سعودی عرب اور عرب اتحاد کس راہ پر۰۰۰
(Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid, Hyderabad)
سعودی عرب اور اتحادی
ممالک کی جانب سے یمن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پانچ روزکے لئے جنگ
بندی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اس سے قبل سعودی عرب اور اتحادی ممالک نے
شیعہ حوثیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی جبکہ حوثیوں نے بھی سعودی عرب کے
شہر نجران اور جیزان کے رہائشی علاقوں اور اسکول پر راکٹس اور مارٹرس کے
حملے کئے جس کے بعدسعودی عرب نے مقامی اسکولس کو بند کردیا اور ان دو طرفہ
حملوں میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ 26؍ مارچ سے یمن میں سعودی عرب
اور اتحادی ممالک نے فضائی حملوں کی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس میں کم و
بیش 850عام شہری ہلاک اور1500سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس ماہ4؍ مئی سے 11؍
مئی کے درمیان یمن میں سعودی عرب اور عرب اتحاد نے شدید بمباری کی جس میں
200کے قریب عام شہری ہلاک ہوئے اور اس میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی
بتائی جارہی ہے۔ سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی فضائی کارروائی میں معاشی
طور پر بھی شدید نقصانات ہورہے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک صدر یمن
عبد ربہ منصورہادی کی درخواست پر یمن میں موجود 30فیصد شیعہ حوثی باغی
قبائل اور سابق صدر علی عبداﷲ صالح اور انکے حامیوں کے خلاف فضائی کارروائی
کررہے ہیں۔شیعہ حوثی قبائل نے جس طرح یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف
علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انہیں دارالحکومت صنعا میں ان ہی کے صدارتی محل
میں نظر بند کردیا تھا جہاں سے وہ فرار ہوکر یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن میں
پناہ لی تھی اور یہیں سے صدارتی فرائض انجام دے رہے تھے لیکن شیعہ حوثیوں
نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے عدن پہنچ گئے اور یہاں سے بھی صدر یمن کو راہِ
فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح عبد ربہ یمن سے فرار ہوکر سعودی
عرب چلے گئے جہاں وہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے مدد کی درخواست کی۔
انکی اس درخواست پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے حوثیوں کے خلاف فضائی
کارروائی کا آغاز کیا۔ دیڑھ ماہ سے جاری فضائی حملوں میں کئی معصوم شہری
ہلاک ہوچکے ہیں اور کئی عام شہریوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سعودی
عرب اور اتحادی ممالک کی فضائی کارروائی سے یمنی عوام شدید متاثر ہوئے ہیں
اور انہیں غذائی اجناس اور دواؤں کی شدید ضرورت ہے۔ اسی کے پیشِ نظر انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر پانچ روزہ جنگ بندی کا آغاز ہوا ہے۔ سعودی اتحاد نے جنگ
بندی سے چند گھنٹے قبل بھی حوثیوں کے ٹھکانوں کو شدید نقصان پہنچانے کیلئے
خوفناک بمباری کی ۔اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی اتحادی فورسز اور حوثی
باغیوں کی جانب سے اس جنگ بندی معاہدے کا بنیادی مقصد انسانی بنیادوں پر
جنگ کے متاثرین کو امداد کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔معاہدے کے شروع ہونے سے
کچھ دیر قبل سعودی سرحد کے قریب فریقین کے مابین شدید جھڑپیں بھی ہوئی ہیں،
سعودی عرب نے حوثی باغیوں کوخبردار کیا ہے کہ اگر وہ اس معاہدے کی خلاف
ورزی کرتے ہیں تو پھر انکے خلاف فضائی کارروائی شروع کر دیں گے۔ یہاں یہ
بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ میں منعقدہ دو روزہ جی سی سی اجلاس سے سعودی
عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے معذرت خواہی کرلی ہے اور ان کی جگہ
ولیعہد شہزادہ محمد بن نائف اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان
نمائندگی کررہے ہیں۔ اس اجلاس میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی عدم شرکت پر
کئی شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور
امریکہ و دیگر عالمی ممالک کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس سے سعودی عرب
ناراض ہے کیونکہ ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت ، خطہ میں مسالک کی بنیاد پر
حالات کو بگاڑ سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ شاہ سلمان اس
وقت عالمی سطح پر عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے
ہیں اور اسی لئے وہ یمن کی جنگ کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے عالمی سطح پر یہ
بتانا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ اور دیگر عالمی ممالک کے قائدین سے ناراض ہیں
۔ شام میں بھی عرب اتحاد، بشارالاسد کا تختہ الٹنے کیلئے امریکہ اور دیگر
ممالک پر دباؤ ڈالا لیکن بشارالاسدکی فوج جس طرح سنی گروپس النصرہ فرنٹ،
دولت اسلامیہ(داعش) سے لڑرہی ہے اس کے پیچھے بشارالاسد کو ایران اور لبنان
کی حزب اﷲ و دیگر شیعہ ملیشیاء گروپ کا تعاون حاصل ہے۔ ان دنوں شام، عراق،
یمن، مصر ، افغانستان، پاکستان وغیرہ جو شدت پسندی اور بغاوت و خانہ جنگی
کے حالات سے دوچار ہے یہ سب مسالک کی بنیاد پر جاری ہے اور اس شدت پسندی و
دہشت گردی سے شدید متاثر صرف اور صرف عوام ہورہے ہیں لاکھوں مسلمانوں کا
قتل عام مسالک کی بنیاد پر کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف شدت پسند تحریکیں ظلم و
بربریت کا ننگا ناچ ڈھائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب حکمراں شدت پسند تحریکوں
کو ختم کرنے کے نام پر معصوم عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔ چاہے وہ بشارالاسدو
شامی فوج ہوں یا داعش و النصرہ فرنٹ کے شدت پسندقائدین،حوثی باغی ہوں یا
سعودی اتحادی فورسز۔ شام اور دیگر ممالک کے لاکھوں افراد پناہ گزیں کیمپوں
میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بچے تعلیم و تربیت سے
محروم ہورہے ہیں ۔ شام کے پناہ گزینوں کی کثیر تعداد لبنان میں موجود ہے جن
کو عالمی برادری کی جانب سے امداد مہیا کی جارہی ہے ۔ آسٹریلیا نے لبنان کو
ایک کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بیروت سے
جاری کردہ بیان میں آسٹریلیا کے سفیر گلین مائلز نے کہا ہے کہ ان کا ملک
لبنان کو ایک کروڈ ڈالر فراہم کرے گا تاکہ لبنان کی سرزمین میں آئے ہوئے
شامی مہاجرین کی مدد کی جاسکے۔ سفیر کا کہنا تھا کہ شامی بحران کے شروع
ہونے کے بعد سے اب تک آسٹریلیا ان ملکوں کو جہاں شامی مہاجر پہنچے ہیں ان
کی 13کروڑ50 لاکھ ڈالر سے زائد امداد کرچکا ہے۔ گلین نے لبنان کی حکومت کا
شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 15 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ
دے رکھی ہے تاہم لبنانی حکومت کی مشکلات کوسمجھتے ہوئے اس کی مدد کررہے ہیں۔
لبنان حکومت کے لئے شامی پناہ گزینوں کی کثیر تعداد میں موجودگی لبنان کے
مقامی شہریوں کیلئے بھی مسائل پیدا کررہی اور حکومت پر بھی اس کا اثر پڑرہا
ہے اسکے باوجود لبنان نے جس طرح شامی عوام کو پناہ دی ہے یہ شدت پسندوں اور
حکمرانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔آج اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ
فضائی حملوں اور دیگر کارروائیوں کے ذریعہ جس طرح اپنے بھائیوں کو ہلاک
کررہے ہیں بجائے اسکے دشمنانِ اسلام کے خلاف کارروائی کریں اور انکی ہر قسم
کی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کریں۔ویسے مسلم حکمراں دشمنان اسلام کی
سازش کا شکار کم اور معاشی استحکام و خوشحالی کا شکار زیادہ ہوگئے ہیں اور
یہی وجہ ہے کہ وہ آج معصوم مسلمانوں کے قتلِ عام سے اپنے ہاتھ سرخ کررہے
ہیں جس میں انکی سرخروی نہیں بلکہ رسوائی و ذلت ہے۔
افغانستان میں منشیات استعمال ۰۰۰خطرناک صورتحال
افغانستان کے حالات کب سدھریں گے شائد اس سلسلہ میں فی الحال کوئی سوپر
پاور ملک کا قائد بھی کچھ کہنے کے موقف میں نہیں ہے۔ان دنوں پاکستانی وزیر
اعظم میاں نواز شریف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد جس میں پاکستانی فوجی
سربراہ جنرل راحیل شریف و دیگر قائدین و عہدیدار شامل ہیں افغانستان کا
دورہ کیا ۔ دونوں ممالک کے سربراہان صدر افغان اشرف غنی لون اور وزیر اعظم
نواز شریف نے دونوں ممالک ’’دہشت گردی‘‘ سے مشترکہ مقابلہ کرنے کا عہد کیا
ہے۔ افغانستان میں ایک طرف طالبان و شدت پسند تنظیموں سے خطرہ لاحق ہے تو
دوسری جانب منشیات کا استعمال اور اسکے کاروبار سے حکومت سخت آزمائشی دور
سے گزر رہی ہے۔ ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال بے
تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور اب یہ تعداد 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جب کہ ایک
تخمینے کے مطابق 2012 میں افغانستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی
تعداد 16 لاکھ تھی۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق افغانستان کے وزیرِ صحت
فیروز الدین فیروز نے کابل میں امریکہ کی مدد سے کی جانے والی ایک تحقیقی
رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں اور دیہی علاقوں
میں منشیات کے استعمال میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس میں عورتیں اور
بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2005 میں افغانستان میں منشیات استعمال
کرنے والوں کی تعداد نو لاکھ تھی۔ تاہم اس کے بعد کیے گئے سروے سے ظاہر
ہوتا ہے کہ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 30 لاکھ ہو گئی ہے، جو ان کے بقول
’’بہت تشویشناک‘‘ بات ہے۔ افغانستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی محکمہ
خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ افئیرز کے اسسٹنٹ
سیکرٹری ولیم براؤن فیلڈ نے اس تحقیق کے نتائج بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ
ایک بہت ’’پریشان کن‘‘ کہانی بیان کرتی ہے۔طالبان دور میں اس پر کنٹرول
پانے کی کوشش کی گئی تھی اور منشیات استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں
نافذ تھیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جو سزائیں مقرر
ہیں اگرمسلم ممالک ان سزاؤں کو روبہ عمل لاتے ہیں تو ان ممالک میں جرائم
میں کمی واقع ہوسکتی ہے آج بعض اسلامی ممالک شرعی سزاؤں پر عمل آوری ہی کی
وجہ سے جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ افغان عوام گذشتہ
کئی برس سے جنگ زدہ ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں انکی زندگیاں کس طرح گزر
رہی ہے اس کا جائزہ لیں تو شائد افغان عوام پر عالمی برادری کو ترس آجائے
گا اور وہ یہ سمجھنے لگیں گے کہ افغان افراد معاشی تنگدستی کی وجہ سے
مجبوراً منشیات کے استعمال کے مرتکب ہورہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی حکومت پر یہ
ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو منشیات جیسی لعنت سے دور رکھیں
اس کے لئے نقصانات کا عوام کو علم ہو اور ساتھ میں عوام معاشی طور پر جن
مصائب سے دوچار ہیں اس کے سدّباب کے لئے ایسے انتظامات کریں کہ عوام اپنے
نقصاندہ چیزوں کے استعمال سے گریز کریں۔ افغانستان میں منشیات کے کاروبار
غیر قانونی طور ہر بڑھنے کی وجہ ناخواندگی میں اضافہ اور معاشی تنگدستی و
غربت ہے۔ حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو منشیات کے
کاروبار اور اس کے استعمال سے دور رکھنے کے لئے سخت قوانین نافذ کرتے ہوئے
اس پر عمل آوری کریں۔ورنہ آج 30لاکھ افغانی منشیات کا استعمال کررہے ہیں تو
مستقبل میں مزید اضافے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔
پاکستان کے شہر کراچی میں اسماعیلی برادری پر مسلح افراد کی فائرنگ
پاکستانی عوام اپنے ملک پاکستان کوفخر کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان
کہہ کر خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن آج یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان معصوم
لوگوں کے قتل عام کیلئے عالمی سطح پر بدنام ہورہا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی
معصوم شہریوں کو موت کے گھات اتارا جاتا ہے۔ کبھی فائرنگ کے ذریعہ تو کبھی
خودکش حملوں و بم دھماکوں کے ذریعہ۔عوام اپنی زندگی کی گھڑی پر نظریں جمائے
باہر نکلتے ہیں انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ گھر صحیح سلامتی کے ساتھ
واپس بھی ہونگے یا نہیں۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے حالات کا جائزہ
لیں تو کئی ایسے دل دہلادینے والے واقعات منظر عام پر آتے ہیں جس کے سننے
کے بعد اس اسلامیہ جمہوریہ ملک کو کسی صورت اسلامی کہنے کے قابل نہیں سمجھا
جاسکتا۔حکومت اور فوج کی جانب سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے کئی ایک
دعوے کئے جاتے ہیں لیکن انکے یہ دعوے کھوکھلے اور ادھورے دکھائی دیتے ہیں
جب ،پھر کسی ایک شاہراہ پر فائرنگ یا حملہ کے ذریعہ عام شہریوں کو نشانہ
بنایا جاتا ہے۔ 13؍ مئی کی صبح بھی صفورا چورنگی ، کراچی میں ایک ایسا ہی
دہشت گردی کا واقعہ اسماعیلی شیعہ برادری پر کیا گیا جس میں 43افراد ہلاک
اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ حملہ آور بس روک کر اس میں داخل ہوئے اور بس میں
سوار مرد و خواتین پر بے تحاشہ اندھا دھند فائرنگ کردی۔اس واقعہ نے پھر ایک
مرتبہ پاکستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کیا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد
پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنا دورہ سری لنکا ملتوی کردیا
اور سندھ کے وزیر اعلیٰ نے علاقے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کرتے
ہوئے ڈی آئی جی سے تین دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ لیکن اس سے دہشت
گردوں پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ، وہ تو پھر ایک مرتبہ کسی اور مقام کے
تعین کے لئے مصروف ہوگئے ہونگے ۔جائے وقوع سے تفتیشی اہلکاروں کو کچھ پمفلٹ
دستیاب ہونے کی اطلاع ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ پاکستان میں
دولت اسلامیہ کی کارروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے اور شیعہ افراد کو سنگین
نتائج کا انتظار کرنے کہا گیا ہے لیکن اس میں کتنی حقیقت ہے اس سلسلہ میں
کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ اس حملے کے بعد شیعہ اور سنیوں کو مزید حملوں کا
انتظار کرنا ہوگا کیونکہ جوابی کارروائی کو بہرصورت ہوگی۰۰۰ |
|