انقلاب .راہداری ..گوادر اور انڈیا
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
جب میں انقلاب کی بات کرتا ہوں
یا کوئی اور انقلاب کی بات کرتا ہے .تو حکمران کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
.حالانکہ جن لوگوں نے میری ویب سایٹ کو سٹڈی کیا ہے .وہ جانتے ہیں کہ میں
نے کتنی تفصیل سے انقلاب پر روشنی ڈالی ہے .انقلاب کیا ہے .انقلاب کس جانور
کا نام ہے .انقلاب کتنی قسم کے ہوتے ہیں .زیادہ تر لوگ خونی انقلاب سے ڈرتے
ہیں .مگر میرے ملک میں تو خونی انقلاب سے زیادہ خون اب تک بھایا جا چکا ہے
.مگر پھر کہتا ہوں کہ اگر آپ کے رویے.آپ کی سوچ .آپ کی اہلیت .آپ کی حب ال
وطنی.آپ کی ایمانداری .ملک سے وفاداری .دلیرانہ .جرات والے فیصلوں کی وجہ
سے انقلاب آ سکتا ہے .تو پھر خون بہانے کا کیا فایدہ ..اسی لئے میں اپنی
مشھور نظم کا سہارا لیتا ہوں اور حکمران سے کہتا ہوں ..لانا ہے انقلاب تو
خون بہانہ کوئی ضروری ہے ..بدلنا ہے نظام تو پھر بہانے بنانا کوئی ضروری ہے
..حالانکہ دنیا میں مثالیں موجود ہیں کہ انقلاب کے بعد کچھ ملکوں میں حالات
بہتر ہووے .تاریخ گواہ ہے .فرانس کی طرح..اور دوسری طرف کوریا کی مثال آپ
کے سامنے ہے .کہ وہاں بغیر خونی انقلاب کے انقلابی اقدامات کی وجہ سے ایسا
انقلاب آیا کہ وہ کہاں سے کہاں پنچ چکا ہے .ایک بات عرض کرتا چلوں کہ سبز
انقلاب ہو یا خونی ..دونوں حکمرانوں کی سوچ .مدبرانہ پالیسی کی وجہ سے آتے
ہیں .یہ حکمرانوں پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ وہ ملک کو کس طرف دھکیلنا چاہتے ہیں
.مثال کے طور پر ١٩٧٠ کے انتخابات کے بعد اگر غلط فیصلے نہ کئے جاتے .تو
انڈیا اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوتا اور بدنام زمانہ اجنسی را کو
منہ کی کھانی پڑتی اور بنگلہ دیش نہ بنتا ..اور دوسری طرف اگر کالاباغ ڈیم
کو متنازعہ نہ بنایا جاتا تو ملک میں کب کا سبز انقلاب آ چکا ہوتا .اب اگر
گوادر پر کام ہو رہا ہے اور راہداری پر جس طرح میاں نواز شریف نے اقدامات
اٹھاے ہیں .یا جس طرح اٹھاۓ جا رہے ہیں .اگر سہی معنوں میں یہ راہداری کا
منصوبہ متنازعہ بناۓ بغیر .کرپشن سے پاک بنا لیا جاتا ہے .تو پھر پاکستان
کو دوبئی اور ہانگ کانگ .اور سنگاپور سے بڑا ملک بننے سے کوئی نہیں روک
سکتا .گوادر فری پورٹ اور یہ راہداری ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور یہ ہے
انقلاب جو پاکستان میں بیروزگاری بھی ختم کر سکتا ہے اور دہشت گردی بھی .مگر
ہمارا دشمن یہ کبھی بھی نہیں چاہے گا .یہ نقطۂ ہے میرے حکمران کو سوچنے کا
.کہ بھارت اس وقت تک اپنی پاکستان دشمنی ختم نہیں کرے گا .جب تک اس کو نکیل
نہ دہلی جاۓ گی .انڈیا کے ساتھ اس کی زبان میں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرنا ہو گی .تجارت کرنے سے انڈیا رام نہیں ہو گا .انڈیا کے ساتھ
تعلقات کو از سرے نو جائزہ لینا ہو گا .انڈیا کو تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دینا
ہو گا .ورنہ یہ جن قابو میں نہیں آنے والا .اس گوادر اور راہداری کی وجہ سے
انڈیا کے پیٹ میں جو درد ہے اسے ختم کرنا ہو گا .کیونکہ لاتوں کے بھوت اب
باتوں سے ٹھیک نہیں ہوں گے .مگر میں قبل از وقت اس راہداری منصوبے پر بغلیں
بھی نہیں بجا سکتا اور نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا چاہتا ہوں اور نہ
حکمرانوں کی نیت پر شک کرنا چاہتا ہوں ..دلی دور است ..کیونکہ میں بھی ٦٥
سال سے اس ملک میں بے پناہ منصوبے کاغذوں میں بنتے دیکھ چکا ہوں .تختیاں
لگتے دیکھ چکا ہوں .افتتاح ہی افتتاح ہوتے دیکھ چکا ہوں .بیوروکریسی کی
پھرتیاں .چالبازیاں .اور سیاستدانوں کی مکاریاں دیکھ چکا ہوں .مگر اب عمل
ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں .افتتاح تو نندی پور .تھر کے کوئلے کا .چنیوٹ کا .چاندی
کا .سونے کے زخائر کا.ایران گیس پائپ لاین .پیٹرول اور دوسری معدنیات کا
دیکھ چکا ہوں .جو بھی کام حکمران کرے .اگر وہ کاغذی نہ ہو عملی ہو تو اچھا
ہے .ہم سب کو کریڈٹ دینا چاہئے .حکمرانوں کی ٹانگیں کھیچنا کوئی اچھی بات
نہیں .مگر کچھ ہوتا نظر بھی تو آے.اللہ کرے ملک میں انقلاب آے انقلابی
اقدامات سے .اللہ کرے کالاباغ ڈیم بھی بن جاۓ اور گوجرانوالہ کا عزیز کراس
بھی بن جاۓ..گوادر اور راہداری منصوبہ ایک بہترین سوچ ہے ..یہ منصوبہ ملک
کی ترقی کا ایک روشن پہلو ہے .پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے .مگر
انڈیا یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہونے دے گا .اس کے لئے منصوبہ بندی
کرنا ہو گی .میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے حکمرانوں کو جرات دے توفیق دے
کہ وہ ملک کے لئے ایسے منصوبے پایا تکمیل تک پنچا سکیں ..آمین .. |
|