مولانا ہزاروی کے جنات، اور ایوب خان کے فرشتہ ہونے کا ذکر

انور سعید صدیقی کی کتاب پورا ماجرا میں مولانا ہزاروی کے جنات، اور ایوب خان کے فرشتہ ہونے کا ذکر

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے احمد سعید اور انور سعید دونوں ہمارے سنئیر رہے ہیں۔احمد سعید قریشی نے اخباری صحافت اور انور سعید صدیقی نے ریڈیائی صحافت میں نام پیدا کیا۔ دونوں صحافت کی دنیا کے درخشندہ ستارے، دونوں اپنے اپنے شعبے میں نامور، دونوں اسلام، پاکستان، تحریک اسلامی سے وابستہ۔ ہمارا دونوں سے تعارف طالب علمی کے دور میں ہوا۔ دونوں نے ہمیں ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت دی۔ میں نے دونوں کے سایہ شفقت میں کام کیا، احمد سعید قریشی جسارت سے وابستہ ہوئے، اور جسارت ہی پر نثار ہوگئے۔ اﷲ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ انورسعید صدیقی نے اخبارات سے صحافت کی ابتدا کی، مشرق ، روزنامہ جنگ، روزنامہ جسارت، روزنامہ آغاز، روزنامہ انجام اور روزنامہ حریت سے ریڈیو پہنچے اور پھر کنٹرولر نیوز سے رٹائر ہوئے۔ انھوں نے درس و تدریس بھی کی جناح یونیورسٹی میں صحافت پڑھائی۔ ستقبل کے صحافیوں کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سکھانے کے لئے ایک انگریزی کی کتاب نیوز آن ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن بھی لکھی۔ حکیم محمد سعید شہید نے ان سے بچوں کی کہانیاں بھی لکھوائی ، جو قراقرم کی وادی اور گلاب ڈھیری کا نیلم کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہ کتابیں ہم نے کراچی کے کتب میلے میں ہمدرد کے اسٹال سے خریدی، کیونکہ کوئی اور تو ان پرانے ایڈیشن کا خریدار نہ تھا۔، انور سعید صدیقی ہی اپنے خاندان کے بچوں کو تحفے میں دینے کے لئے اپنی کتابیں خرید لیتے ہیں۔ انور سعید صدیقی بنیادی طور پر رپورٹر ہیں، وہ کہیں بھی ہوں، خبر کے بنیادی جز کب کہاں کیوں کیسے کے کھوج میں رہتے ہیں۔ ان کی یہ عادت اب اتنی پختہ ہوگئی ہے کہ روز مرہ کی باتوں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان کے ساتھ گفتگو شروع ہو تو ایک کے ایک بعدقصہ ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے، یوں بھی ریڈیو کے لئے خبر نگاری کرتے ہوئے، انھیں نہ صرف ارباب اقتدار کے ساتھ مختلیف ملکوں کے دورے کا موقع ملا، بلکہ حکمرانوں اور صحافیوں کو بھی بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو۔ آج کل کی صحافت، زبان، تحریر، سرخیاں، ٹیکر اور سب کچھ یہ دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں کڑھتے بھی ہیں۔ جہاں تک یہ اداروں میں رہے اصلاح کی کوشش بھی کی، لیکن جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو۔ وہاں کہاں تک اصلاح کی جاسکتی ہے۔ اﷲ تعالی کی جانب سے ان پر خصوصی انعام واکرام کی بارش بھی ہے، اس سال وہ حج کی سعادت کے لئے جارہے ہیں۔ لیکن سابق صدر مشرف کے دورے سعودی عرب کے دوران خانہ کعبہ میں ان کی حاضری انعام الہی ہے۔ حرم میں بڑے بڑے وزراء حکام اور اہلکار کھڑے تھے، خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا، اور سعودی اہلکار نے انھیں دور سے بلا کر انھیں اس باب سے خانہ کعبہ کے اندر داخل کردیا، جہاں سربراہاں کے علاوہ صرف چند نفوس تھے۔ ان میں انور سعید صدیقی بھی شامل تھے۔سربراہاں کے ساتھ دوروں کی ایسی بہت سے کہانیاں ان کی زنبیل میں موجود ہیں ان کا صحافتی سفر روزنامہ مشرق سے شروع ہوا، جو اپنے زمانہ کا کثیراشاعت اور چمک دھمک والا اخبار تھا۔ مختلف اخبارات، ٹیلی ویڑن چینل اور ریڈیو میں انہوں نے صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں ہیں ان میں احساس ذمہ داری بہت زیادہ رہا ہے۔ ان کے دور میں ریڈیو کی خبر میں کوئی غلطی چلی جائے اور انور سعید صدیقی صاحب کا فون نہ آئے یہ ممکن نہیں تھا ۔

بہ طور کنٹرولر نیوز ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور سعید صدیقی نے اخبارات میں کالم نویسی شروع کی اور یہ کتاب انہی کالموں اور چند مطبوعہ مضامین پر مشتمل ہے۔ حالاتِ حاضرہ اور مختلف مسائل کی نشان دہی کرتے یہ کالمز مصنف کی زندگی کے مختلف ادوار کے تجربات اور گہرے مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ پاکستان میں برائی اور لاقانوینت کس قدر منظم ہوگئی ہے، اس کا اشارہ انھوں نے 2010 کے کالم میں خطرناک رجحان میں کیا ہے، جس میں کسٹم حکام کی جانب سے کسٹم کے بین الاقوامی دن کے موقع پر منشیات اور شراب کو ضائع کرنے کی تقریب پر تین سو افراد کا منظم حملہ اور منشیات کو لے جانے کا واقعہ شامل ہے، منشیات سے بڑھ کر اب ڈاکوں اور قاتلوں کے منظم گروہ بن گئے ہیں، جو گروہ کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کالموں سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مولانا ہزاروی کے پاس جنات آتے تھے، ان میں بارہ سو سال پرانے جنات بھی شامل تھے۔ ان کا وہ کالم بھی مزیدار ہے، جو ایوب خان فرشتہ ہوگئے کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ان کے مضامین تاریخ کو سمجھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔کتاب میں شام مضامین پرانے ہیں لیکن ان کو پڑھ کو اندازہ ہوتا ہے کچھ بھی نہیں بدلا، سب کچھ اسی طرح جاری ہے۔ اپنے اس تجربے اور مشاہدے کے ساتھ انور سعید اب پھر میدانِ صحافت میں اپنے وجود کا احساس دلانے اترے توہیں۔لیکن وہ ابھی ساحل پر ہیں۔ اب انھیں ساحل سے نظارہ کرنے کے بجائے اس دریا میں اترنا چاہیئے۔بقول مقصود یوسفی ’’ایک مخصوص مدت پر ریٹائرمنٹ کی رسمی کارروائی تک صحافی کے مشاہدات اور تجربات اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان سے استفادہ نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ انور سعید لکھنے کے ساتھ ساتھ کالم بول بھی سکتے ہیں۔ ریڈیو تو پھر ان ہی کا میدان ہے۔ اب تو ان کے پاس لکھنے کا وقت بھی ہے اور عملی زندگی کے بھرپور تجربات اور مشاہدات بھی، ان کے کالم سرسری اور عام معلومات پر نہیں بلکہ ریسرچ اور تصدیق اور تحقیق کے مراحل سے گذر کر تحریری صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے مضامین اور کالموں میں نہ صرف معلومات ہیں بلکہ بہت سے سوالوں کے جوابات بھی ملتے ہیں۔‘‘

(انور سعید صدیقی کی کتاب پورا ماجرا کی جمعیت الفلاح میں تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون )
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386684 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More