گزشتہ روز کراچی میں اسماعیلی
کمیونٹی کی بد قسمت بس پر درندہ صفت دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے
میں کئی اموات واقع ہوئیں اور کئی جانیں زخمی ہوئیں، جن پر جتنا بھی دکھ
کیا جائے کم ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی کی یہ بس معمول کے مطابق اپنی منزل پر
جانے کے لیے روانہ الاظہر گارڈن سے راوانہ ہوئی تھے جسے ایک سنسان مقام پر
روک کر درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بس میں سوار لوگوں کا کیا قصور تھا؟
دہشت گردوں کے ساتھ ان کی کیا دشمنی تھی؟ انہیں اس قدر درندگی کے ساتھ
نشانہ بنایاگیا؟ یہ وہ سوال ہیں جو اسماعیلی کمیونٹی کے علاوہ انسانیت کے
لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہر انسان کے ذہن پر سوار ہیں۔ انسانیت کا دکھ درد
رکھنے والی ہر آنکھ اشکبار ہے۔
مذہبی، لسانی، سیاسی و دیگر بنیادوں کو پس پشت رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو
ہمیشہ سے پاکستان میں موجود اسماعیلی کمیونٹی بے ضرر ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان
کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ کراچی میں کوئی بھی ہڑتال
ہو، کوئی بھی سانحہ ہو یا کوئی بھی دنگا فساد ہو اس کمیونٹی کے کسی رہنما
کا نام شامل نہیں رہا۔ دوسری برادریوں کی طرح اس برادری میں بھی جوشیلے
نوجوان موجود ہیں مگر ان کا کہیں کوئی نام نہیں آیا کہ اس کمیونٹی کے
نوجوانوں نے یہ ظلم کر دیا یا کسی کو یہ نقصان پہنچا دیا۔۔۔! مگر ایسا کبھی
سننے کو نہ ملا۔ واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد قریب ہونے کی وجہ سے رفاہی
ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ بس میں ہر طرف
خون ہی خون تھا۔ مختلف رفاہی اداروں کی جانب سے لاشوں کو اٹھانے کے لیے
استعمال کیے گئے اسٹریچر، وہیل چیئرز مکمل طور پر خون سے تر تھے۔ جنہیں
دیکھنے کے لیے ہمت چاہیے تھی۔ جیسا ظلم کیا گیا تھا اس سے یہی ظاہر ہو رہا
تھا یہ کسی انسان نے نہیں درندوں نے ظلم کیا ہے۔
اب بات کی جائے پاکستان میں ہونے والے ان واقعات کی جن میں انسانی جانوں کا
ضیاع ہوا، اور انسانی جانوں کے ضیاع پر متعلقہ کمیونٹیز کا کیا رد عمل رہا۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی
انسانیت سوز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کوئی
اشتعال دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس واقعے میں مجھے جو حب الوطنی کا پہلو نظر
آیا میں وہ بعد میں ذکر کرتا ہوں لیکن پہلے ملک میں موجود سیاسی، مذہبی،
لسانی جماعتوں کا جو لمحہ بہ لمحہ پاکستان سے محبت، تعمیر اور ترقی میں
کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جب ان پر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یہ
کیسی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اتوار 15مارچ2015 لاہور
میں یوحنا آباد کے ایک چرچ پر حملہ کیا گیا جس میں کئی جانیں لقمہ اجل بنیں
لیکن حملے کے بعد کیا ہوا۔۔۔؟ کیا وہ حملہ پاکستانیوں نے کیا تھا جس کا
بدلہ بے قصور دو لوگوں کو جلا کر لیا گیا، اور اپنا غصہ لاہور سے لے کر
کراچی کی مارکیٹوں اور عوام کو نقصان پہنچا کر لیا گیا۔ گذشتہ سال پشاور
میں بھی ایک چرچ پر حملہ کیا گیا جس کے بعد یہی فسادات رونما ہوئے جن پر
حکومت نے قابو پا لیا۔ اگر ہم سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو سر شرم سے جھک
جائیں جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ حب الوطنی کے ببانگ دہل دعوے کرتی نظر آتی
ہیں۔ جب کسی کارکن کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے یا کسی سیاسی قائد کو لندن میں
پولیس تفتیش کے لیے کچھ وقت کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہے تو سارا غصہ کراچی
میں قائم پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے حامل کاروبار کو بند کروا کر،
غرب عوام کی ٹرانسپورٹ پر پتھراؤ کر کے نکالا جاتا ہے۔ اگر مذہبی جماعت کے
کسی کارکن یا لیڈر کو جیل میں موت واقع ہو جاتی ہے یا کسی رہنما پر دہشت
گردوں کی جانب سے فائرنگ کی جاتی ہے تو اس کا سارا غصہ عوام پر نکلتا ہے۔
کہیں ہڑتال کی صورت میں کہیں جلاؤ گھیراؤ کی صورت میں تو کہیں توڑ پھوڑ کر
کے بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ سیاسی، مذہبی، لسانی جماعتیں یہاں بس نہیں کرتیں
بلکہ کئی دن تک حکومت کے خلاف اشتعالی بیان بازیاں جاری رکھتی ہیں جن سے ان
کی حب الوطنی کے کھوکھلے نعرے عیاں ہو جاتے ہیں۔
میں بات کروں اسماعیلی کمیونٹی کے لوگوں کی تو مجھے مذہبی، سیاسی اور لسانی
جماعتوں سے زیادہ اس کمیونٹی کے لوگ محب وطن نظر آئے۔ 44 اموات ہو چکی تھیں
ڈیڑھ درجن افراد زخمی تھے۔ ایسے حالات میں جذبات قابو میں رکھنا مشکل ہوتا
ہے۔ بیان دے کر اشتعال بڑھایا جاتا ہے۔ سلام ہے ان کے ممبران کو جنہوں نے
کوئی اشتعالی بیان نہیں دیا۔ پڑھے لکھے جوشیلے جوانوں کی اکثریت موجود تھی۔
جلاؤ گھیراؤ کرتے تو انہیں کون روک سکتا تھا؟ کیا انہیں ہڑتال کی کال دینا
نہیں آتی؟ کیا ان کے پاس ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے وسائل موجود نہیں
ہیں؟ سب کچھ ہونے کے باوجود لیکن اسماعیلی جماعت کے ممبران اور ان کے جوان
جس صبر کے ساتھ اس مشکل گھڑی کے مقابلہ کرتے رہے حقیقی معنوں میں جس طرح وہ
پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے تعمیر و ترقی میں بھی ساتھ دے کر حب الوطنی کا
ثبوت دیتے آئے ہیں اسی طرح اس سانحے میں بھی صبر کی اعلیٰ مثال قائم کر کے
محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔
پاکستان کے ساتھ محبت کی دعوے دار سیاسی پارٹیاں اپنا جائزہ لیں کیاوہ
حقیقی معنوں میں پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ساتھ دے رہی ہیں یا کسی
اندوہناک واقعات کے بعد ملک میں اشتعال پھیلانے جیسے بیانات دے کر ملک دشمن
عناصر کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اگر واقعی ہم ملک کے ساتھ وفادار ہیں تو
اسماعیلی برادری کی طرح صبر کر کے ہم بھی ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام
بنا سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد ملک
دشمن قوتوں کو شکست دینا ہے۔ ہم شکست تب ہی دے سکتے ہیں جب ہم صبر کے ساتھ
مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ یہی ہماری کامیابی ہے یہی پاکستان کی
کامیابی ہے- |