پاکستان کے باسی کسی بار پر متفق
ہوں یا نہ ہوں اس بات پر عوام، حکمراں اور جمہوریت کی بانسری بجانے والے
بھی اکثر متفق نظر آتے ہیں کہ کچھ بھی ہو، کوئی سا بھی بحران آئے فوراً فوج
کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا جائے، اور اس دفعہ تو حیرت بھی ہوئی اور
تعجب کے ساتھ ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بھی آئی کہ واٹر بورڈ کا نظام فوج کے
حوالے کرنے کی تجاویز دی جارہی ہیں۔ نہ صرف تجاویز دی جا رہی ہیں بل کہ عمل
کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ واہ رے حکم راں، کوئی شعبہ تو ہو جس میں ان
کی کارکردگی نظر آئے۔
واٹربورڈ کے تذکرے پر ایک انوکھے خیال سے میرا ذہن روشن ہوگیا۔ سائنس داں
عرصۂ دراز سے چاند پر آبادی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور مسلسل اس کی کوشش
جاری ہے۔ نہ جانے یہ کوشش کام یاب کیوں نہیں ہورہی، حالاں کہ یہ کوئی اتنا
بڑا کام بھی نہیں کہ جس پر اربوں ڈالر صرف کردیے جائیں اورمنصوبہ بندی کی
جائے۔ ناسا والوں کو چھوٹا سا معصوم سا مشورہ ہے کہ وہ کراچی والوں کو چاند
پر بسادیں۔ وہ بچارے بنا کسی حجت کے چاند پر خوشی خوشی رہنے کے تیار
ہوجائیں گے۔ وجہ سمجھنا نہایت آسان ہے۔ شہر قائد کے باسیوں کے پاس نہ بجلی
ہے، نہ گیس اور نہ ہی پانی، لہٰذا ان کا چاند پر بہ آسانی گزارہ ہوجائے گا۔
انھیں چاند پر رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہاں کوئی اندھی گولی کبھی
کہیں سے آنے کا خطرہ نہ ہوگا۔ لا اینڈ آرڈر کے مسائل بھی حل ہوئے۔ یہاں
ادارے ہیں تو کام نہیں ہوتا وہاں تو ادارہ بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی
کہ بلا ضرورت قومی خزانے میں سے عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے تنخواہیں دینی
پڑیں۔ رہا مسئلہ ہوا کا !تو چاند پر بھی چائنا زندہ باد، بیٹریاں بھی بہت
اور پنکھے بھی بہت چلیں جی تیار ہیں کراچی والے․․․․
کراچی کی ہر دیوار ایک کہانی سنا تی ہے۔ ایک دعوت ایک اشتہار ہمارا منتظر
ہوتا ہے، جیسے چلو چلو نشتر پارک چلو، چلو چلو ککری گراؤنڈ چلو، چلو چلو
جناح گراؤنڈ چلو، اور ناسا والے کراچی آکر صدا لگائیں گے چلو چلو چاند پر
چلو اور سارے کراچی والے متفق ہو کر چاند پر پہنچ جائے گے۔
اب تک تو امکان تھا کہ بجلی اور گیس کی قلت کا شکار، ٹرانسپورٹ کے مسائل سے
بے حال اور امن وامان کی صورت حال کے باعث ہر دم خدشات میں مبتلا چاند پر
بسنے کی پیشکش پر کچھ سوچیں، لیکن شہر میں پانی کے شدید بحران کے بعد ایسا
کوئی امکان نہیں رہا ہے۔
یہ صوبائی حکومت اور ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کی مجرمانہ غفلت اور
نااہلی ہے جس نے کراچی کو پانی کے سنگین بحران سے دوچار کردیا ہے۔ شہر کو
فراہمی آب کے ایک اہم ذریعے حب ڈیم کے بارشوں کی کمی کے باعث خشک ہونے کے
باعث شہر میں پانی کا بحران دو سال سے جاری ہے اور شہر میں پانی کی قلت اب
700 ملین گیلن یومیہ تک پہنچ چکی ہے۔2 کروڑ سے زاید آبادی کے شہر کو صرف
400 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ شہریوں کو اس تکلیف سے دوچار
نہ ہونا پڑتا اگر حکومت بروقت 4 منصوبے مکمل کرلیتی، جن میں دریائے سندھ
سے65 ملین گیلن پانی کی فراہمی اور ڈملوٹی کے کنوؤں کو فعال کرکے16ملین
گیلن پانی کی یومیہ فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دھابیجی پمپنگ
ہاؤس کے پمپوں کی مرمت اور فراہمی آب کی لائنوں میں رساؤ کی مرمت کرلی جاتی
تو مجموعی طور پر230 ملین گیلن سے زاید پانی کی فراہمی ممکن بناکر اس بحران
میں کچھ کمی لائی جاسکتی تھی۔ علاوہ ازیں زیرزمین لائنوں سے پانی کی چوری،
سرکاری ہائیڈرینٹس کی بدانتظامی پر قابو پانے اور والز آپریشن نظام کو بہتر
بناکر بھی کراچی کے مضافاتی علاقوں کو فراہمی آب میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
لیکن عوام کی مشکلات اور مسائل سے کسے غرض ہے، سو یہ سارے منصوبے دھرے کے
دھرے رہ گئے۔
کراچی جیسے شہر میں جہاں مختلف زبانیں بولنے والوں کی پوری پوری آبادیاں
ہیں، پانی کا بحران صرف شہریوں کے لیے ایک عذاب نہیں باہمی غلط فہمیوں اور
تنازعات کی پیدائش اور فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، جو ایک اور قیامت
ہوگی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے، جس کی صنعتوں کے لیے
پانی کی فراہمی ناگزیر ہے، اس لیے یہ بحران ہماری معیشت کو بھی متاثر کر
رہا ہے اور مزید متاثر کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سامنے کے حقائق حکم
رانوں کو کیوں نظر نہیں آتے؟ وہ ہر آتے بحران سے کیوں بے خبر رہتے ہیں؟
انھیں کیوں اندازہ نہیں ہوتا کہ ہر نوعیت کا بحران عوام کی مشکلات بڑھانے
کے ساتھ دیگر بہت سے مسائل بھی ساتھ لاتا ہے۔ حکم رانوں کو اس سب کا اندازہ
اور فکر تب ہو جب انھیں عوامی مسائل سے دل چسپی ہو۔ ان کے لیے تو حکم رانی
بس دعوے اور وعدے کرنے کا نام ہے۔
ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی نے صورت حال کے حوالے سے اپنے اندیشے کا اظہار
یوں کیا ہے کہ دنیا پیش گوئی کر رہی ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے
پر ہوگی، لیکن میں یہ پیش گوئی کر رہی ہوں کہ کراچی میں اب لسانی، فرقہ
وارانہ فسادات نہیں بل کہ پانی پر فسادات ہوں گے۔ اﷲ نہ کرے ایسا ہو، لیکن
پانی سے مسلسل محرومی لوگوں کو کس طرح اشتعال میں مبتلا کررہی ہے، اس سے
شہر کا ہر باسی واقف ہے، یہ صورت حال کیا رنگ لاسکتی ہے، اس کا اندازہ
لگانا بھی مشکل نہیں، لیکن حکم راں ایسا کوئی اندازہ لگانے کو تیار نہیں
کیوں کہ اس سب میں نقصان عام آدمی اور غریبوں کا ہونا ہے، حکم رانوں کا کیا
بگڑے گا، لیکن وہ تاریخ سے واقف نہیں، ورنہ جان لیتے کہ عوام کی مشکلات حد
سے بڑھ جائیں تو آخرکار اس کا نشانہ حکم راں طبقہ بنتا ہے۔ چناں چہ کچھ
نہیں تو حکم راں اپنے بارے میں سوچ کر ہی عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر
توجہ دیں۔ وہ شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکتے، بجلی نہیں دے سکتے، گیس نہیں دے
سکتے، روزگار نہیں دے سکتے، مگر پانی تو زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اگر یہ
بھی نہ دے پائے تو ان کے ہونے کے جواز پر پانی پھر جائے گا۔ |