عقیدہ کی اہمیت
(علامہ سیف علی سیالوی , چنیوٹ)
عقیدہ ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر
تمام مذہبی اعمال اور روحانی احوال کی عمار ت کھڑی کی جاتی ہے ۔صاحب منجد
لکھتے ہیں ۔ العقیدہ جس پر پختہ یقین کیا جائے جس کو انسان دین بنائے اور
اس پر اعتقاد رکھے (المنجد مطبوعہ دارلاشاعت کراچی صفحہ 668)
اور جس عمارت کی اساس ہی باطل ،فاسد اور کمزور ہو تو اس پر تعمیر ہونے والی
عمارت کا کیا اعتبار ہوگا ۔تمام مذہبی اعمال اور روحانی احوال کے لئے عقیدے
کا درست ہونا نہایت ضرور ی ہے ۔عقیدہ مذہب کے لئے بمزلہ روح اور جان کے ہے
اور باقی تمام افعال و اعمال انسانی جسم او ر اعضاءکی مانند ہیں ۔عقیدہ جڑ
اور تنے کی مانند ہے اور اعمال و افعال شاخوں کی ما نند ۔تو جس درخت کی جڑ
ہی خشک ہو اسی کی شاخیں کیسے سر سبز رہ سکتی ہیں ۔اور اس پر پھل کیسے لگ
سکتا ہے ۔بظاہر انسان جتنا نماز ی ،حاجی ،سخی یا پر ہیز گار ہو جب تک اس کا
عقید ہ درست نہ ہوگا مذکورہ اعمال اس کو کو ئی فائد ہ نہ دیں گے کیونکہ جب
جڑہی خشک ہے تو شاخیں کیسے ہری بھری ہوسکتی ہیں ۔حضرت غوث اعظم رحمة اللہ
علیہ ارشاد فرماتے ہیں
در خانہ بے روزن یعنی لحد تاریک
ہر جان تو خواہد تافت شمس و ترے دیگر
ترجمہ: اے بندے اگر تو حق کی خدمت کرنے والا ہے حق کا طلبگا ر او رحق شناس
ہے تو تاریک قبر کے اندھیر ے میں بھی تیرے لئے نور حق کا چاند اور نیا سورج
چمکے گا۔
عجیب دور ہے کہ نماز ،روزہ اور دیگر اعمال صالح کی تبلیغ تو بہت کی جاتی ہے
لیکن عقیدے کی بات کرنے والے کو فرقہ پرست کہا جاتا ہے حالانکہ قرآن مجید
میں 81 مرتبہ ۔ان الذین امنو وعملو الصلحت ۔الخ ۔فرما کر عقیدہ کو پہلے
اعمال کوبعد میں ذکر کیا گیا ہے ۔پنجگانہ نماز بمعہ تہجد ،اشراق ،چاشت اور
اوابین پڑھیں اور سو سال تک پڑھتے رہیں ۔لیکن اس وقت تک عذاب الٰہی سے بچ
نہیں سکتے جب تک کہ ایمان و عقیدہ درست نہیں کرلیںگے ۔کیا اس طرح کے اعمال
منافقین کے پاس کم تھے ؟مگر اس کے باوجود قرآن حکیم فرماتا ہے ۔منافقین
جہنم کی نچلی تہہ میں ہوں گے ۔مکان اگر انتہائی خوبصورت سنگ مرمر اور دیگر
لوازمات سے مزین ہو لیکن اس کی بنیاد ہی مضبوط نہ ہوتو کسی وقت بھی زمین پر
آگرے گا ۔بنیاد اگر چہ نظر نہیں آتی لیکن مکان کی مضبوطی کا مدار اس بنیاد
پر ہوتا ہے ۔اسی طرح اگرچہ عقیدہ نظر نہیں آتا مگر اعمال صالحہ کے محل کا
انحصار عقیدے پر ہی ہے ۔
امام ربانی مجد د الف ثانی شیخ احمد سر ہندی علیہ رحمة ارشاد فرماتے ہیں
۔شریعت کے دو جز ہیں ۔(۱)عقیدہ (۲)عمل ۔عقیدہ دین کی جڑ ہے اور عمل اس کی
شاخ ہے جس شخص کا عقیدہ صحیح نہ ہو وہ اہل نجات میں سے نہیں ہے اور عذاب
آخرت سے نہیں بچ سکتا ۔لیکن اس کے اعمال کمزور ہوں تو اس کی نجات کی امید
ہے ۔
عقیدہ اہلسنت
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقیدہ کون سا سچا ہے ؟ تو قرآن حکیم اس سوال کا
جواب دیتا ہے ”واذاقیل لھم امنو کما امن الناس (البقر ہ ۳۱)عقیدہ وہ سچا ہے
جو صحابہ کرام علیھم الرضوان کا عقیدہ ہے ۔
علامہ احمد صاوی علیہ الرحمة فرماتے ہیں وہذ التفرق من بعد الصحابةفالنا جی
من کانا علی قد می النبی و اصحابہ(تفسیر صاوی مطبوعہ مکتبہ غوثیہ جلد اول
صفحہ 258)
حضرت مجد الف ثانی شیخ احمدسر ہند ی علیہ رحمة حدیث پاک درج کرتے ہیں الذین
ہم علی ما انا علیہ واصحابی جنتی وہ لوگ ہیں جو میرے اور میرے صحابہ کے
طریقہ پر ہیں (مکتوبات مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور جلد اول مکتوب 80)
شیخ ابو محمد حسن بن علی البربہاری علیہ رحمتہ الباری لکھتے ہیں کہ وہ
بنیاد یں جس پر جماعت کو قائم وکھڑا کیا جائے وہ محمد ﷺ کے صحابہ کرام
علیھمالرضوان ہیں وہی اہلسنت و جماعت ہیں جو ان سے رہنمائی نہیں لے گا وہ
گمراہ ہوجائے گا (منہج سلف صالحین مطبوعہ انصار السنتہ پبلی کیشنر لاہور
صفحہ 45)
شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی علیہ رحمتہ القوی فرماتے ہیں کہ مذہب صحیح جسے
صحابہ کرام علیھم الرضوان اور تابعین نے وضاحت سے بیا ن فرمایا ہے اور
اہلسنت سنت و جماعت نے اسی کو اختیار کیا (تفسیرعزیزی مطبوعہ لاہور جلد دوم
صفحہ 29)
شیخ حسین بن مسعود بغوی شافعی علیہ رحمة :۔اھد نا الصرط مستقیم کی تفسیر
میں لکھتے ہیں کہ سید ھا راستہ اہلسنت و جماعت کا راستہ ہے (معالم التنزیل
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے
دن اہل سنت وجماعت کے چہرے روشن و چمکدار ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ
ہوں گے (تفسیر قرطبی مطبوعہ بیروت ،معالم التنزیل مطبوعہ بیروت ۔الخازن
مطبوعہ مکتبہ فاروقیہ پشاور ۔البحر المحیط مطبوعہ بیروت ۔درمنثور مطبوعہ
ضیاءالقرآن لاہور ۔مظہری مطبوعہ ضیا ءالقرآن لاہور ،ابن کثیر مطبوعہ
ضیاءالقرآن لاہور،الوسیط مطبوعہ بیروت ،حسینی مطبوعہ تاج پبلشنگ لاہور
۔التذکرہ مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور جلد اول صفحہ 480،تاریخ بغداد مطبوعہ
بیروت جلد 7صفحہ 391،فتح البیان مطبوعہ بیروت از بھوپالی ،فتح القدیر
مطبوعہ بیروت از شوکانی ،تفسیر محمد ی مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور از
حافظ لکھوی،مواہب الرحمن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور، تفسیر و حیدی مطبوعہ
ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور ۔معارف القرآن مطبوعہ ادارة المعارف کراچی از
مفتی شفیع ،معارف القرآن از ادریس کاندھلوی مطبوعہ مکتبہ الحسن لاہور
،تیسیر الرحمن از لقمان سلفی مطبوعہ الریاض ،توضیح القرآن از عبدالرشید غیر
مقلد مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ،الکشف و البیان مطبوعہ بیروت ،عقید ہ
واسطیہ مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث فیصل آباد صفحہ 9،مجموعہ رسائل از مولوی امین
صفدر مطبوعہ گوجرانوالہ جلد 3صفحہ 70،اور حاشیہ صلاح الدین یوسف مطبوعہ
سعودیہ زیر آیت یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ )
علامہ خفاجی علیہ رحمتہ الباری لکھتے ہیں اہل بدعت وہ ہیں جو اہل سنت کے
عقائد کے خلاف ہیں نیز لکھتے ہیں کہ جو اہلسنت سے نکل گیا وہ اسلام سے نکل
گیا(نسیم الریاض مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان جلد 4صفحہ 475)۔
شمس الدین محمد بن ابی العباس شہاب الدین الرملی الشافعی فرماتے ہیں ۔بدعتی
وہ ہے کہ جس کا عقیدہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہوکہ اہلسنت کے عقائد وہ ہیں
جن پر رسول اللہ ﷺ آپ کے اصحاب اور ان کے مابعد والے تھے (نہا یة لمحہتا ج
مطبوعہ مکتبہ توفیقیہ مصر جلد 8صفحہ 463)
اما م ابن حجر عسقلانی علیہ رحمةفرماتے ہیں بدعت سے مراد و ہ اعتقاد ہے جو
اہلسنت و جماعت کے خلا ف ہو(فتح الباری مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی جلد
2صفحہ 240)
ابن بطہ عکبری علیہ رحة لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن قیس ملائی علیہ
رحمةفرماتے ہیں جب تو ایسے نوجوان کو دیکھے جو اہل سنت و جماعت کے ساتھ
پروان چڑھاہے ۔تو اس سے امید رکھ اور جو اہل بدعت کے ساتھ پروان چڑھا ہے
۔تو اس سے نا امید ہوجا۔اس لئے کہ نوجوان کی جن عقائد پر پرورش ہوتی ہے وہ
انہیں پر ہوتا ہے (الابانة الکبریٰ مطبوعہ الفاروق الحدیثیہ مصر جلد اول
صفحہ 128)
شیخ الاسلام احمد بن محمد علیہ رحمةفرماتے ہیں کہ بدعتی وہ لوگ ہیں جو
اہلسنت و جماعت کے مخالف ہیں (فتاویٰ حدیثیہ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی
صفحہ 370)
قل لا اسعلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے تحت مفسرین ،سیرت نگاروں
اور اہل تشیع نے حدیث پاک نقل کی ہے حضور جان کائنات ﷺ نے ار شاد فرمایا ۔
ومن مات علی حب آل محمد مات علی السنتہ و الجماعة ۔ترجمہ جو آل رسول ﷺ کی
محبت میں مرگیا اسے قیامت میں اللہ تعالیٰ اہلسنت و جماعت میں اٹھائے گا
(قرطبی مطبوعہ بیروت ،تفسیر کبیر مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور ،تفسیر
ابن عربی مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت ،تفسیر کشاف مطبوعہ مرکز اہلسنت
برکات رضا انڈیا ،روح البیا ن مطبوعہ بہاولپور ،نورالابصار مطبوعہ فیصل
آباد جلد اول صفحہ 27،اشرف الموبد لال محمد مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور صفحہ
224اور اہل تشیع کی کتاب کشف الغمہ مطبوعہ ایران جلد اول صفحہ 107)۔
اسی لئے تو امام جلال الدین سیوطی علہ رحمتہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اہلسنت
کی فضلیت معلوم نہیں (انیس لجلیس مطبوعہ اویسی بک ڈپو گوجرانوالہ صفحہ
290)۔
سید محمو دآلوسی بغدادی علیہ رحمة اور امام فخر الدین رازی علیہ رحمةاسی
آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ اہلسنت و جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عترت و
آل رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دونوں سے محبت رکھتے ہیں ہم اس وقت
تکلیف اور مشقت کے سمندر میں ہیں اور شبہات وشہوات کی موجوں کا سامنا ہے جس
سے نجات کے لئے کشتی کی ضرورت ہے وہی کشتی سلامتی سے ہم کنار ہوتی ہے جو
عیوب سے محفوظ ہو اور رہنمائی کے لئے ستاروں پر نظر رکھی جائے ۔ہم اہلسنت و
جماعت کشتی اہلبیت میں سوار ہوکر نجوم صحابہ سے رہنمائی حاصل کررہے ہیں
اللہ تعالیٰ کے کرم سے امید ہے کہ ہم سلامتی اور سعادت دارین سے نواز ے
جائیں گے (روح المعانی مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ، تفسیر کبیر مطبوعہ
مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور )اس آیہ کریمہ اور حدیث نبویہ سے مودت فی القربی
کے ساتھ ساتھ عقیدہ اہلسنت کی حقانیت بھی آشکار ہوگئی۔
اہلسنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اورناﺅ ہے عترت رسول اللہ کی
امام المحدثین ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری علیہ رحمة مسلم شریف کے
مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جس حدیث کی سند میں اہلسنت ہوتے ہیں اسی کو قبول
کیا جاتا ہے (مسلم مطبوعہ بیروت )حضرت محمد بن سیرین رحمةاللہ علیہ نے
فرمایا صحابہ کرام علیھم الرضوان سے استاد کے بارے مین نہیں پوچھا جاتا تھا
چنانچہ جب فتنہ برپا ہوا (یعنی فتنہ اہل بدعت خوارج وغیرہ )تومحدثین کہنے
لگے کہ اپنے رجال کا ہمارے سامنے نام لو تاکہ ہم اہلسنت کی حدیثوںکو ہاتھوں
ہاتھ لیں اور اہل بدعت کی حدیثوں کو رد کردیں (حلیتہ الاولیاءمطبوعہ
دارلاشاعت کراچی جلد دوم صفحہ 565فتاویٰ اہلحدیث مطبوعہ ادارہ احیاءالسنہ
سرگودھا جلد اول صفحہ 72) ابن تیمیہ لکھتے ہیں اہلسنت و جماعت ایک پرانا
مذہب ہے یہ صحابہ کرام کا مذہب تھا جو انہوں نے حضور پرنور ﷺ سے سیکھاتھا
جو ان کے مخالفت کرے وہ اہلسنت وجماعت کے نزدیک بدعتی ہے (منہاج السنہ
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت جلد اول صفحہ 367)امام حاکم نیشا پوری علیہ
رحمة المستدرک مطبوعہ لاہور جلد اول کتاب الایمان حدیث 111کے تحت لکھتے ہیں
اور اس حدیث میں اہلسنت کے اثبات اور بدعتیوں کے رد کے سلسلے میں بہت
شاندار دلائل موجود ہیں ۔
حضور جان کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں فاذا رایتم اختلافافعلیکم باالسو ادلا
عظم یعنی جب تم اختلافات دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کے ساتھ رہو (سنن ابن
ماجہ مطبوعہ بیروت باب السواد لاعظم )لہٰذا اس پرفتن دور میں سواد اعظم
اہلسنت و جماعت کا حق پر ہونا اس حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ شاہ عبدالغنی
دہلوی علیہ رحمةاس حدیث پاک پر ارقام فرماتے ہیں ”فہذالحدیث معیار عظیم
لاہلسنة و الجماعة یعنی یہ حدیث پاک اہلسنت و جماعت کے لئے معیار عظیم ہے
بے شک و ہی سواد اعظم (بڑی جماعت ) ہے یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں کہ
تمام اہل ہوا باوجود کے بہتر فرقے ہیں ان کو اگر تم دیکھو تو وہ اہلسنت کے
دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے (انجاح الحاجہ مطبوعہ المیزان لاہور صفحہ
283)
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بڑے
اور بزرگ لوگ اہلسنت ہیں او ر ذلیل لوگ اہل بدعت ہیں اور حضرت سیدنا سفیان
ثوری علیہ رحمةکا قول ہے کہ سواد اعظم سے مراد اہل سنت و جماعت ہی ہیں
چاہیے ایک فرد ہی کیوں نہ ہو اور اس کو خوب سمجھ لو (المیزان الکبریٰ
مطبوعہ لاہور جلد اول صفحہ 113)
اس حدیث پا ک کی شرح کرتے ہوئے غیر مقلدین کے امام مولوی وحید الزمان لکھتے
ہیں ۔جو امام وقت کے مطیع ہوں اور شریعت پر قائم ہوں اور فتنہ اور فساد سے
مجتنب ہوں یہ بڑی دلیل ہے اہلسنت اور جماعت کی کیونکہ ہر زمانہ میں ان کی
جماعت زیادہ رہی ہے سیوطی نے کہا ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارے امام شافعی
اور مالک اور ابو حنیفہ اور احمد اور باقی تمام ائمہ اہلسنت ہدایت پرتھے
اور امام ابو الحسن اشعری امام تھے اہلسنت کے عقائد میں اور حضرت امام ابو
القاسم بغدادی سردارتھے صوفیہ کے او ران کا طریق خالی ہے بد عا ت سے ۔سواد
اعظم سے آنحضرت کی مراد یہ ہے کہ جو فرقہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین
اور اگلے آئمہ راشدین کی طریق پر ہواس کی پیروی کرو اگرچہ اس زمانہ میں
تعداد اس فرقہ کی قلیل ہوجاوے تو یہ ضرر نہیں کرتا اس لئے کہ امت محمدی
میںقیامت کے دن بھی فرقہ سواد اعظم ہوگا حاصل کلام یہ ہے کہ جو لوگ متبع
ہیں قرآن اور حدیث اور صحابہ کرام کے ہمیشہ وہی حق پر ہیں اور انہیں کی
پیروی لازم ہے اور وہی سواد اعظم ہیں اس امت کے اگرچہ کسی زمانہ میں یاکسی
ملک میں ان کی تعدا د گھٹ جاوے اور مشرکین اور مبتدین کی تعداد بڑھ جاو ے
جب بھی وہی لوگ سواد اعظم ہوں گے (حاشیہ ابن ماجہ مطبوعہ مہتاب کمپنی لاہور
جلد سوم صفحہ 403-402) |
|