یوں تو میری زندگی سفر سے عبارت
ہے۔ ملکی و غیر ملکی دوروں کا آغاز بہت چھوٹی عمر میں ہی ہوگیا تھا۔ جب
والد صاحب گورنمنٹ کی ملازمت سےdeputation پر ۱۹۵۴ء میں اقوام متحدہ میں
چلے گئے ۔ ان کی ڈیوٹی اسٹیشن تھائی لینڈ کا دارالخلافہ بنکاک تھا اور یوں
میں بھی کوئی پانچ چھ برس کی عمر میں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ
ہوائی سفر کے ذریعے وہاں چلی گئی۔ پرندے کی طرح آسمان پر اڑنے والا جہاز جب
کراچی ایئرپورٹ پر زمین پر کھڑا دیکھا تو اس کا سائز اور بڑے بڑے پنکھے
دیکھ کر میں ہیبت سے رو پڑی تھی اور خوف سے اپنے چچا سے لپٹ گئی تھی۔ کس
طرح مجھے سمجھایا مجھے یاد نہیں لیکن جہاز میں بیٹھنے کے بعد ہوائی
میزبانوں نے کھلونوں اور چاکلیٹ آئسکریم سے خاطر مدارات شروع کردی اور میں
اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کھیل کود میں بھول ہی گئی کہ جہاز میں ہوں۔ یوں
ہماری بین الاقوامی زندگی کا آغاز کم عمری میں ہی ہوگیا۔ جو آج تک الحمدﷲ
جاری ہے۔ سفر وسیلۂ ظفر کہتے ہیں یہ ایک خوشگوار عمل ہے اگر آپ کو نئی
جگہوں وہاں کے لوگوں مختلف زبانوں اور ثقافت سے دلچسپی ہو۔ اسی طرح کہتے
ہیں انسانوں کی پہچان کرنا ہو تو آپ ان کے ساتھ کھانا کھائیں یا سفر کریں۔
ان کی فطرت کا پتا کسی حد تک چل جاتا ہے۔
اپنی اب تک کی زندگی میں تعلیم اور ملازمت اور تفریح کی غرض سے میں بہت سے
ممالک اور براعظم دیکھ چکی ہوں۔ نجانے آسٹریلیا کیسے رہ گیا؟ ویسے تو مجھے
ترکی، یونان اور اٹلی بھی دیکھنا ہے ۔ پورا پاکستان بھی نہیں دیکھا اور آج
سے دس سال قبل اپنی بالغ زندگی میں ھندوستان جانے کا موقع ملا تو تمام
تعصبات اپنے آپ ہی دھل گئے اور بار بار وہاں جانے کو جی چاہتا ہے۔ سوچا ہے
اس سفر کا بیان علیحدہ تحریر کروں گی۔ کسی اور وقت وہ بھی اپنی نوعیت کا
دلچسپ سفر تھا۔ خواتین کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ۔
حال ہی میں سڈنی آسٹریلیا جانے کا موقع کچھ یوں بنا کہ میرا بھتیجا امین
وہاں Wollongongیونیورسٹی ماسٹرز کرنے چلا گیا۔ اس کی graduationدسمبر
۲۰۱۳ء میں تھی۔ میرا چچا زاد بھائی طارق وہاں پچھلے بیس سال سے مقیم ہے اور
وہیں کا شہری ہے مع اپنے خاندان کے۔ میری اس سے بچپن سے کافی قربت رہی۔
تعلیم کے سلسلے میں چچا کے گھر بھی رہی پھر سعودی عرب ملازمت کے لیے ہم آگے
پیچھے گئے میں جدہ وہ الخوبر۔ طارق دس سال وہاں رہنے کے بعد آسٹریلیا چلے
گئے میں دو ہی سال بعد آغا خان یونیورسٹی پاکستان واپس آگئی۔ طارق کا جانا
آنا پاکستان رہا ہر سال جیسا کہ عموماً باہر رہنے والے کرتے ہیں میں بھی
بار ہا امریکہ، کینڈا، جاپان، برطانیہ، مصر ، سوئزرلینڈ، ایسٹ افریقہ،
نیروبی اور دارالسلام وغیرہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی غرض سے جاتی آتی
رہی۔ طارق جب سنتے مجھے ہمیشہ آسٹریلیا آنے کی دعوت دیتے ہمیشہ کہتے وہاں
تو آپ کا گھر بھی ہے کبھی ہمارے پاس بھی چلی آئیں۔ لہٰذا بیس برس بعد یہ
موقع مجھے موزوں لگا اور میں نے تیاری کرلی۔ ویزہ کی معلومات حاصل کرنے کے
بعد نومبر کے آخیر میں جانیکا پروگرام بنایا۔ ایئرلائن کا انتخاب کیا جو کم
سے کم وقت ضائع کیے بغیر پہنچائے اور راستے میں کم رکنا پڑے۔ پڑاؤ کم ہوں۔
چنانچہ Cathay Pacificبذریعہ بنکاک اور بھی خوشی ہوئی رک کر جانے کی وجہ بن
گئی۔ بنکاک تو ہمیشہ دوسرا گھر لگتا ہے۔ لہٰذا تین راتیں وہاں رک کر وہاں
کے پھلوں پھولوں کا لطف لیا۔ بچپن اور لڑکپن کی یادیں تازہ ہوئیں والدین بے
انتہا یاد آئے۔ چپے چپے میں ان کے ساتھ گزری ہوئی یادیں تھیں۔ مرحوم بہن
سیما جو وہیں پیدا ہوئی اور تیرہ سال کی عمر میں چل بسی۔ بہرحال یہ تجربات
اور رشتے بھولنے والے تو ہیں نہیں زندگی میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ گو میں
سفر میں تنہا تھی لیکن والدین مرحومین اور بھائی بہنوں کی یادیں میرے ساتھ
تھیں۔
تین دن بنکاک قیام کے بعد نو گھنٹے کی اڑان لے کر میں چار دسمبر بدھ کی صبح
ساڑھے سات بجے سڈنی پہنچی۔ Immigrationمیں لمبی قطاریں تھیں لیکن مسافر
جلدی جلدی فارغ کیے جارہے تھے۔ مجھے بھی کسی قباحت یا سوالوں کا سامنا نہیں
کرنا پڑا سوائے اس کے کہ وہاں خوردنی اشیا لے جانے کی ممانعت ہے اور امین
نے مجھے پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ چنانچہ جب باہر نکلی تو آٹھ بجے تھے
اور لینے والے کوئی موجود نہ تھے۔ پندرہ منٹ انتظار کیا کافی دیسی آتے جاتے
رہے اور کئی پاکستانی اپنے عزیزوں کا انتظار کرتے نظر آئے۔ جھجکتے ہوئے میں
نے ایک پاکستانی خاندان سے پوچھا کہ انتظار کرنے کی یہی جگہ ہے؟ میں پہلی
مرتبہ اس ایئرپورٹ پر آئی ہوں تو انھوں نے مہربانی کرکے طارق کو اپنے
موبائل سے رابطہ کرنے کی پیشکش کی۔ معلوم ہوا وہ راستے میں کسی ایکسیڈنت کی
وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ نکلنے کا راستہ بند تھا۔ خیر اطمینان ہوا۔ تھوڑی دیر
بعد وہ لوگ پہنچے گئے اور ہم گھر کے لیے خوشی خوشی روانہ ہوئے۔ ایئرپورٹ سے
وہ لوگ خاصی دور سڈنی کے مضافاتی علاقے Wollongongمیں رہتے ہیں۔ تقریباً
ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر راستے میں مختلف مخصوص جگہوں کی نشاندہی کرتے گئے
کہ یہ سڈنی بندرگاہ ہے۔ یہ مشہور اوپیرا ہاؤس ہے۔ آپ کے گھمانے کا پورا
پروگرام بنالیا ہے کہ مختصر وقت میں مکمل آسٹریلیا کی زندگی کا مزہ چکھ لیں۔
بہرحال پہلا احساس جو پاکستان سے باہر جاکر کہیں بھی ہوتا ہے وہ صفائی
ستھرائی اور ترقی۔ پھر یہ کہ وہاں کی قوم اپنی ہر چیز کی ذمہ داری قبول
کرتی ہے۔ اپنا سمجھ کر اس کا خیال بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتی
چلوں کہ طارق دو ہفتے قبل دل کے دورے سے گزرے جس کے سبب مجھے اپنی روانگی
میں تاخیر ایک ہفتہ کرنی پڑی تھی کراچی سے۔ گو ان کی بیگم اور بچوں نے کہا
تھا کہ مجھے پروگرام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ ان کے اور ہم سب کے
لیے اچانک اتنا بڑا جھٹکا تھا کہ میں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ تھوڑا سنبھل
لیں۔ ان کی تین شریانیں بند تھیں جس میں تین Stent ڈالنے پڑے۔ اس کا اچھا
پہلو یہ رہا کہ وہ گھر پر تھے جس کی وجہ سے ان کے لیے میری اور میرے لیے ان
کی کمپنی اچھی رہی۔ خاندان اور بچپن کی باتیں یاد کرکے ہنستے اور مزے لیتے
رہے بہت زیادہ کام کرنے والے انسان کو یہ گھر میں بیٹھنا بھاری گزرتا۔
اگلے چار دنوں میں مجھے ماہا طارق کی پوتی کی graduation KGسے پہلی جماعت
یا درجہ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ننھے بچوں کی حوصلہ افزائی کا اچھا
طریقہ تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ چنانچہ اس موقع کے گیت بھی بچوں نے سنائے
والدین خوش تھے اور خوب تصویریں بنا رہے تھے۔ ماہا خاص طور سے میری حاضری
پر بہت خوش تھیں اور فخریہ مسکرا رہی تھیں کہ امین چاچا سے پہلے پھپھو میری
graduationمیں شریک ہوئیں۔اگلی شام کو طارق گھر سے ۴۵ منٹ کی ڈرائیو پر
برورہ واٹرز (Burowra Waters)اور اس سے اگلے دن Teregun Beachلے کر گئے۔
آسٹریلیا کی خصوصیت اس کا ساحلی علاقہ ہے۔ انھوں نے اس کا بھرپور فائدہ
اٹھاتے ہوئے انھیں بہت خوبصورتی سے ترقی دی ہے اور ساحلوں پر رہنا پسند بھی
کرتے ہیں۔ بڑے خوبصورت گھر اور اپارٹمنٹس انہی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
سمندر کی لہروں کی آواز بہت ہی سکون دیتی ہے قدرتی مناظر انتہائی ہوشربا
ہیں۔ بے ساختہ اﷲ تعالیٰ کی شان میں سبحان اﷲ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ وہاں کے
لوگوں نے قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو اسی انداز میں رہنے دیا ہے۔
NSWیا نیو ساؤتھ ویلز پورا اونچا نیچا ہے لہٰذا آپ کو وہاں کہیں بھی ایک
ہموار زمین نہیں ملتی اجازت بھی نہیں ہے کہ گھر بنانے کے لیے بھی آپ اسے
ہموار کریں بلکہ نقشے زمین کے مطابق ہی بنائے جاتے ہیں۔ بعد ایک ندرت پائی
جاتی ہے وہاں چہل قدمی بھی چڑھائی اور ڈھلان کے سبب آسان اور پر لطف مشغلہ
نہیں ایک تھکانے والی مشق ہوتی ہے۔ لیکن نظارہ بہت خوبصورت لگتا ہے۔
ایک اور اہم بات جو آسٹریلیا میں نظر آئی وہ زندگی میں ایک ٹھیراؤ ہے
سنجیدہ اور ایماندار قوم ہے۔ منظم ہے امریکہ کی زندگی جیسا تناؤ یا دباؤ
محسوس نہیں ہوتا۔ گھریلو زندگی اور کام میں ایک مناسب توازن ہے۔ لوگ بلاوجہ
مصروفیت اور بھاگ دوڑ کا جھوٹا تاثر نہیں دیتے وقت پر دفتر جاتے اور وقت پر
واپس آتے ہیں۔ کھیلوں تفریح اور خاندان کو وقت دینا ان کی زندگی کا لازمی
جزو ہیں۔ پانچ چھ بجے عموماً شاپنگ مال بھی بند ہوجاتے ہیں۔ بڑے بڑے سرسبز
میدان میں جہاں مختلف کھیل کھیلتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں کرکٹ ان کا بھی
پسندیدہ کھیل ہے اور اکثر لوگ پاکستانیوں کو کرکٹ کا اچھا کھلاڑی سمجھتے
ہیں۔ ہفتہ کی شب ایک پاکستانی خاندان نے دعوت رکھی ہوئی تھی لہٰذا طارق کے
خاندان کے ساتھ میں بھی مدعو تھی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ پاکستان سے
طارق کی بہن آئی ہوئی ہیں۔
اتوار کی صبح آٹھ دسمبر کو طارق اور صالحہ نے مجھے Wollongong اپنی گاڑی سے
چھوڑ دیا یہ سڈنی سے دو گھنٹے کا فاصلہ ہے جہاں امین کی یونیورسٹی ہے بالکل
اتنا ہی جیسے کراچی سے حیدرآباد یا جامشورو سندھ یونیورسٹی۔ لیکن ہمارا
راستہ ریگستانی اور خونخوار ہے خونخوار اس لیے کہ بدترین ٹریفک حادثات
ہمیشہ اس راستے پر ہوتے رہتے ہیں اور بے شمار قیمتی جانیں آئے دن ضائع ہوتی
رہتی ہیں۔ Wollongongکے اسٹیشن پر امین کو جو اس کے گھر سے دس منٹ پیدل کا
راستہ ہے، بلایا تھا۔ کیونکہ طارق گھر سے ریسرچ کے کے چلے تھے قریب کہیں
ایک مندر دیکھنے والا ہے اور یہاں سے نزدیک ایک کیامہ بیچ (Kiama Beach)
مشہور ہے۔ یہاں ہر ساحل کی کوئی نہ کوئی منفرد بات ہے۔ کسی کے اطراف پہاڑ
خوبصورت ہیں کہیں پانیوں کے رنگ بہت خوبصورت ہیں۔ کیامہ میں بلو ہول (Blow
Hole) مشہور ہے جو کہ چٹان میں ایک سوراخ ہے جب سمندر کی موجیں تیزی کے
ساتھ ساحل کی طرف آتی ہیں تو پانی اس سوراخ میں سے دباؤ کے ساتھ شور کرتا
ہوا فوارے کی شکل میں نکلتا ہے جو بڑا ہی دلفریب لگتا ہے۔ لوگ کیمرہ لے کر
انتظار کرتے کہ وہ اس لمحے کو کیمرے میں محفوظ کرسکیں جتنا پانی کا دباؤ
ہوتا ہے فوارہ بھی اتنا ہی بلند اور شور بھی خوفناک۔ کچھ بچے دیکھ کر ڈر
جاتے ہین اور کچھ محظوظ ہوکر ہنس پڑتے ہیں۔ بہرحال ہم چاروں نے بھی نظاروں
کا لطف لیا اور وہیں بیٹھ کر دوپہر کا کھانا (جو صالحہ گھر سے لے کر چلی
تھیں) کھایا کچھ تصویریں کھینچیں اور واپسی میں امین کے گھر آئے جہاں مل کر
ہم نے چائے پی۔ طارق صالحہ نے تھوڑا آرام کیا امین نے میرے لیے پچھلی گلی
میں ایک اور گھر میں ایک کمرے کا انتظام کیا ہوا تھا میری تاکید پر کیونکہ
امین کا کمرہ اوپر تھا اور غسلخانہ نیچے۔ میرے لیے یہ آرام دہ نہیں تھا۔
الحمد ﷲ خوش قسمتی سے میرا انتظام بالکل میری طبیعت کے مطابق آرام دہ ہوا۔
امین بھی زیادہ وقت میرے ہی ساتھ رہتے اور کھاتے پیتے تھے تین بیڈ روم کا
فرنشڈ گھر تھا جس میں ہر چیز ضرورت کی موجود تھی۔ صرف کھانے پینے کا سامان
ہم اپنی مرضی سے لاکر پکا لیتے تھے۔ میں نے امین کے لیے بھی آٹھ دس دن کا
کھانا پکا کر ڈبوں میں تقسیم کرکے دے دیا تاکہ آرام سے ایک ایک ڈبہ کھول کر
گرم کرکے ایک وقت میں کھاتے جس پر وہ بہت خوش ہوئے خاص طور سے گاجر کا حلوہ
اور کڑھائی بہت شوق سے کھائی۔
Wollongongایک چھوٹا شہر پرسکون پر فضا لگا۔ موسم گو وہاں کی گرمیاں تھیں
لیکن کراچی کی سردیوں جیسا تھا کبھی کبھار دن میں بھی ہلکی سی شال کی ضرورت
پڑتی تھی۔ یونیورسٹی تک بسیں سرکار نے مفت چلائی ہوئی تھیں تاکہ طالب علموں
کو سہولت ہو۔ اسٹیشن کے قریب ہی وہ مفت بس سروس ہم نے بھی خوب استعمال کی
اسی میں شہر بھی گھوما وہاں کے شاپنگ مال پر خرید و فروخت بھی Farmers
marketبھی جہاں پھل سبزیاں نسبتاً سستی ملتی ہیں۔ ویسے آسٹریلیا ہے کافی
مہنگی جگہ۔ وہیں کی کمائی میں وہاں گزارہ ہوسکتا ہے کھانا پینا ہر چیز مجھے
اور دنیا کے مقابلے میں مہنگی لگی۔ ہمارا پیمانہ امریکہ ہے دیکھا جائے تو
امریکہ دوسری جگہوں یورپ سنگاپور کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔
میری دلچسپی ہمیشہ کیمپس لائف میں رہی ہے مجھے اپنائیت کا احساس ہمیشہ
یونیورسٹی اور لائبریری کے ماحول میں ہوتا ہے چنانچہ امین نے مجھے خود
مختار کرنے کے لیے اسٹیشن سے بس کہاں سے لینا ہے کہان اترنا ہے وہاں سے
لائبریری تک کس طرف سے جانا ہے دوسرے دن ہی سکھادیا تھا۔ وہ پڑھائی سے فارغ
ہوچکے تھے۔ اگلے ہفتے ان کا جلسہ تقسیم اسناد تھا لہٰذا وہ دیر سے اٹھتے
تھے میں صبح کی اٹھنے والی اپنا وقت لائبریری میں وہ بھی اتنی اچھی
یونیورسٹی کی لائبریری میں کیسے نہ گزارتی۔ امین نے اپنا پاسورڈ بھی دے دیا
تاکہ میں ان کے Info.Commonsمیں بیٹھ کر Internet وغیرہ بھی آرام سے
استعمال کرلوں جو میں نے کیا خاص طور سے youtube resourcesکا جو پاکستان
میں اب تک بند ہے استعمال کی۔
Wollongongلائبریری کی رپورٹ ۱۹۹۰ء میں اور سنگاپور یونیورسٹی کی ابھی تک
میرے پاس ہیں ہم نے منگوائی تھیں۔ معلومات کرنے کے لیے جب ہم آغا خان میں
اپنی لائبریری میں automationکرنے جارہے تھے کہ یہ لوگ future visionکس طرح
دیکھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو آنے والی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا کس طرح
پروگرام بنا رہے ہیں۔ اس لائبریری میں مجھے سیمنٹ کی دیواریں کم اور پائپ
اور شیشے کا استعمال زیادہ نظر آریا ایسا لگتا ہے جیسے اس تین منزلہ عمارت
کو dismantleکرکے کسی اور جگہ بھی assembleکیا جاسکتا ہے لیکن اندر تمام
سہولیات سے مزین جس کی ضرورت کسی بھی بہترین جدید لائبریری میں ہوسکتی ہے۔
کتابوں کا بڑا خوبصورت ذخیرہ میں نے لائبریری سائنس اور سوشل سائنسز سیکشن
میں زیادہ وقت گزارا اس میں ۱۹۴۰ء سے لے کر جدید ترین کتابیں موجود تھیں۔
لوگ کمپیوٹرز کے علاوہ کتابیں بھی استعمال کرتے نظر آئے۔ رضاکار انھیں
ٹرالیوں میں لے کر الماریوں میں لگاتے بھی نظر آتے تھے۔ عملہ بہت ہی چاق و
چوبند اور مددگار ذرا سے اشارے پر ہر قسم کی مدد کے لیے کمر بستہ۔ وقتاً
فوقتاً میں نے ان سے مدد بھی لی اور وہ بھانپ بھی گئے کہ خاتون لائبریری
سائنس سے آشنا ہیں چنانچہ مطمئن کرنے کے لیے انھوں نے پیشہ ور عملہ کی طرف
رہنمائی بھی کی۔ میں نے لائبریری سائنس کی جدید کتابیں نوٹ بھی کیں تاکہ
انھیں AKUمیں منگوانے کے لیے دے سکوں کیونکہ زیادہ تر لوگ امتحان سے فارغ
ہوچکے تھے اور چھٹیاں تھیں تو لائبریری میں اور work stationsپر آرام سے
جگہ مل جاتی تھی ورنہ بقول امین booking مخصوص کروانی پڑتی ہے اور دو گھنٹے
سے زیادہ کمپیوٹر پر ایک وقت میں امتحانوں کے زمانے میں بیٹھنے کو نہیں
ملتا۔ لائبریری کے فوراً باہر کیفے ٹیریا اور کافی شاپ بھی ہے۔ تھک جاؤ تو
نکل کر تازہ دم ہوجاؤ۔ بڑے بڑے گھنے درختوں کے نیچے بڑے بڑے تخت جیسے لگائے
ہوئے ہیں جس میں ایک وقت میں چالیس پچاس لوگ بیٹھ اور لیٹ سکتے ہیں۔ چھوٹے
چھوٹے پانی کے قطعے جس میں بطخیں تیرتی ہوئی قدرتی مناظر کا دلکش منظر جگہ
جگہ پیش کرتیں جو کچھ کچھ LUMSاور آغا خان اور PU میں ہے (مگر کراچی
یونیورسٹی بڑی ہونے کے باوجود توجہ مانگتی ہے کیونکہ میں نے وہاں پڑھا ہے
تو اس کے لیے محسوس کرتی ہوں)۔
غرض میرا ایک ہفتہ یونیورسٹی اور لائبریری کے سبب بہت اچھا اور جلد گزر گیا۔
پھر امین کی graduation 16دسمبر بروز پیر صبح ۹ بجے تھی طارق کو اس دن
Relabمیں جانا تھا لہٰذا صالحہ اور بلال ان کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ شرکت کی
(مجھے آرام سے واپس بھی لے جانا تھا)۔ ایک پُر وقار اور منظم تقریب ہوئی
اور پھر بہت اچھے refreshmentsچائے، کافی اور دوسرے مشروبات کے ساتھ مختلف
ور انڈوں میں سجے ہوئے تھے اور مستقل دوبارہ لالاکر چیزیں snackپھل وغیرہ
ڈالے جارہے تھے۔ خوب اچھی طرح سے ناشتہ کرکے ہم لوگ گیارہ بارہ کے درمیان
امین کو خدا حافظ کہہ کر واپس سڈنی کے لیے روانہ ہوئے وہ اپنے دوستوں میں
ویسے بھی مصروف تھے رات تک ان کے مختلف پروگرام چلتے رہے۔ ہم لوگ دو گھنٹے
میں سڈنی گھر پہنچ گئے اور اب پروگرام کا اگلا نصف طارق کے ساتھ پھر شروع
ہوا جو انھوں نے شوق سے بنایا ہوتا تھا۔ اسی رات وہ سب کسی دور ایک پرانے
علاقے میں ایک لبنانی ریسٹوریٹ میں عرب کھانا کھلانے لے گئے جو واقعی بہت
لذیز تھا۔ امین کی گریجویشن کی خوشی میں مجھے بھی جانے سے پہلے ان سب کی
کسی اچھی جگہ دعوت کا پروگرام تھا جو امین کے ساتھ ہی عمل میں آیا جب وہ
ہفتہ کے آخر میں میری پاکستان واپسی سے قبل میرے ساتھ وقت گزارنے آئے۔ جمعہ
سے اتوار تک روازانہ ہی طارق کسی نئے ساحل یا مقام پر لے جاتے۔ اس میں
ڈارلنگ ہاربر میں ڈھائی گھنٹے کا cruise ہے یہ پانی کے جہاز سمندر میں
تیرتے ہوئے ریسٹورینٹس ہیں جس میں سمندر کی سیر اور نظاروں کے ساتھ ساتھ
کوئی ایک کھانا دوپیر یا شام کا شامل ہوتا ہے۔ ایک سے ایک حسین نظارے کے
ساتھ قدرت کی شان نظر آتی ہے اور بے اختیار سبحان اﷲ نکلتا ہے۔ حضرتِ انسان
کی کاوش جو اﷲ تعالیٰ کو مطلوب ہے ذہنِ انسانی کی صلاحیتوں کو استعمال کرتے
ہوئے وہ بھی نظر آتی ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد میسر ہوتی ہے۔
کھیلوں کے لیے تو آسٹریلیا مشہور ہے کرکٹ کی ٹیم کا شمار تین دنیا کی بری
مستحکم ٹیموں میں ہوتا ہے گو اس سال سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکا ورلڈ کپ
میں سری لنکا کی جیت ہوئی۔ بھارت کے خلاف Manly groundمیں اپنے بھتیجے بلال
کی پریکٹس دیکھی وہ بہت اچھی پروفیشنل کرکٹ کھیلتا ہے۔ پھر Manly Beachاور
اس کا رہائشی علاقہ دیکھا۔ واپسی میں راستے میں Phuk Thaiریسٹورینٹ میں
امین کی طرف سے ڈنر طارق کی فیملی کو دیا بیشمار تھائی ریسٹورینٹ یہاں قدم
قدم پر ہیں جو بر سا برس سے یہاں آباد ہیں۔
طارق کے گھر سے قریب ترین ہارن بیاسٹیشن اور Mallاور لائبریری ہیں وہ بھی
دیکھنے نکلی لیکن اتوار کا دن تھا اور لائبریری تین بجے کے بعد کھلتی تھی
لہٰذا انتظار کا وقت نہیں تھا۔ شام کو PALM Beachنکل گئے اس کے علاوہ
Sydney Church اور Bahai Centreبھی گئے۔ کرسمس کی وجہ سے گھروں اور بڑی بڑی
عمارتوں میں لوگوں نے سجاوٹ اور چراغاں کیا ہوا تھا۔ مختلف نمائشیں بھی ہو
رہی تھیں اور رعائتی قیمت پر فروخت جاری تھی۔
Sydney Olympic Parkسال ۲۰۰۰ء میں اولمپک کھیلوں کے لیے کئی سال میں تعمیر
ہوا تھا دنیا بھر سے اس وقت کھلاڑی اور تماشائی لاکھوں کی تعداد میں یہاں
جمع ہوئے تھے جن کے لیے اسی کے مطابق یہ سہولت تیار کی گئی۔ تیراکی کے لیے
Aguatic Centre بے حد شاندار اور بڑا ہے اسی طرح دوسرے کھیلوں کے لیے
سہولتیں عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ اسی حساب سے کھانے کی جگہیں بسوں کے اڈے
پارکنگ کی سہولتیں۔ غسلخانے اور پانی کے فوارے تھوڑی تھوڑی دور پر بیٹھنے
کے لیے بینچ اور تخت بہت ہی خوبصورت انداز میں پر فضا مقام پر ہیں۔ ہم نے
بھی خوب چہل قدمی کی لڑکوں نے کرکٹ کھیلی جھولے اور بچوں کے لیے مختلف
اچھلنے کودنے کی چیزیں جن سے بڑے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ |