قدرت نے انسانوں کو مختلف
صلاحیتوں سے نوازا ہے سب انسان کبھی بھی ایک لیول پر نہیں آسکتے۔جو ڈاکٹر
میں خوبیاں ہیں وہ انجینئر میں نہیں ہو سکتیں۔جو سائنسدان کو تحقیقی امور
میں عبور حاصل ہے وہ سیاست دانوں میں موجود نہیں ہوسکتا۔ایک عام مزدور جتنی
محنت اور مشقت کر سکتا ہے وہ پڑھالکھا صحت مند نوجوان نہیں کر سکتا۔ہر
انسان میں مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ جس طرح دنیا کی بناوٹ
میں اونچ نیچ،روشنی اندھیرا،گرمی سردی،خشکی نمی،ریگستان،دریا سمندر،پہاڑ
وغیرہ سب اپنی الگ ہیت رکھتے ہیں اسی طرح انسانوں اور دوسرے جانداروں کو
قدرت نے مختلف قسموں کا بنایا ہے۔ لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنایا ہے اس لئے اس میں غیر معمولی خوبیاں بھی پیدا کی ہیں۔ وہ
اگر ایک طرف درندہ صفت ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بروئے کار
لاکر امن پسند اور بہترین انسان بھی بن سکتا ہے۔ انسان کو اچھے اور برے
دونوں رستوں کی تمیز ہوتی ہے۔ برائی کے برے انجام اور اچھائی کے اچھے نتائج
سے بھی وہ ناواقف نہیں۔ اگر وہ اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے گا تو
دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی
ایک نئی زندگی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور پائے گا۔ اور یہ زندگی
اس کی کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر انسان جلد باز ہے وہ اسی فانی زندگی میں سب
کچھ پالینے کی خواہش رکھتا ہے اسی لئے وہ اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو ہی
بھول گیا ہے۔ وہ کبھی سوچتا ہی نہیں کہ اس کو انسان کیوں بنایا گیا۔ اسے
کوئی بے نتھا سانڈ کیوں نہ بنا دیا گیا تاکہ وہ اپنی جنسی خواہش بلا روک
ٹوک پوری کرتا رہتا۔ نہ اس کا حساب کتاب لیا جاتا نہ وہ کوئی کسی قسم کی
پابندی میں جکڑا ہوتا۔ نہ اسے بیٹھ کر کھانے کا کہا جاتا، نہ اسے مار کا
اثر ہوتا نہ وہ اپنی تکلیف کا کسی سے ذکر کرتا۔ جب ہمیں انسان بنایا گیا ہے
اور ہمیں اچھے برے راستوں کی پہچان بھی سجھا دی گئی ہے تو ہم اچھے کاموں کو
اپنا کر اور برے کاموں کو چھوڑنے کی انتھک کوششیں کر کے ایک اعلیٰ انسان
بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔کیوں ہمارے اندر بغض،کینا،تعصب ،چغلی،غیبت اور
اس طرح کی بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں۔اس معاملہ میں غیر مسلم اور مسلم
دونوں ان برائیوں کو برائی سمجھتے ہیں۔بس جو برائیوں کو ترک کرنے کا ارادہ
کر لیتا ہے وہ اس دنیا میں اس کے اچھے نتائج ضرور دیکھ سکتا ہے۔انسانوں کی
رہنمائی کے لئے اس دنیا کو پیدا کرنے والے نے اپنے برگزیدہ بندے رسول اور
نبی بنا کر بھیجے اور ان میں سے کئی پیغمروں کو آسمانی صحیفے اور کتب بھی
عطاء فرمائیں تاکہ انسانوں کو اپنے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد معلوم ہو
سکے۔مگر انسان نے اپنی عقل کو استعمال نہ کیا، اس نے تمام حقائق معلوم ہو
جانے کے باوجود اپنے لئے مجموعی طور پر تباہی کا رستہ ہی اختیار کیا۔یہی
وجہ ہے کہ آج تک دنیا میں نیک لوگوں کی کمی ہے اور برے طریقوں کو اپنانے
والے اکثریت میں ہیں۔ لیکن اب تو کوئی پیغمبر بھی نہیں آئے گا اور انسانیت
کے لئے مکمل ضابطہ حیات بھی قرآن و سنت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔ نیک
بننے کے لئے شرط اول ایمان ہے جب تک کلمہ طیبہ پر ایمان نہیں اور جب تک
آخرت کا ہی یقین نہ ہو تو نیکی اور بھلائی کا بدلہ نہ ختم ہونے والی زندگی
میں کیسے مل سکے گا؟ اس لئے غیب پر ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔جب روز
حساب کا یقین ہوگا تب ہی انسان برائی سے بچنے اور بھلائی کو اپنانے کی کوشش
کرے گا۔انسان کتنی ہی گمراہی میں لتھڑا ہوا ہو جس وقت اس کے ذہن میں یہ بات
آگئی کہ اب میں سیدھے رستے پر چلنا چاہتا ہوں اور گندے رستے سے بچنا چاہتا
ہوں۔ اور سچے دل سے وہ توبہ کرتا ہے تو اﷲ کی رحمت اس کے شامل حال ہو جاتی
ہے اور اﷲ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔اب وہ ایک کامیاب
زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ایک غیر مسلم جب دنیا میں آنے کی حقیقت کو سمجھ لیتا
ہے تو وہ دل سے اسلام کا مطالعہ کرتا ہے اور ہم جیسے کمزور ایمان والوں سے
زیادہ بہتر اﷲ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے۔ہم تو مسلمان کے گھر پیدا
ہوئے اس لئے مسلمان ہیں۔اب ہم نمازیں قائم کریں نہ کریں ہم مسلمان ہیں،جھوٹ
بولیں تب بھی ہم مسلمان ہیں،رشوت لیں پھر بھی ہم مسلمان غرضیکہ ہمیں وراثت
میں دین اسلام مل گیا۔اب ہم اس پر جس طرح چاہیں عمل کریں،یہی ہماری بھول ہے۔
ہم کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہم کتنا اپنے رب کے احکامات پر عمل کرتے
ہیں اور کتنی اتباع اپنے پیارے رسولﷺ کی کرتے ہیں۔ہم بسنت مناتے ہیں،ہم
سالگرہ مناتے ہیں،ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں،ہم نیو ہیپی ائر مناتے ہیں
وغیرہ وغیرہ۔ذرا سچے دل سے اس بات پر غور کریں ہمارا یہ عمل اﷲ اور اس کے
پیارے حبیب محمد ﷺ کو پسند آئے گا ؟دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم
اپنی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین اسلام کی طرف آرہے ہیں۔ اور سچے دل سے
اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔ ان لوگوں سے اسلام کی حقانیت معلوم کی جاسکتی ہے۔
ہمارے پیارے وطن پاکستان کو تو حاصل اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں
پر ہم ایک اسلامی ریاست قائم کریں گے مگر ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے
نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن عمل شریعت کے مطابق آج تک شروع
نہیں کیا۔ اگر ہماری حکومت بڑی طاقتوں کے دباؤ سے نکل آئے اور پاکستان میں
شرعی قوانین کو عملی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کردے تو ہمارے ملک کا پورا
معاشرہ سدھر سکتا ہے۔اور ہم سب ایک اور نیک بننا شروع ہو جائیں گے۔ اگر اب
بھی ہم ہوش میں نہ آئے اور سچے دین اسلام کی بجائے یہود و نصارا کو اپنا
آئیڈیل، اور دشمن ملکوں کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تیاریوں میں لگے
رہے تو پھر جلد دو قومی نظریہ کو بھول جائیں گے اور غیر مسلوں کی غلامی میں
آجائیں گے۔ سا ری دنیا کے مسلمان ایک اﷲ ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر
ایک امت بن سکتے ہیں، پھر ہمیں کافروں کی غلامی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں
رہے گی۔ ہمارے حکمران یہود و نصارا کی غلامی اور ان کی خوشنودی ترک کردیں۔
صد افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے وفاقی وزیر ہی اسلام کے دینی قلعوں کے
دشمن ہوگئے ہیں ، ملک کے دینی تعلیمی اداروں کو ’’جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘
قرار دیا جارہا ہے۔دیکھنا تو یہ چاہیے کہ یہ ملک حاصل کیونکر کیا گیا تھا۔
حصول پاکستان کا مقصد کیا تھا، کیوں ہمارے اباؤ اجداد نے پاکستان کے لیے
قربانیاں دیں تھیں۔ مسلم لیگی ہوتے ہوئے ملک کو اسلامی نظریہ پر نہ چلا
سکنا اور دینی اداروں اور علماء کی توہین کرنا وزیر موصوف کی نا اہلی نہیں
تو اور کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے سود کے خاتمے،کرپشن کے خاتمے
اور مہنگائی ، بدامنی ، لاقانونیت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے
عملی اقدامات کیے جائیں۔ اور ہر شخص کو چاہیے کہ اسلام کو آئیڈیل بناکر اور
شعائر اسلام اپنا کر ایک کامیاب اور روشن زندگی کی شروعات کی جائے۔ بلاشبہ
ناصرف دنیا بلکہ دونوں جہانوں کی کامیابی صرف دین اسلام کی سچی تعلیمات پر
عمل پیرا ہونے میں ہے۔اسلام کو اپنائیے اپنی زندگی میں، اپنے معاملات میں،
اپنی عادات میں۔ خدارا غیروں کی نقالی اور ان کو خوش کرنا ترق کردیجئے۔ اور
وزراء کو بھی چاہیے کہ ہمیشہ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں تاکہ
آپ کے الفاظ سے ، اور آپ کے کردار سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اور بحرانوں
میں گھرا ہمارا پیارا ملک مذید کسی نئے بحران اور بد امنی کا شکار نہ ہو۔اﷲ
تعالیٰ ہمیں سچا مسلمان بنائے اور اسلام کی سچی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے
کی توفیق عطاء فرمائے ، اور ہمارے پیارے ملک پاکستان کی ہمیشہ اندرونی
بیرونی خطرات سے حفاظت فرمائے۔ آمین |