اقتصادی راہداری پر اتفاق....معاشی انقلاب کی نوید!

28 مئی 1998ءہماری تاریخ میں ایک عظیم دن ہے، جس دن قوم کی مشترکہ جدوجہد اور اتفاق رائے سے پاکستان نے ایٹمی قوت بن کر دشمنوں کے منہ بند اور آنکھیں کھول دی تھیں اور اس ایٹمی سفر کو جاری رکھا اور آج پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن 1998ءسے آج تک ملک کے سنجیدہ حلقے مسلسل اس حوالے سے فکر مند نظر آئے کہ برتری کا ایک میدان تو ہم نے بھارت سے جیت لیا، لیکن اب اس سے بھی زیادہ اہمیت اور ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان، بھارت سے معاشی میدان میں آگے جائے، لیکن اس میدان میں بھارت ہم پر فوقیت رکھتا ہے۔ ٹھیک 17 سال بعد 28مئی 2015ءکو جب پوری قوم یوم تکبیر منا رہی تھی، ایٹمی قوت بننے پر رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ ہائے تشکر ادا کر رہی تھی، ایک بار پھر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما ملک کو معاشی قوت بنانے کے منصوبے پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے ایک جگہ جمع تھے۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق رائے کے لیے وزیراعظم ہاﺅس میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سیاسی قیادت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ پر اتفاق کیا۔ چند روز قبل جو سیاسی رہنما اقتصادی راہداری منصوبے پر معترض تھے، اس اجلاس میں وہ رہنما بھی وزیر اعظم کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے نظر آئے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کے شانہ بشانہ چلنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کی اپیل پر راہداری منصوبے کے روٹ میں مبینہ تبدیلی کے خلاف ہڑتال کی گئی تھی، جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں صوبائی حکومت اور حزب اختلاف نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے راہداری کے منصوبے کے روٹ میں تبدیلی کے خلاف احتجاج کیا تھا، جس پر حکومت کی جانب سے ملکی سیاسی قیادت کو باور کرایا گیا تھا کہ چین کے تعاون سے پاکستان میں بننے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے ملکی سیاسی قیادت کو یقین دلایا کہ حکومت چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے مغربی روٹ کو جو صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے گزرتا ہے، پہلے تعمیر کرے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی اور صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی بعض دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ حکومت نے مغربی کے بجائے پہلے مشرقی حصے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو پنجاب سے گزرتا ہے۔ وزیراعظم نے ان شکوک کو ختم کرنے کی کوشش کی اور واضح انداز میں اس مغربی گزرگاہ میں آنے والے علاقوں کے نام بھی گنوائے، تاکہ اس بارے میں مزید شک کی گنجائش نہ رہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر وزیراعظم نواز شریف نے صوبائی نمائندوں پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ بنانے کا بھی اعلان کیا، جو منصوبہ بندی کمیشن کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر عمل کا جائزہ لے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، جس پر تمام سیاسی قائدین کا شکرگزار ہوں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 21 ویں صدی معاشی انقلاب کی ہے، یوم تکبیر کے دن کی مناسبت سے معاشی انقلاب کا آغاز ہو رہا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے۔ گوادر سے کاشغر تک تقریباً 3,000 کلومیٹر طویل ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت تعمیرکیے جانے والے روڈ نیٹ ورک کا اصل مقصد گوادر کو ملک کے دیگر حلقوں کے ساتھ مربوط طور پر جوڑنا اور اس کی راہ میں حائل موجودہ رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنا ہے۔ اس اعتبار سے CPEC پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت کو بروئے کار لا کر اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ایک سنجیدہ اور پرخلوص مشترکہ کوشش ہے۔ یہ راہداری منصوبہ صرف ایک سڑک کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فریم ورک ہے۔ یہ بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا مجموعہ ہے، جس میں بجلی گھر، صنعتی زون، ثقافتی منصوبے اور ٹیلی وژن اور ریڈیو اسٹیشن تک شامل ہیں۔ اقتصادی راہداری روٹ کو مشرقی، مغربی اور وسطی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی روٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے گزرے گا، مرکزی روٹ سکھر اور انڈس ہائی وے کو قرا قرم ہائی وے سے جوڑے گا اور مشرقی روٹ اسلام آباد سے فیصل آباد اور ملتان موٹر وے کو سکھر کے راستے گوادر تک لے جائے گا۔ حکومتی ذرایع کے مطابق سب سے پہلے مغربی روٹ، اس کے دو سال بعد مشرقی روٹ اور سب سے آخر میں مرکزی روٹ پر کام مکمل کیا جائے گا۔ اقتصادی راہداری سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا، کراچی میں میٹرو بس کا منصوبہ بھی شروع کیا جائے گا۔ رتو ڈیرو بسیمہ شاہراہ 2017 ءتک مکمل ہو جائے گی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت سکھر، لاڑکانہ، کراچی اور بن قاسم میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے، بلوچستان میں بھی بہت سے ترقیاتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں، ان کے علاوہ دیگر متعدد منصوبے بھی اقتصادی راہداری منصوبے سے جڑے ہیں۔

ماہرین اقتصادیات پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کے لیے ترقی و خوشحالی کا ایک سنہری اور نادر موقع قرار دے رہے ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت و بلتستان کے ترقیاتی عمل میں ممدو معاون ثابت ہوگا، بلکہ خطے میں امن واستحکام اور خوشحالی کا بھی ضامن ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت توانائی، انفرا اسٹرکچر اور زرعی ترقی کو زبردست فروغ حاصل ہوگا اور تعلیم و صحت جیسے اہم شعبوں میں انقلابی ترقی اور پیش قدمی کے مواقع میسر آئیں گے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ پہلو عظیم الشان منصوبہ ہے جو دونوں دوست ممالک کے تاریخی باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچائے گا، بلکہ دو طرفہ معاشی مفادات کے لیے بے شمار فوائد حاصل کرنے کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس منصوبے کی وجہ سے ملحقہ خطوں کے لیے پاکستانی بندرگاہوں کی اہمیت میں بھی دوچند اضافہ ہوگا اور پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کا حلقہ اثر مغربی اور وسطی ایشیائی ممالک تک فروغ پائے گا۔ چین نے اپنی معاشی پالیسی کے چار اہداف مقرر کیے ہیں، جن میں ایشیاءپیسفک اور یورپ سے رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے، جس کی وجہ سے چین، پاکستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے تکمیل کے بعد نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی خوشحالی کی ضمانت ثابت ہوں گے، بلکہ بہتر جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان خطے میں مضبوط معاشی طاقت کی حیثیت سے ابھرے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.