حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے یومِ میلاد پر روزہ رکھ کر خود خوشی کا اِظہار فرمایا:-
جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے
یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے؟ اس کا جواب
اِثبات میں ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام ث
کو اپنے یومِ میلاد پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور
ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ
انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک
يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے
میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری
ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل
کیا گیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2
: 819، رقم : 1162
2. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182
درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا
گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں :
3. نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594
5. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865
6. أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144
7. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259
پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور
معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن
اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے
اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص
اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر
باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام
میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن
ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ یومِ میلادِ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔
یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ
بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات
کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف
صورتیں ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے منایا:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی
خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
1۔ بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا
عقیقہ کیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833
3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962
4. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661
6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523
2۔ ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ
کیا۔‘‘
1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832
2. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994
3. روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی
اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے
عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51
3. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100
5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81
اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے
ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ
کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر
دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا
جائے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم :
1522
2. أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837
3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی
بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و
مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ
دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی
تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت
پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا
تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل
المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی
تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه
أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه
في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله
النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه،
رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا
أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من
وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل
مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل
کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد
خود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا
عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا
جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف
ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح
ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا
لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ،
1 : 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله
وسلم : 237
اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا،
اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ
’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی
قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم
وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت
کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی مؤقف بیان کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں
جاتا۔
اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا
حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا
ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست
مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم
المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے
تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب
سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے
تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت
میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ
وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ
جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت
کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں
ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے
اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں
کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس
پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے
بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
القرآن، النساء، 4 : 22
جاری ہے۔۔۔ |