جِنّاَت کا انسانی روپ میں مجھ سے مخاطب ہونا۔آپ بیتی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
مجھے زندگی میں جِنّاَت کے حوالے
سے بھی تجربات ہوئے، جِن انسانی روپ میں مجھ سے مخاطب بھی ہوئے، ڈانٹ ڈپٹ
بھی کی لیکن نقصان نہیں پہنچایا۔ جِنّاَت کی موجودگی ٍسے ا نکار نہیں کیا
جا سکتا۔ یہ اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی۔اﷲ
تبارک و تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی اور ان سے پہلے
جنات کو آگ سے پیدا کیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے تر جمہ ’’ اسی نے
انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے پیدا کیا اور جنات کو خالص
آگ سے پیدا کیا۔‘‘(سورۃ الرحمن: آیت ۱۴۔۱۵)۔ اسی سورۃ میں اﷲ تعالیٰ نے
انسان و جن کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے تر جمہ’’سو اے جن و انس تم اپنے رب کی
کون کونسی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے‘‘
(سورہ رحمٰن، آیت نمبر ۱۳) ۔قرآن مجید میں ایک سورۃ ’جن‘ بھی ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے ’معجم القرآن‘ میں لکھا ہے کہ ایک روایت کے مطابق
انسان کی آباد کار ی سے پہلے زمین پر جِن آباد تھے۔ جِنّاَت کے اجسام شفاف
ہوتے ہیں اور یہ ہماری دنیا میں مختلف روپ دھار کر داخل ہوتے ہیں۔ کالے
کتوں ، کالی بلیوں، کالی چمگادڑوں اور سانپوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور
بسا اوقات یہ انسانی روپ میں بھی سامنے آتے ہیں۔ سورۂ جِن کی گیارہویں آیت
میں جنوں کی زبان سے یہ اعتراف ملتا ہے کہ ہم جنوں میں سے کچھ نیک ہیں اور
کچھ بد۔ بعض علماء نے جِنات کی جو پانچ قسمیں بیان کی ہیں،۔
پہلی قسم :اُن میں سے ایک قسم ـجان‘ کہلاتی ہے جو کہ نہایت ضعیف اور بزدل
جن ہوتا ہے۔ غالباً مجھ سے جو جو جِنات اب تک مخاطب ہوئے وہ ضعیف اور بزدل
جِنات ہی تھے ورنہ تو میں اب تک اس دنیا میں نہ ہوتا۔
دوسری: یہ قسم ’شیطان‘ کہلاتی ہے جو کہ بری ارواح ہوتی ہیں۔
تیسری قسم: یہ ’عفریت‘ کہلاتی ہے، یہ ایک طاقتور بد روح ہوتی ہے ۔ اﷲ اس سے
محفوظ رکھے۔
چوتھی قسم: یہ ’مَرید‘ اُس سے بھی زیادہ طاقت ور بد روح ہوتی ہے اور
پانچویں قسم : یہ ’پریوں‘ کی ہے ، جنہیں نیک جن عورتیں کہا جاتا ہے۔
یہاں میَں اپنے وہ تجربات اور مشاہدات بیان کروں گا جو مجھے اﷲ کی ایک
مخلوق ـ’’جِنات‘‘ کے حوالے سے ہوئے۔ ایک سے زیادہ بار ’جن‘ مجھ سے مخاطب
ہوا، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی، ڈرایا دھمکایا بھی، نرمی اور پیار سے بات بھی کی اور
حتیٰ کہ چلتی گاڑی سے نیچے پھینکنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ الحمد ﷲ ہر بار
میں ان کے شر سے محفوظ رہا ۔ اﷲ تعالیٰ ہر ایک کواس مخلوق کے شر سے محفوظ
رکھے۔
یہ اُس زمانے کاذکر ہے جب میری رہائش لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی میں
تھی ، اسے مسان روڈ بھی کہا جاتا ہے، یہ رہائشی بستی جس قطعہ زمین پرآبادہے
یہاں قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کی رہائش کے ساتھ ساتھ مسان گھاٹ بھی تھا،
اس بستی میں قائم غازی محمد بن قاسم اسکول جس میں راقم نے پہلی تا ششم تک
تعلیم بھی حاصل کی ہندوؤں کی رہائش گا ہ تھی ۔اسی علاقے میں اور میری رہائش
گاہ کے نذدیک تاج جامعہ مسجد کے پاس ہندوؤں کا مسان گھاٹ بھی تھا جہاں پر
ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعدکچھ عرصہ
تک جاری رہا، مسلمانوں کی اکثریت جب اس علاقے میں آباد ہو گئی تو ہندو یہاں
سے منتقل ہو گئے۔ اس بستی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں اکثر زمین کی کھدائی
کے دوران انسانی اعضاء خاص طور پر انسانی کھوپڑیاں وغیرہ نکلا کرتی
تھیں۔یہاں ایک عامل ’’پانی والا بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔میں اپنے
دوستوں سبطین، ظفر، سعید، احمد،شکیل(پیارے) کے ہمرہ اکثر اس عامل کے گھر جو
غوثیہ روڈ پر واقع تھااور ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا چلے جاتے ،اس وقت
مقصد تماشہ دیکھنا ہوتا تھا۔ اس عامل کے پاس مرد، عورت اور بچے ایسے آتے جن
کے بارے میں یہ یقین ہوتا کہ ان پر جن یا بھوت کا اثر ہے، یہ عامل تمام
لوگوں کی موجودگی میں ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھتا تھا ساتھ ہی مخصوص
الفاظ بھی ادا کیا کرتا تھا ، اس کے اس پڑھنے کے بعد جن یا بھوت کے اثر کا
حامل مریض ہاتھ پیر مارنے لگتا اس کے قریب کے لوگ اُسے پکڑنے کی کوشش کیا
کرتے ، اس کے بعد عامل اس مریض سے پوچھتا کہ کہ بتا کہ تو کون ہے؟ جن یا
بھوت؟اگر جن یا بھوت کمزور ہوتا تو فوری بول پڑتا ، اگر ڈھیٹ یا طاقت ور
ہوتا تو بولنے میں دیر لگاتا، اس طاقت ور جن کے لیے بابا صاحب لوبان والا
چمچہ جس میں کوئلے دھک رہے ہوتے ان پر لوبان ڈالتا بسا اوقات چھوٹی سرخ
مرچے ڈالتا اور اس چمچے سے نکلتا ہوا دھواں متعلقہ جن کے حامل مرد یا عورت
کی ناک میں ڈالتا، بسااوقات بابا جی اپنی تسبیح اس جن کے حامل مرد یا عورت
کے سر پر پھیرتا تو وہ شخص فوری بول پول پڑتا ، آواز اس مرد یا عورت کی
ہوتی لیکن اصل میں وہ جن ہوا کرتا تھا۔اب بابا جی جن سے سوال و جواب کرتے
کہ تو کون ہے؟ جن صاحب اسے جواب دیتے کہ جن ہے یا بھوت،بابا جی پوچھتے کہ
تو نے اسے کب، کہاں اور کیوں پکڑا، جواب میں مریض کہتا کہ فلاں درخت کے
نیچے ، سنسان جگہ ، قبرستان وغیرہ وغیرہ سے، وہ ان کی تعداد بھی معلوم کیا
کرتا کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں جواب میں وہ کبھی کہتا کہ ایک ہی ہوں ، کبھی
اپنے خاندان کے بارے میں بتا یا کرتا۔ اس کے بعد عامل اس کو جانے کے لیے
کہتا اگر جن کمزور ہوتا تو چلا جاتا ، کبھی عامل اسے بوتل میں بند کردیا
کرتا اور کبھی لوبان کی دھونی کے ذریعہ جلا دیا کرتا۔یہ باتیں سنی سنائی
نہیں بلکہ میں نے کئی برس دیکھی، یہ عامل ذات کا کچھی یا تُرک تھا۔اس طرح
مجھے جِنّاَت کو سننے،انسانی روپ میں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا تجربہ ہوا۔
مَیں نے اپنی امی کی زبانی یہ بات کئی بار سنی کہ وہ جب چھو ٹی سی تھیں
ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اکثر ایک سانپ ان سے کھیلا کرتا تھا،
وہ ان کے گلے میں کبھی ایک جانب کبھی دوسری جانب گھومتا رہتا اور وہ اپنے
ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے پکڑتی اور کھیلا کرتی تھیں ، جب کوئی ان کے پاس
آجاتا تو وہ غائب ہو جاتا، ان کے والدین نے کسی عامل کے ذریعے اس سانپ کو
جو دراصل ’جِن ‘ تھا رفو چکر
کیا۔ہم بہن بھائی اکثر اپنی امی کو اس واقعہ کی یاد دلا کر مذاق کیا کرتے
تھے۔جن کا سانپ کے روپ میں ظاہر ہونا مستند بات ہے ۔ ہاکس بے یا پیراڈائزڈ
پوائنٹ جاتے ہوئے گلبائی سے آگے جائیں تو بائیں نیول کولانی آتی ہے اس سے
بھی آگے جائیں تو ہاکس بے میں داخل ہونے سے قبل دکانیں آتی ہیں جہاں پر
تفریح کے لیے جانے والے کھانے پینے کا سامان خرید رہے ہوتے ہیں ۔ یہاں سے
آگے جائیں تو دو راستے ایک دائیں جانب سینس پٹ یا منوڑہ کے لیے راستہ جاتا
ہے دوسرا بائیں جانب ہاکس بے کی جانب راستہ جاتا ہے۔ اگر ہاکس بے کی جانب
جائیں تو شروع ہی میں دائیں ہاتھ آبادی شروع ہوجاتی ہے جو گوٹھ نما ہے۔ یہ
بلوچ گوٹھ ہے۔ یہاں کسی منی بس کا آخری اسٹاپ بھی ہے۔ اس گوٹھ کے اندر ایک
قدیم قبرستان ہے جس میں ایک قبر بھی ہے ۔ یہ قبر لمبائی میں پندرہ سے بیس
فٹ لمبی ہے کہا جاتا ہے کہ یہ کسی صحابی یا کسی بزرگ کی قبر ہے۔ جو لوگ
یہاں جاتے ہیں اس قبر پر فاتح بھی پڑھتے ہیں۔ اس قبر کے برابر ایک اونچائی
ٹیلا ہے ، پہاڑی اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بہت اونچی نہیں ہے اس ٹیلے کے
اوپر ایک چورس جبوترا بنا ہوا ہے اس کے اوپر مٹی کے کونڈے (جس طرح کے کونڈے
دھی جمانے کے ہوتے ہیں) رکھے ہوئے ہیں، ان کونڈوں میں لوگ دودھ لا کر ڈالتے
ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ایک جن کا مستقل بسیرا ہے اور وہ جن بہادر
سانپ کی صورت میں یہاں آتا ہے اور لوگوں کا ڈالا ہوا دودھ ہڑپ کرجاتا ہے۔
سنی سنائی بات ہے کہ بعض لوگوں نے اس جن کی زیارت بھی کی۔میں کئی بارجناب
جن کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن مجھے ان کی کبھی زیارت نصیب نہیں ہوئی۔لوگ
عقیدت رکھتے ہیں کہ یہاں موجود جن بابا کو دودھ پلانے سے ان کی مرادیں پوری
پوتی ہیں۔ میں اس جگہ اپنی کسی مراد کے لیے نہیں گیا ۔ میرا کچھ اور مقصد
تھا جو پورا بھی ہوا۔
۱۹۷۰ ء کی بات ہے میری اِمی کو بخار آگیا، معمولی سی بات تھی، علاج ہوا اتر
گیا لیکن کھانسی نہ گئی، ایسا بھی اکثر ہوتا ہے، کھانسی کی دوا استعمال
کرتی ر ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا رہا یہاں تک کہ آواز سے
یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی مرد کھانس رہا ہے ، سب کو تشویش ہوئی،
ہمارے خاندان میں سید امام صاحب جِنّاَت کا اتار کیا کرتے تھے جب انہیں امی
کی اس کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے عمل کے ذریعہ بتا یا کہ اِمی پر
کسی جِنّ کا اثر ہے ، انھوں نے اس کا اتار شروع کردیا، کچھ تعویذ ، پڑھاہوا
پانی اور ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے کچھ بتا یا، انھوں نے یہ بھی بتا یا کہ
ان پر (ہماری امی پر) کسی مرد جن کا اثر ہے ، ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت
نہیں، یہ کچھ نہیں کرے گا ، اسے جانے میں کچھ وقت لگے گا ۔ سارے بہن بھائی
چھوٹے تھے ، خوف زدہ ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا، ان کی کھانسی اسی طرح جاری
رہی ، کھانستے وقت مرد کی آواز نمایاں ہوا کرتی لیکن کوئی اور بات کبھی
نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا عمل جاری رہا انھوں نے بتا یا کہ وہ رات میں
پڑھائی بھی کرتے ہیں۔چند روز گزرنے کے بعد ایک دن امی پر کھانسی کا
شدیددورہ پڑا لیکن اس دورے کے باوجود ان میں وہ نقاہت یا کمزوری دیکھنے میں
نہیں آئی۔ بیٹھے بیٹھے کھانس رہی تھیں البتہ اس دن انھوں نے مرد کی آواز
میں بولنا شروع کیاچند جملے ہی ذہن میں ہیں ، مرد کی آواز میں کہاکہ ’’میں
اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘،’’ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، ’’تم لوگ مت
ڈرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ وغیر وغیرہ، میں اِمی کے پاس ہی تھا ،
میری کسی بہن سے چائے کے لیے کہا کہ’ میں چائے پیوں گا‘، چائے بنادی گئی،
تھوڑی سی چائے پی ، آدھا کپ چائے باقی تھی، مجھے مخاطب کیا ، کہنے لگیں !تو
میرا بیٹا ہے ، میں نے کہا کہ ہاں ہوں، جِن گویا ہوا! میرا ایک کام کرے گا
میں نے کہا کروں گا ، پھر کہا کہ یہ کپ میں جو چائے ہے اسے دروازے کے
باہرپھینک دے، بہ ظا ہر یہ عام سی بات تھی ، لیکن اس وقت کچھ عجیب سا ڈر
اور خوف کی کیفیت طاری تھی، میں نے کہا کہ اسے میز پر رکھ دیں ، پھینکنے کی
کیا ضرورت ہے، لیکن بضد ہوئیں کہ میں اسے باہرپھینک دوں ، میں ان کے اصرار
پر سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے انکار کردیا ، کھانسی کے
دورے میں بے انتہا اضافہ ہوا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ کھانسی بند ہوگئی اور ان کی
اس کیفیت میں بھی تبدیلی آگئی یعنی وہ اپنی آواز میں باتیں کرنے لگیں، امام
صاحب کو اس کیفیت سے آگاہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت اچھا
کیا کہ چائے باہر دروازے پر نہیں پھینکی، ایسا کرنے کی صورت میں’جِن‘ ان کے
اوپر سے تو چلا جاتا لیکن باہر دروازے پر اپنا بسیرا جما لیتا۔اس طرح امام
صاحب نے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی اور اِمی ٹھیک ہوگئیں۔
جِنات کے حوالے سے ایک اور واقعہ جو دلچسپ اور خوف ناک بھی ہے ۔میرے ایک
دوست کی بیوی (جو پروفیسر تھی ) اس مشکل سے دو چار ہوئی۔پروفیسرنی صاحبہ کی
بعض حرکات ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر
وغیرہ کا ہے۔ میرے دوست کو کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا ،سردیوں کا
زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کسی نے ایک
عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس
کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے ، نہ معلوم کیا صورت
ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعٔی خراب تھی ، میں اس کے ساتھ ہو
لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں
پہنچ گئے۔ایک چھوٹا سا کمرہ تھا کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ۔ عامل درمیان
میں بڑی سی تسبیح لیے بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ایک فرشی میز رکھی تھی۔دیگر
لوگوں کو فارغ کر نے کے بعد اس عامل نے پروفیسرنی صاحبہ کو اپنے دائیں جانب
بٹھا دیا، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا ، عامل نے تفصیل معلوم کی اور
عمل شروع کردیا، خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا ،بڑی بڑی آنکھیں باہر کی
جانب، ہم سب کوگھور گھو ر کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جِن
آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے
کہا ، کمرے کی لائٹ مدھم کردیں ، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے
کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا ، اتنے میں کوئلے دھک کر آگئے، عامل نے
دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈال کر پروفیسرنی صاحبہ کی ناک کے
نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک
ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیں، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ
خاتون جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ، اس عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال
پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی ،
کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا ، عامل اس سے مخاطب ہوا ، پوچھا کہ ’بتا
تو کون ہے‘؟ مردانہ آواز میں جواب دیا کہ’ میں جن ہوں‘، تعداد کیا ہے،
اکیلا ہوں، اس عورت کو چھوڑدے ، کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤں
گا وغیرہ وغیرہ ،عامل نے یہ عمل دہرایا ، مرچوں کی دھونی نے کمرے میں بیٹھے
تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھالیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار
عامل نے ’جن‘ کو جانے پر مجبور کر دیا ، اس نے جانے کا وعدہ تو کرلیا لیکن
فوری طور پر نہیں گیا ، ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا،
میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی کے ساتھ بخار
ہوگیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے
گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا ، یہ کوئی
خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر
بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو
میں آگے بیٹھوں گا‘‘،میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو
میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ حضرت ’جِن ‘ اس عورت میں
موجودہیں، اب کیا ہوسکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی
کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی پچھلی سیٹ پر تھی، اﷲ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے،
وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی
چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں
بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اس کی خیریت
پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے
، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے‘‘ ، اس
کے بعدوہ میری جانب مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں
نے اپنے دوست سے کچھ کہا ، اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر
برس پڑی، بولی ،’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘،
اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کردیے،میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس
نے چلتی گا ڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں
کھڑا تھا، بدن کپکپا نے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوگئی، میں بدستور
گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور
دعا کر تا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آجائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر
پہنچے تووہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ پان کھلااورسگریٹ پلا‘‘،
میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہووہ
کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ کی دکان پر گاڑی
روک ، سنا نہیں تونے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آجائے تو روکتا ہوں لیکن میں
نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہورہی، گھر آگیا ،
خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ
لی۔میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام
باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدرخوف میں مبتلا
کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہوگئی۔یہ میری زندگی
کا نہ بھو لنے والا واقعہ ہے،جب کبھی مجھے اس کا خیال آجاتاہے ’ جِن‘ سے ہو
نے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت پر میرا ایمان مزید
پختہ ہو گیا ۔(23 مئی2015)، مصنف سے برائے راست رابطے کے
لیے:Mail:[email protected] |
|