آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا

کراچی گزشتہ کئی سالوں سے منظم دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کی زد میں ہے اور پاکستان کی اس اقتصادی شہ رگ ہر پے در پے وار کیے جا رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیاجا رہا ہے ۔گزشتہ سال کراچی میں امن و امان بحال کرنے کے لئے وزیراعظم کی صدارت میں اہم اقدامات کئے گئے جس کے تحت پولیس اور رینجر کو مشترکہ آپریشن کا اختیار دیا گیا جسکے موثر نتائج بھی برآمد ہوئے اور بھتہ مافیا ہی نہیں ٹارگٹ کلنگ میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ کراچی کی روشنیاں واپس آ رہی ہیں ۔

عمومی طور پر کراچی کی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اچانک بدھ کی صبح کراچی ایک بار پھر لہو لہو ہو گیا ۔صفورہ چورنگی کے قریب چھ مسلح دہشتگردوں نے حملہ کر کے انتہائی بہیمانہ انداز میں بس میں سوار اسماعیلی برادری کے 46افراد کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس سفاکانہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جو تین روزہ دورے پر سری لنکا روانہ ہونے والے تھے کہ اس سانحہ کے باعث اپنا دورہ منسوخ کر کے فوری طور پر صورت حال کا جائزہ لینے کراچی پہنچے ۔واقعے پر لگ بھگ تمام سیاسی و سماجی شخصیات نے اظہار افسوس کیا ۔جنرل راحیل شریف نے پرنس کریم آغاخان کو فون کیا اور گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر پرنس کریم آغاخان نے کہا کہ اسماعیلی برادری کے خلاف دہشت گردی ناقابل فہم ہے ۔

ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کے مذموم عزائم کوناکام بنانے کے لئے پاک افواج کی کامیابیاں قابل ستائش ہیں اگر پاک آرمی گزشتہ سال 15جون کو آپریشن ضرب عضب کا آغاز نہ کرتی تو ملک میں جاری دہشت گردی آج اپنے عروج پر ہوتی لیکن پاک آرمی نے بر وقت کاروائی کر کے ایک ہزار سے زائد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور باقی رہ جانے والے دہشت گردوں کو افغانستان بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ رد عمل میں دہشت گردوں نے گزشتہ سال 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں سفاکانہ کاروائی کی اور ہمارے قوم کے مستقبل 145افراد جن میں 132طالب علم تھے کو شہید کر ڈالاتا کہ ہمارے عوام اور افواج کے حوصلے پست کئے جا سکیں لیکن ہماری قوم بشمول سیاسی قائدین افواج پاکستان کے شانہ بشانہ نہ صرف کھڑی ہو گئی بلکہ افواج کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی عمل میں لائی جا رہی ہے ۔

کراچی ہمارا معاشی حب ہے اور کراچی کا امن پورے ملک کی خوشحالی کا ضامن ہے ’ ۔ یہاں ایم کیو ایم ‘ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے عسکری ونگ کے علاوہ را کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جنکی سرکوبی کے لیے کراچی آپریشن شروع کیا گیا جسکے خاطرخواہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں اور آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں نمایاں کمی آئی ہے ۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے رینجر ز نے اس سال سب سے اہم چھاپہ 11مارچ کو ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائین زیرو پر مارا جسکے بارے میں خیال کیاجاتا تھا کہ وہاں چڑیا بھی پر نہیں مارتی اور وہاں سے ٹارگٹ کلنگ میں مطلوب اشتہاری سیلم موٹا اور کئی دیگرٹارگٹ کلرز کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ بھاری مقدار میں اسلحہ بھی بر آمد کیا جس پرمشتعل ہو کر ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے اپنے خطاب کے دوران را سے مدد کی درخواست کی اور بعد ازاں افواج پاکستان اور سیاسی دباو پر حسب روایت اپنے کہے سے مکر کرـــــــقرار دیاکہ انہوں نے یہ طنزاـــــــ کہا ۔

اسی طرح 30اپریل کو ایس ایس پی ملیر راؤ انورنے دو ملزمان کو گرفتار کر کے دعوہ کیا کہ دونوں دہشت گردوں نے ہندستان جا کر راسے تربیت لی اور دونوں کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے ‘ اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کی طرح ایم کیو ایم پر بھی پابندی عائد کی جائے۔راؤ انور کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سٹیاگئی اور لندن سے ایک فون کال پر راؤ انور کو فوری طور پر اپنے عہدے سے ہٹا کر حیدر آباد ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت بجائے اسکے کہ وہ بے باک ،فرض شناس اور اپنے ساتھ اپنی فیملی کی جان کو خطرے میں ڈال کرجرت کا مظاہرہ کرنے والے پولیس آفیسر کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتی بلکہ اس کی تحقیقات دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شیئر کر کے کوئی آئندہ اقدام اٹھاتی کہ جس نے ایم کیو ایم کے چہرے سے پیار، محبت اور امن کا داعی ہونے کا پردہ چاک کیا۔

کراچی آپریشن رینجرز اور پولیس کے ذریعے روبعمل ہے لیکن سندھ حکومت کی کارکردگی کا گراف روز بروز روبہ زوال ہے ۔قائم علی شاہ کی کارکردگی بھی قابل ستائش نہیں ہے ۔سائیں عمر کے اس حصے میں جہاں انھیں آخرت کی فکر اور اپنے آپ کو عبادت کے لیئے وقف کرنا چاہیے وہاں وہ اب بھی اپنے آپ کو سیاسی طور پر دور اندیش اور جواں ہمت سمجھتے ہوئے اقتدار اپنے دام میں رکھنا چاہتے ہیں اگرچہ انکی زوال پذید صحت اب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ امور صوبہ سنبھا ل سکیں ۔انگریز کے قانون کے مطابق وہ ساٹھ سال کی عمر میں سرکاری ملازم کو ریٹائر کر دیتے تھے جس کی وجہ شاید یہی رہی کہ عمر کے اس حصے میں ایک انسان میں وہ پہلے سی چستی اور طاقت نہیں رہتی اور نہ ہی یاداشت قابل بھروسہ رہتی ہے کہ وہ امور حکومت چلا سکیں ۔وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے استعفے کے حوالے سے ایک ٹی وی اینکر کے سوال کے جواب میں سائیں نے کہا کہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی امن و امان کی صورت الحال خراب ہے وہاں پر وزیر اعلیٰ کوتبدیل کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی صرف سندھ کی بات کیوں کی جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ مصلحت کی سیاست سے باہر نکلے اور مڈل ایج شخص کو وزیر اعلیٰ کا منصب دے جو اسے احسن طریقے سے چلا سکے۔ پیپلزپارٹی میں ایسے پڑھ لکھے اور سیاسی سوجھ بوجھ والے سیاست دانوں کی کمی نہیں ہے جہنیں صوبے کے اس اہم منصب پر تعینات کیا جا سکے۔ دوسری طرف گورنر سندھ عشرت العباد سے ایم کیو ایم کی لا تعلقی اور استعفے کے مطالبے کے بعد ان کی شخصیت بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکی ہے انہیں بھی چاہیے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد اب گورنر ہاؤس کو خیر آباد کہہ دیں ۔

کراچی سانحہ حکومت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی بھی رُو رعایت کے بغیر کراچی میں ان دہشت گرد عناصر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے جو اس کے ذمہ دار ہیں چاہے وہ راکے ایجنٹ ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ آرمی چیف پہلے ہی راکے ملوث ہونے پر اسے خبردار کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں اپنی کاروائیوں سے باز رہے۔اس حقیقت کو کون نہیں جا نتا کہ کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد خاصی تعداد میں آباد ہیں اوریہ ایک انتہائی پرامن کاروباری برادری ہے۔ ماضی میں بھی انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔اگست 2013ء میں کریم آباد اور دوسرے علاقوں میں اسمائیلی جماعت خانوں پردستی بموں سے حملے کئے گئے ۔آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ؟
میں کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں ہم ہی قتل کر رہے ہیں ۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.