے کراچی سے باہر کے تھے ان کے نام اس میں سے منہا کرادیے گئے یہ سب اینٹی ایم کیو ایم ووٹرز تھے ،دوسری بات یہ ہوئی کہ کراچی کے دوسری جگہوں پر رہنے والے اپنے کارکنان کے ووٹ بھی یہاں سے درج کرادیے تیسرا کام یہ ہوا کہ اس درمیان میں جتنے لوگ مرچکے ہیں ان کی الگ سے فہرست بنا کر ان تمام ووٹوں کو احتیاط سے بھگتانے کی کوشش کی گئی ،اس کام کے لیے انھوں نے شناختی کارڈ بھی لوگوں سے جمع کیے اس کا توڑ حکومت نے یہ نکالا کہ شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کی پابندی عائد کردی اس کے جواب میں فاروق ستار نے پریس کانفرنس کر کے یہ کہا ہم کوئی شناختی کارڈ وغیرہ جمع نہیں کررہے ہے ایک لحاظ سے انھوں نے اس کی تردید کی ۔لیکن عملاَ ہوا یہی ہے کہ ایم کیو ایم نے فہرست میں موجود ہر ووٹ کو بھگتانے کی کوشش کی ہے جب کہ اندر پولنگ آفیسر بھی آپ کا اپنا ہو ۔پھر ایک اہم کام یہ بھی ہوا کہ ایم کیو ایم نے اپنے دیگر تین کورنگ امیدواروں کو بھی کھڑا رکھا اب ایم کیو ایم کے پاس افراد کی کمی تو ہے نہیں دوسری جماعتوں سے اس نسبت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جیسے جماعت اسلامی کا یک کارکن تو ایم کیو ایم کے سو کارکنان ۔اس طرح انھوں نے اپنے چار امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس اندر بٹھا دیے ۔اب دیکھیے اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ میرا نام جاوید احمد خان ولد عبداﷲ خان ہے اب مجھے فرید ولد حمید کا شناختی کارڈ دے کر اندر بھیجا جاتاہے فوٹو اس میں حمید صاحب ہی کی لگی ہے اب پولنگ آفیسر نام پکارتا ہے حمید ولد فرید اور شناختی کار ڈنمبر بھی بتاتاہے چار پولنگ ایجنٹس ایک ہی جیسے بیٹھے ہیں جو متفقہ طور پر کہتے ہیں ہاں ٹھیک ہے اب وہاں پر جماعت کا ایک ہی پولنگ ایجنٹ ہے وہ خود بھی اپنی فہرست پر اس نام پر ٹک لگاتا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ شناختی کارڈ کس نے چیک کرنا ہے بنیادی طور پر یہ سرکاری عملے کہ پولنگ آفیسر کاکام ہے جو ان کا اپنا ہے اس لیے وہ تو فوٹو دیکھتا ہی نہیں رینجر کے سپاہی کاکام صرف چاروں طرف نظریں دوڑانا ہے کہ کہیں کوئی ٹھپے تو نہیں لگارہا اس لیے اس کو شناختی کارڈ والے کے چہرے سے کارڈ کے چہرے کو ملا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اب آخر میں پولنگ ایجنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کارڈ چیک کر سکتا ہے اب چار ایک طرف ہو گئے تو پانچواں پولنگ ایجنٹ اگر ہمت والا ہو گا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا کارڈ چیک کرائیں عموماَ لوگ صرف اپنی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ گنتی رکھتے ہیں اب تک کتنے ووٹ ڈالے گئے ۔اس مثال سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ خواتین کے شناختی کارڈوں پر تو تصاویر ہوتی ہی نہیں اس میں یہ سارا پراسس آرام سے مکمل ہو جاتا ہے ۔دوسری طرف چونکہ پریذایڈنگ آفیسرکے کمرے میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں تھے اس لیے اس کے کمرے میں ایک امیدوار نے ٹھپے لگتے ہوئے دیکھا تھا یہ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ تھپے رینجر کی نگرانی میں اس کے پسندیدہ امیدوار کے لیے لگ رہے تھے یا ایم کیو ایم حامی پریذائڈنگ آفیسر کی نگرانی میں ایم کیو ایم کے لیے لگ رہے تھے ۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ انتخاب دھاندلی سے جیتا گیا ہے اگر ہم بہت زیادہ پچیس ہزار ووٹ دھاندلی کے لگا لیں تو بھی ایم کیو ایم کے ستر ہزار ووٹ دونوں شکست خوردہ امیدوارں کے مجموعی ووٹوں سے دوگنے ووٹ ہیں اس لیے ان آبادیوں میں ایم کیو ایم دیانت داری سے ہی انتخاب میں حصہ لے تو وہی جیت سکتی ہے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.