کراچی جیسے روشنیوں کا شہر کہا
جاتاہے آج اس روشنیوں کے شہر میں موت نے وہ رقص کیا جس سے دیکھ کر روح بھی
کانپ گئی۔ سانحہ پشاور کے بعد آج کراچی میں بھی اسی طرح کا سین ایک بار
پھردھرایا گیا۔روزمرہ معمول کی طرح اپنے سٹاپ سے بس میں سوارہو کر جانے
والے اسماعیلی کمیونٹی کو کیا علم تھا کہ وہ آج اپنی زندگی کے آخری سفرپر
گامزن ہیں۔سانحہ پشاور ابھی لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکلا کہ کراچی کے اس
سانحے پر ہرآنکھ پھر نم ہوگئی۔
کراچی میں کل صبح سویرے قیامت صغریٰ برپا ہوگئی ۔سپر ہائی وے پر واقع
الاظہر گارڈن سے اسماعیلی کمیونٹی کی بس تقریباً 65 افراد کو لے کر
نکلی۔عائشہ منزل تک پہنچنے کا عزم تھا لیکن صفورا چورنگی پر ہی اس بس کو
موت نے گھیرلیا۔ موٹر سائیکلوں پرسوار دہشتگردوں نے پہلے بس کو روک کر
ڈرائیور پر تشدد کیا اور پھربس میں سوارافراد پر اندھادھند فائرنگ کردی ۔زندگی
بارود کی آگ میں جل کر بھسم ہوگئی ۔گولیاں تمام افراد کو لگیں تاہم تنتالیس
افراد موقع پر ہی چل بسے ۔ موت کے رقص نے زندگی کو بجھادیا،صرف دو خواتین
گولیاں لگنے سے محفوظ رہیں،دہشتگرد فائرنگ کے بعد اطمینان سے فرار ہوگئے۔بس
کو زخمیوں اور لاشوں سمیت صفورا چورنگی کے ہی واقع میمن میڈیکل کمپلیکس
منتقل کیا گیا ،بس پوری خون سے لت پت اور گولیوں سے چھلنی تھی۔ جس کی ذمہ
دار کالعدم تنظیم نے قبول کرلی مگر ابھی اس حقیقت سے پردہ اٹھنا باقی ہے کہ
واقعی یہ کام اس تنظیم کا ہے یا پھر اس تنظیم کی آڑ میں کسی اور نے یہ کام
دکھایا ہے؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی
مرکز ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے ۔ پاکستان کی
سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔ 1947ء میں پاکستان
کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس
کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین آباد ہوئے۔ پاکستان کا دارالحکومت اور
بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے
قبل شروع ہو گئیں
کراچی کو اسی وجہ سے منی پاکستان (Pakistan Mini ) کا نام دیا گیا ہے ۔ 80
اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار
رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت
کرنا پڑی۔ اسی کراچی کو روشنیوں کا شہر سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے
شرپسند عناصر نے کراچی کے حالات بہت زیادہ خراب کردیے ہیں۔ پہلے یہاں کبھی
کبھارڈکیتی اور دھماکے ہی کراچی کا حسن برباد کررہے تھے مگر اب تو ٹارگٹ
کلنگ نے کراچی کی عوام کا دن کا سکون اوررات کا چین برباد کر دیا ہے۔
روزانہ کراچی میں اموات ہورہی ہیں مگر ان کا سدباب کرنے کے لیے کوئی
نہیں۔اس وقت کراچی کے کونے کونے میں موت کا رقص ہورہا ہے ۔ کسی کونہیں
معلوم کے وہ صبح اپنے آفس ، سکول ،کالج یا پھر بازارجانے کے بعد واپس گھر
پہنچ پائے گا بھی کہ نہیں؟
کراچی جس میں آدھی آدھی رات تک لوگ پارکوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آتے
تھے اب وہ موت کے خوف سے گھر سے باہر نکلنا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ اپنی
جان ہر ایک کوپیاری ہوتی ہے ۔دشمنِ کراچی حکومت سندھ کو ہر روزلاشوں کا
تحفہ دیتے ہیں مگر افسوس کہ حکومت سندھ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی
۔کراچی جو روشنیوں کاشہر ہے اس کے چراغ کیوں گل کیے جارہے ہیں؟ ان کی حفاظت
کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ کون ہے جو ان کے دکھ کا مداوا کرے گا؟
اسماعیلی کمیونٹی کودن دیہاڑے گولیوں سے بھون دینا اس بات کی غماری کرتا ہے
کہ ملک میں امن وامان ڈرونا خواب بن چکا ہے۔ ایوان میں بیٹھ کر بھاری بھر
کم تنخواہیں اورمراعات لینے والوں کے نعرے ایسے جو کئی سالوں تک وفا ہوتے
نظر نہیں آرہے ۔امن قائم کرنا ہے تو باہمی بھائی چارے اورانسانی جانوں کی
قدر بارے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔دہشتگردی کی ا س آگ میں کچھ شک نہیں کہ
بیرونی ہاتھ ملوث ہو سکتا ہے۔ ان کے خلاف ہمیں کھل کا سامنے آنا ہوگا لیکن
یہ بات ہمیں قطعی نہیں بھولنا چاہئیں کہ یہ آگ ہماری اپنی لگائی ہوئی ہے۔
رشوت ستانی ،کمیشن وصول کرکے ہم اس نظام کو کس طرح شفاف بنا سکتے ہیں ؟ اب
ہر واقعہ کے بعد نوٹس لینے اورپولیس افسران کو معطل کرکے معاملات نہیں
سلجھیں گے۔سیاسی ومذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ اور گروپوں کیخلاف بلاتاخیر
کارروائیاں کرنا ہونگی۔مقدمات کے فیصلوں کیلئے کم ازکم دورانیہ میں کرنا
ہونگے ۔ کسی بھی منفی سرگرمی میں ملوث اہلکار وافسر کیخلاف سخت کارروائی کی
جائے۔
جب تک ہم سب پاکستانی ملکر ان عناصر کے خلاف نہیں اٹھیں گے یہ مٹھی بھر
شرپسند عناصر ہمیں اسی طرح ہر روز اذیت ناک موت دیتے رہیں گے۔ابھی بھی وقت
ہے کہ ہرشخص دہشت پھیلانے والے عناصر کے خلاف یکجا ہو کر ان کو ان کے انجام
تک پہنچائیں۔ |