اگر پولیس کا محکمہ ختم کردیا جائے……؟
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کوایک
عشرے سے زیادہ ہوگیاہے پنجاب کاوزیراعلیٰ بنے ہوئے۔اس طویل عرصہ میں وہ بے
تاج بادشاہ کے طورپراپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔بہت سے اداروں میں
ریفارمزبھی کیں ان میں سدھاربھی لانے کی کوشش کی اورکہیں کہیں بہتری بھی
نظرآئی لیکن ایک محکمہ ایسابھی ہے جس میں اصلاحات لانے،قبلہ درست کرنے،کلچر
تبدیل کرنے،ماڈل بنانے کے بلندوبانگ دعوے ہوتے رہے لیکن آج تک وہ محکمہ
اپنی ڈگرپرقائم ہے۔بہتری کی بجائے ابتری کے خطوط پر رواں دواں ہے۔جی ہاں!
وہ محکمہ ہے پولیس کا پنجاب پولیس کا،جس کاقبلہ درست کرتے کرتے وزیراعلیٰ
پنجاب اپنے سیاسی کیریئر کی ایک دہائی سے زیادہ مدت اس پرصرف کرچکے ہیں۔نہ
جانے کیابات ہے کہ وہ اسے سدھارنہیں پائے۔کوئی تقریب یااجلاس ایسانہیں ہوتا
جس میں وزیراعلیٰ موصوف تھانہ کلچر تبدیل کرنے اورپولیس کاقبلہ درست کرنے
کی بات نہ کرتے ہوں ۔کہاوت کے مطابق کہ جتنازور اور ٹائم وزیراعلیٰ نے
پولیس کودرست کرنے میں ضائع کیااگرکسی دیوار کوبھی اتناسخت سست برا بھلاکہا
جاتا تووہ بھی یقینا اپنا قبلہ درست کرچکی ہوتی۔اب یہاں پر دو باتیں
اخذہوتیں ہیں۔کہ عملوں کادارومدار نیتوں پرہے کے مصداق آپ اس محکمے کو
سدھارناہی نہیں چاہتے۔بالکل اس طرح جیسے آپ اگر کسی کے ہاں جائیں اور وہ آپ
کی خاطرمدارت نہ کرناچاہتاہوتووہ سامنے بیٹھے دکاندارکوآواز دے اور ہاتھ
ہلاکراشارہ کرتاہے کہ دو چائے بجھوا دو۔منہ سے دو چائے کاکہہ رہاہوتاہے
لیکن ہاتھ کے اشارہ سے منع کر رہا ہوتاہے کہ کہہ بھی دیااور چائے بھی نہ
آئی اور مہمان بوجہ دیر اٹھ کرچلاگیا۔دوسرے یہ یوں بھی ہوتاہے کہ پولیس
والوں کوآگاہ (warn) کیا جانا مقصود ہوتا ہے کہ اگر ہماری بات نہ مانی
ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کی ہمارے ایم این ایز ایم پی ایز اور چمچوں کڑچھوں
کی خواہشات کے مطابق ایف آئی آر نہ کاٹی۔ جھوٹے مقدموں کا اندراج نہ کیا تو
پھر تیار ہوجاؤ تمہارا قبلہ درست کردیاجائیگا۔ہر دو صورتوں میں پولیس کو
یہی باورکرانا مقصود ہے کہ بس ہماری بات ہی مانی جائے اور جب ایسی صورت حال
پیدا ہوتی ہے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آتا ہے ، کراچی میں منہ پر کپڑے
اورنقاب لگاکر پولیس کے ’’شیرجوانوں‘‘کا صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا
وقوعہ ہوتا ہے۔ ڈسکہ میں چلبل پانڈے ٹائپ پولیس انسپکٹر صدر بار اور دوسرے
وکلا کے جسم میں برسٹ اتارنے جیسی بربریت منظرعام پر آتی ہے۔ اسے بھی یقینا
کسی وڈیرے وزیر مشیر ایم این اے کی آشیرباد حاصل رہی ہوگی۔ ریاست کو پولیس
سٹیٹ بنادیا گیا ہے جس کوسیاسی زعمااور پولیس اپنی گڈ بک میں شامل کرلیتی
ہے وہ پاک و صاف اور تمام گناہوں سے مبرا ہوتا ہے اور اگر کوئی بے گناہ
اپنے حق کیلئے بھی بات کرے تو اس سے بڑا گناہگار انہیں صفحہ ہستی پرکوئی
نظر ہی نہیں آتا۔یہ سب سے بڑی وجہ ہے بگاڑ کی اور پولیس سے نفرت کی۔جو کہ
بجا ہے۔
ایک مشورہ اور لوگوں کی رائے بھی ہے کہ اگر پولیس کا محکمہ ختم کردیا جائے……
تو کہیں کہیں کوئی بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے دیکھیں اگر پولیس کی ایما
پر ایک ظالم ایک مجرم ایک جاگیردار ایک سرمایہ دار ایک صحافی کسی پر ظلم
کاپہاڑ توڑتا ہے تو اسے یقین کامل ہوتا ہے کہ پولیس نے مجھے مکمل تحفظ اور
پروٹوکول دینا ہے اور مظلوم میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتاکیونکہ پولیس
والے مجھ سے منتھلی وصول کرتے ہیں ڈیرے ،گھر یا آفس میں آکر بار بی کیو
چائنیز رشین کھابے کھاتے ہیں عید تہوار اور خوشی غمی کے معمولات کے علاوہ
بھی اپنی ضروریات پوری کرواتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر پولیس کی آشیر باد
کو درمیان سے نکال دیا جائے تو ان میں سے اکثر وڈیرے اور جاگیردا روں اور
ان کا کروفر وتکبر گدھے کے سر پرسے سینگ کی طرح غائب ہوجائے گا اور جب ان
کی ہوا نکلے گی تو کرائم کا گراف نہایت حد تک نیچے آجائیگا۔ اس کے علاوہ
پولیس رویوں پرردعمل بھی سامنا آتا ہے جو کہ بذات خودجرائم میں اضافے کی
ایک بڑی وجہ ہے ان کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ پولیس افسران کی اہلکاروں پر
کرم نوازیاں اور غفلت ہے اسے محکمانہ پالیسی بھی کہا جاسکتا ہے اور ذاتی
مجبوری بھی کہ جب کسی اہلکار یا افسر کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے بالخصوص
خبر لگتی ہے توحکام بالا کی جانب سے اس کی انکوائری ہوتی ہے اور رپورٹ طلب
کی جاتی ہے تو اب پولیس روایتی اور گھسے پٹے الزامات لگا کر جواب جمع
کروادیتی ہے اور 99 فیصد اسے درست تسلیم کرلیا جاتا ہے مثلا اگر فحاشی کے
اڈوں کے خلاف خبر لگتی ہے اور کسی بھی افسر یا اہلکار کو ملوث بتایا جاتا
ہے تو اسکا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ جناب والہ شہر میں صحافیوں کو دو گروپ
ہیں ان میں سے ایک گروپ ان اڈوں کی سرپرستی کرتا ہے۔چھاپے کے دوران گرفتار
افراد کو چھوڑنے کیلئے کہا گیا۔ نہ چھوڑنے پر خبر لگادی گئی اس میں کوئی
صداقت نہ ہے۔یا پھر یوں لکھا جاتا ہے کہ صحافیوں نے اخبار کیلئے اشتہار
مانگا تھا نہ دینے کی پاداش میں بے بنیاد خبریں لگائی جارہی ہیں لہذا
’’مہربانی ‘‘فرماتے ہوئے معاملہ کو داخل دفتر کیا جائے۔اس طرح بھی رپورٹ
کیا جاتا ہے صحافیوں کا ایک گروپ شہر میں بھتہ وصول کرتا ہے ان کو منع کیا
گیا تو خبریں لگانا شروع کردیں۔یایہ کہ مجرم کو چھوڑنے،پرچہ کے اندراج یا
اخراج کی بابت کہا گیا ۔ عملدرآمد نہ ہونے کی بنا پر اخبارات کی زینت
بنادیا گیا یہ روٹین کی رپورٹنگ ہوتی ہے اب چونکہ افسران ’’ایماندار اور
میرٹ پر کام کرنے والے ‘‘ ہوتے ہیں اس لئے ایمانداری اور فرض شناسی کے تمام
تقاضے پورے کرتے ہوئے مدعا علیہ کو جس نے حقائق پر مبنی اور ایمانداری کے
ساتھ رپورٹ مرتب کرنے پر بری الذمہ(بری کرکے ’’ذمہ داری ‘‘پوری کرنے کو
کہاجاتا ہے)اور دس سے پندرہ اخبارات میں لگنے والی تمام خبریں جھوٹی ثابت
کردی جاتی ہیں۔یہ پریکٹس تحصیل اور ضلعی سطح کی ہیں ڈویژنل اور پرونشیل
لیول کی کہانی قدرے مختلف اور ترجیحات نسبتا تبدیل ہوتی ہیں
اگر وزیر اعلی واقعی پاکستان بالخصوص پنجاب پولیس کا قبلہ درست کرنے کی
خواہش رکھتے ہیں تو پھر مندرجہ بالاعرضداشتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے
سیاسی مداخلت کو فوری طور پر بند کریں۔ پولیس کو ڈی پولٹیسائز کریں۔ ڈی پی
اوز ڈی ایس پیز اور ایس ایچ او ز کیلئے واضح احکامات دیئے جائیں کہ وہ ہر
قسم کا سیاسی اثر و رسوخ سے قطع نظر برتتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ کریں۔عوامی
منتخب نمائندوں اور ان کے کارندوں کی دکانداری بند کرائیں ان کے کہنے پر ڈی
پی اوز و دیگر افسران کے تبادلے نہ کریں تو اس سے پولیس کے محکمے کو بند
کرنے کی نوبت نہیں آئے گی لیکن وزیر اعلی کی سیاست خطرے میں پڑ جائیگی۔یہ
سوچ لیجئے گا فیصلہ آپ نے کرنا ہے محکمہ سدھارنا ہے کہ سیاست بچانی ہے؟
|
|