دیواروں کو دیمک لگ جائے تو
بوسیدہ دیوار گرنے کا خظرہ بڑھ جاتاہے، لہٰذا پہلے دیمک کا علاج کیا جاتا
ہے پھر دیوار کی مرمت کے کام پر توجہ دی جاتی ہے ۔ درجہ بہ درجہ کام کو
سمجھتے ہوئے دیوار کی مضبوطی پر توجہ دی جاتی ہے۔ فرض کیجیے اگر میں دیوار
میں سے دیمک کا خاتمہ نہ کروں اوپر سے دیوار پر پلستر کرکے مرمت کردوں، ایک
بہترین پینٹ سے رنگ و روغن کرکے دیوار کو سجادوں تو دیکھنے والے اش اش کر
اٹھیں گے، لیکن درحقیقت دیمک اس دیوار کو کھوکھلا کرکے اسے گرانے کا جو عزم
کر چکی ہے، وہ اس میں کام یاب ہو کر رہے گی، کیوں کہ جلد بازی میں میں
اندورنی مسئلے کو حل کرنے کا نہیں سوچا بس اپنی کارکردگی اور دکھاوے کے لیے
دیوار بناسجادی۔
سانحۂ پشاور کے بعد کراچی کی سیکیوریٹی کے حوالے سے عرصہ دراز سے خدشات
ظاہر کیے جا رہے تھے۔ کراچی ہائی سیکیوریٹی الرٹ پر تھا، لہٰذا نیشنل ایکشن
پلان کے تحت ایپکس کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اجلاس ہوئے، بیانات
دیے گئے، لیکن کام ہوتا نظر نہ آیا۔
جو کام ہوا وہ کچھ یوں تھا کے سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹر
پر رینجرز کا چھاپا پڑا۔ پھر کچھ عرصہ صولت مرزا کو میڈیا اور ادارے زیر
بحث لاتے رہے۔ اس سے آگے بڑھیے تو این اے 246 کے الیکشن کی گرما گرمی نے سب
کو اس حلقے کے الیکشن میں الجھائے رکھا۔ دیمک اپنا کام کرتی رہی۔ مختلف
پارٹیز نے بڑے زوروشور سے اپنے جلسے جلوس منعقد کیے۔ عمران خان اور الطاف
حسین صاحب کے بیانات ہمارے میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ دیمک اپنا کام کرتی
رہی۔ جماعت اسلامی بھی اپنی تیاریوں میں مگن رہی۔ آخر این اے 246 میں متوقع
نتائج سامنے آگئے۔ کچھ دن نہ گزرے تھے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن کی
تیاریاں ہونے لگیں اور ساری پولیس اور رینجرز کو کبھی سیاست دانوں کے جلسوں
کی رکھوالی کرنے اور کبھی الیکشن میں دھاندلی نہ ہونے دینے کا یقین دلانے
کے لیے وقف کر دیا گیا۔ لیکن دیمک اپنا کام کرتی رہی۔ پیپلز پارٹی کیوں کر
پیچھے رہتی۔ اس نے بھی اپنا ایک جلسہ کر ہی ڈالا۔ سندھ میں برسراقتدار
جماعت ٹھنڈے کمروں میں اپنے طور سے تمام مسائل کو ’’خوش اسلوبی‘‘ سے حل
کرتی رہی۔ اور دیمک اپنا کام کرتی رہی۔
اور آخر اب یہ دیمک اس خوب صورت دیوار، جس پر ایپکس کیمٹیوں کے قیام اور
کراچی میں کام یاب آپریشن کے خوب صورت پینٹ کرکے عوام کو خوش کیا گیا تھا،
پنی بدصورتی کے ساتھ دوبارہ نمودار ہو چکی ہے۔ افسوس صد افسوس، اور اس کی
بد ترین مثال حال ہی میں کراچی میں ہونے والا سانحہ ہے جس نے پچاس لوگوں کو
نگل لیا۔ آغاخانی کمیونٹی پر ہونے والا یہ حملہ قومی سانحہ ہے، جس نے ہر دل
کو دکھ سے بھر دیا۔
کراچی میں رہزنی کے واقعات میں تو کچھ عرصے تک کمی دیکھنے میں آئی، لیکن
ڈکیتی کی مزاحمت کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ایک عام سی بات سمجھی جانے
لگی۔ اہدافی قتل کا سلسلہ تھم جانے کے بعد کراچی میں مقیم امریکی خاتون
ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کے قتل کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا، جس کے بعد ایک سماجی
تنظیم کی سربراہ سبین محمود کی جان لے لی گئی۔ خیال تھا کہ شاید اس سے
زیادہ اور کچھ نہ ہوگا، کیوں کہ سبین کا قتل ہی ایک بہت بڑا حادثہ تھا،
لیکن نہیں۔ اس قوم کے دیواروں کو کھوکھلا کرنے کے مذموم عزائم رکھنے والوں
نے معاشرے کے جسم پر ایسی ضرب لگائی کہ شاید ایک صدی تک اس گھاؤ کو مندمل
نہ کیا جاسکے۔ سبین محمود کے قتل کے پانچویں روز اہدافی قاتلوں نے جامعہ
کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمٰن المعرف
یاسر رضوی کو سفاکی سے قتل کر دیا۔ ملک کو اپنے محسنوں سے دور کرنے اور
معاشرے کو بانجھ بنانے کی گھٹیا سازش کا یہ پہلا واقعہ نہ تھا۔ اس سے پہلے
صر ف کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والی اہم شخصیات میں ڈاکٹر شکیل
اوج، مولانا مسعود بیگ، پروفیسر ڈاکٹرجاوید قاضی، پروفیسر سبط جعفر اور
پروفیسر مولانا تقی ہادی شامل ہیں ۔قوم اپنے اساتذہ سے محروم ہوتی گئی اور
سیاست داں اپنے بند کمروں میں بیٹھ کر اجلاس کرتے رہے۔ کس کس کا نام لیا
جائے اور کس کسی کی کا تعارف بیان کیا جائے ان لوگوں کو مارا جا رہا ہے، جو
ہماری قوم کا سرمایہ تھے۔ اس پہلے ہیرالڈ پیبلیکشز کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ
مسعود حامد کو پراسرار انداز میں قتل کردیا گیا۔ ان میں سے قاتل کسی کے بھی
گرفتار نہ ہوسکے۔ دہشتگردوں کو جب اپنے راستے صاف محسوس ہوئے تو انہوں نے
پولیس کے اوپر ہی ہاتھ ڈال دیا اور آخر کار پولیس کا محکمہ بھی اپنے ایک
بہت قابل آفیسر ڈی ایس پی عبدالفتح سے محروم ہوگیا اور ان کے ساتھ دو اہل
کار بھی شہید کردیے گئے۔
یا اﷲ کیسی قیامت ہے۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ہم پھر کسی ہونی کا
انتظار ہی کر رہے تھے۔ دہشت گرد اپنا کام کرتے رہے، کرتے رہے اور کر کے
رہے۔
سیاسی جلسے ہوں یا سیاست دانوں کی سیکیوریٹی کی ساری مشنری دہشت گردی کے
منڈلاتے سایوں سے نظریں چرائے ایک کام پر ہی جٹ جاتی ہے۔ ہم اداروں کے نام
بدل کر سی آئی ڈی کی جگہ سی ٹی ڈی تو کر دیتے ہیں لیکن اداروں کی صلاحیت
بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ ایپکس کمیٹی کے ارکان آرام دہ کمروں
میں بیٹھ کر ہائی ٹی انجوائے کر کے کاغذی کاروائی کر تے رہتے اور دوسرے دن
سب کچھ سیاست کی نظر ہو جاتا، چناں چہ حالات جوں کے توں رہے۔ ایپکس کمیٹیوں
کو تو کیا کارکردگی دکھانی تھی، لیکن ہاں رینجرز پورے دو سال سے کراچی میں
تعینات ہے۔ دعوے بہت کیے گئے کہ کراچی آپریشن میں نوے فی صد کام یابی حاصل
کرلی گئی ہے، لیکن عملی طور پر اس کا ثبوت تو کوئی نہیں ملتا۔ جہاں تک لوکل
ٹیررازم، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ مسائل جوں کے تو
باقی ہیں۔
قیام امن کی ساری ذمے داری فوج پر ڈال کر سیاست داں چپ چاپ تماشا دیکھ رہے
ہیں۔ اگر فوج کو ہی سب کچھ سنبھالنا ہے تو یہ جمہوریت کی دیوی کو کیوں
اسمبلیوں میں سجا کر رکھا ہوا ہے۔ مذمتی بیانوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ کسی
کی جان کا بدلہ چند لاکھ دے کر حکم راں کسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ہم اور کس
حادثے کا انتظار کر رہے ہیں اور کتنے سانحے دیکھی گی یہ قوم۔
نہ سانحۂ پشاور میں جان سے جانے والے معصوم بچوں کے چہرے آنکھوں سے اوجھل
ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور بے گناہ جسے اس ملک میں ناکردہ گناہ کی سز ا
موت کی صورت میں دی گئی۔ نہ جانے ہمیں مزید کس سانحے کا انتظار ہے۔ |