یومِ تکبیر کا درس

آج کا دن یاد دلاتا ہے کہ 28 مئی 1998 کو تیسری دنیا کے ایک ترقی پذیر ملک نے ایٹمی قوت کے طور پر ابھر کر معجزہ کردکھایا تھا۔ جو کہ جدید سائنسی تعلیم کے حصول کے بغیر قطعی ممکنات میں سے نہیں۔ صد شکر کہ اللہ نے ایسی ہستیاں پیدا فرمائیں جن کی تعلیمی قابلیت اور محنتِ شاقہ سے آج پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔

یہ بات بہت زیادہ باعثِ اطمینان ہے کہ پاکستان کو باہر سے کچھ زیادہ خطرہ نہیں ہے لیکن آج پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ اندر سے ہے۔ کسی اور سے نہیں ، بلکہ اپنے آپ سے ہے۔ جس جہاز کا ہر مسافر اپنے آپ کو کپتان سے زیادہ ماہر و قابل گردانتا ہو اور کپتان کی نشست پر براجمان ہونے کے لئے اُس کا خاتمہ کرنے پر تُل جائے تو ایسا جہاز کبھی باخیر و عافیت منزل ِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتا۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر اشخاص اپنی ذات میں تیس مار خان ہیں۔ بڑے ارسطو بنے پھرتے ہیں۔ پاکستانیت پاکستانیت کی رٹ لگاتے ہیں۔ ہمیں بےوقوف بناتے ہیں۔ سو روپے کا تیل ڈلواتے ہیں کمپنی کھاتے پر پانچ سو روپے کی رسید بنواتے ہیں، زرداری مردہ باد اور پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہیں ، بڑے محان کہلاتے ہیں۔ میں تو ایسوں کی ذات و اوقات کے بارے کیا کہہ سکتا ہوں سوائے اس کے ایسوں کے ضمیر مر چکے یا بک چکے ہیں۔
مذہبی ، لسانی ، علاقائی تضادات و تفاوتیں حدوں سے پار ہوتی جارہی ہیں ۔ ہر کوئی فقط اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں قبولیتِ عبادت پر یقین رکھتاہے۔ روپیا پیسا ہی مائی باپ ہے۔ بے اصولی ہی اصل اصول ہے۔ یہاں پر تو ایسے ہی ہوتا ہے بھائی ، تم پتہ نہیں کس دیس سے منہ سے اُٹھا کر آگئے ہو ۔ یہ جملہ میں بیسیوں مرتبہ سن چکا ہوں۔

یہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک کس ڈگر کو چل نکلا ہے۔ یہ ہمارے نظریات و اعتقادات کیسے اور کیونکر بدل گئے؟ ہم تو مسلمان ہیں؟ مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ناکہ قصائی۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ وہ مسلمان جس کو سود سے دور رہنے کا حکم ہے اور زکوِۃ کے ذریع بے سہاروں کا آسرا بننے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم تو مسلمان ہیں جن کو اللہ نے کلام قرآن مجید میں تفرقوں سے دور رہنے کو کہا ہے۔ پر کیا کریں کیونکر سمجھیں، ہم تو ضمیر فروش ہیں، ضمیر فروش۔۔۔

اگر یہ لغزشیں ہماری قوم میں پنپتی رہیں اور ان کا سدباب نا کیا جا سکاتوپاکستان کو خدا ناخواسطہ کوئی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔ (اللہ میرے وطن کو قائم دائم اور شاد آباد رکھے۔ آمین)
ہمارا دفاع جو ناقابل ِ تسخیر ہے یہ اس بات کی ایک روشن دلیل ہے کہ کس طرح لگن ، جذبہء حب الوطنی ، کمال محنت و مہارت سے معجزات کو برپا کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ہمیں ہر ہر میدان میں کامیابی و کامرانی کیلئے بھرپور محنت و لگن سے کام کرنا چاہیئے بصورت دیگر اور کوئی چارہ نہیں۔
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 26 Articles with 20622 views A Young Poet and Column Writer .. View More