مسلم وفد کی مودی سے ملاقات

کبھی ’خفیہ دورۂ اسرائیل‘ کی وجہ سے بدنامی کی حد تک مشہور ہونے والے کل ہند تنظیم ائمہ مساجدکے چیف’امام‘عمیراحمدالیاسی ایک بارپھرسرخیوں میں ہیں مگر اس وجہ سے نہیں کہ ایک بارپھرموصوف نے تل ابیب کیلئے رخت سفر باندھ لیایااس وجہ سے بھی نہیں کہ ہزاروں بے گناہ فلسطینی معصوم بچوں،مظلوم خواتین اور ستم رسیدہ بزرگوں کی شہادت کیلئے ذمہ سمجھے جانے والے اسرائیلی ارباب اقتدار سے مصافحہ و معانقہ کے ذریعہ ملت اسلامیہ ہند کے عمومی جذبات کو چوٹ پہنچائی یاپھر اس بناء پربھی نہیں کہ کسی فلسطینی عالم دین نے انہیں ’خائنین اسلام‘ کے خطاب سے نواز دیا۔ بلکہ اِس بار موصوف کے سرخیوں میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’بارگاہ ‘‘ میں باادب باملاحظہ حاضری لگانے والے اُن30لوگوں کی’امامت‘کی،جنہیں مسلم برادری کے بڑے یا بااثر لیڈروں کے طورپرپیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’امامت ‘ یا’ قیادت‘ کے اِن جھمیلوں میں ہمیں یوں بھی نہیں پڑناچاہئے کیونکہ ’امام ‘نے خوداِس ’امامت‘ کو’قیادت‘ کاجامہ پہنادیاہے۔ خیرجو بھی ہو’مسلم لیڈرشپ‘ کی کمان عمیراحمد الیاسی نے سنبھالی اور یوں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات ہی نہیں ہوئی بلکہ بعض خبروں کے مطابق زائد از ایک گھنٹہ خوش گپیاں بھی ہوئیں، ملت کے مسائل و معاملات پرخیالات کا تبادلہ بھی ہوا۔سناتویہ بھی گیاکہ چائے والے وزیر اعظم نے ’امام ‘کو خود سے چائے بھی پلائی ۔

البتہ یہ خبر کسی نے ابھی تک ’لیک‘ نہیں کی ہے کہ ’’مسلم وفد‘‘ یا ’’امام‘‘بالکل خالی خالی گئے تھے یا ان میں سے کسی نے وزیر اعظم کو شب برات کا حلوہ بھی کھلایا۔کچھ لوگ وزیر اعظم ہند سے ’مسلم وفد‘کی ملاقات کا ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کررہے ہیں توکچھ عمیر الیاسی کو خواہ مخواہ ’غیرت ایمانی‘ کا سبق پڑھانے پر آمادہ ہیں۔اس بحث و تمحیص کانچوڑ یہ ہے کہ عمیرالیاسی کی ’قیادت‘ مخالفین کو گوارا نہیں اوروہ ’’بے چارے‘‘ امام کی خواہ مخواہ ’پگڑیاں‘اچھال رہے ہیں جبکہ پگڑیاں اچھالنے والوں کوبھی یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ الیاسی پگڑی نہیں ، ٹوپی پہنتے ہیں ،وہ بھی اونچی دیوار والی!۔ اب اس اونچی دیوار والی ٹوپی کو دیوار چین بھی نہ سمجھاجائے کہ موصوف کی ٹوپی اتنی بھی بلندنہیں جسے سہ منزلہ،چہار منزلہ سمجھ لیا جائے یاپھراِسے’’ دیوار چین‘‘ یا ’’دیوار برلن‘‘قراردیاجانے لگے۔

خیر!جب یہ خبر عام ہوئی کہ ہندوستانی مسلمانوں کے ایک’ نمائندہ وفد‘ سے وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی اور اِس دوران وزیر اعظم نے یہ کہا کہ’’ نہ تو میں فرقہ وارانہ بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والی سیاست میں یقین کرتاہوں اور نہ ہی کبھی فرقہ وارانہ زبان میں بات کروں گا‘‘تومیڈیاکی زبانی کچھ لوگوں نے وزیر اعظم کی باتوں سے عدم اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراًہریانہ کی مثال پیش کر دی، جہاں ابھی ابھی’’ اکثریت اور اقلیت کی سیاست‘‘ کی کرشمہ سازیوں کے نتیجہ میں بہت سے مسلمانوں کے گھر جلا دئے گئے اور انجام کار انہیں تھانہ میں آکر ہفتہ بھرپناہ لیناپڑی۔پتہ نہیں25کروڑہندوستانی مسلمانوں کی ’ جذباتی قیادت‘کا ’فریضہ‘ انجام دینے والے ’امام‘کو یا 30 ارکان پر مشتمل اس وفد میں شامل کسی دوسرے رُکن کو وزیر اعظم کے ساتھ چائے نوشی کالطف اُٹھاتے ہوئے درمیان میں بلبھ گڑھ کے مسلمانوں کی یاد بھی آئی یا نہیں ، کیونکہ پی ایم او یا سرکاری میڈیا نے جوخبر شائع یا نشر کی اُس میں اس کا کہیں دور دور تک کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ممکن ہے کہ اٹالی گاؤں کے اجڑے مسلمانوں کی یاد اِن’’ عظیم ہستیوں ‘‘میں سے کسی نہ کسی کو آئی ہو لیکن کیا پتہ ساتھ ہی ساتھ اُن کے ذہنی اُفق کے’اسکرین ‘پرگجرات کے2002کے فسادات کی فلم اچانک چل پڑی ہو اور یہ خوف لاحق ہوگیا ہو کہ وزیر اعظم سے ’فساد‘پر کوئی بات ہوئی اور کہیں خدانہ خواستہ پھر کوئی’’کتے کا پلہ‘ درمیان میں آگیا توکیا ہوگا؟قیاس ہی کیا جاسکتا ہے،وثوق کے ساتھ تو کچھ نہیں کہاجا سکتا کہ کس کے دل میں کیا خیال آیااور کس مصلحت یاکس امید میں یہ ملاقات کرنے والے لوگ خاموش رہ گئے۔ ویسے ذرائع ابلاغ میں جو خبریں بعد از ملاقات گردش کرتی نظر آئیں اُنہیں پڑھتے ہوئے یہ اندازہ ضرور ہوا کہ گجرات فساد کے تناظر میں وزیر اعظم کی جو ’’مسلم دشمن‘‘ شبیہ بن گئی تھی یا بنا دی گئی تھی،اُس شبیہ کو’’ بگاڑنے‘‘ میں کامیابی ملنے کے امکانات ضرور پیدا ہو رہے تھے،مگر یہ بھی محض اتفاق نہیں بلکہ ’’شرارت‘‘ ہی ہے کہ مودی کی چائے پی کر لوٹنے والے ’’قائدین ‘‘ پر سے میڈیا کی نظر ہٹی بھی نہیں تھی کہ’’ گو’گل بابا‘‘ نے بد اخلاقی اور بد تمیزی کی ایسی انتہا کردی ،جس کی کوئی نظیر شایدڈھونڈنے سے نہ ملے۔’’گوگل بابا‘‘ کے سرچ انجن میں ٹاپ 10ہندوستانی مجرموں کی فہرست میں وزیر اعظم نریندرمودی کا نام مع تصویر نظر آگیا۔یہ گستاخی اگر کسی ہندوستانی نے کی ہوتی تو صرف اس کی نہیں بلکہ اُس کے خاندان کی بھی یقیناشامت آگئی ہوتی۔ ’’گستاخ‘‘چونکہ ’’گوگل‘‘ تھا،لہٰذاہندوستانی قوانین کے مجرمانہ دفعات کا فوراً سے پیشتر استعمال نہ کیاجاسکالیکن اچھی بات یہ رہی کہ جس طرح ہمارے وزیر اعظم ’’فرقہ پرستی ‘‘ کے تعلق سے اپنے’ بے لگام‘ قائدین کی ’’بد کلامی‘‘پر کئی بار اظہارِندامت کر چکے ہیں،گوگل بابا نے بھی اُسی انداز میں ’’سوری‘‘ کہہ کر ٹاپ 10مجرموں کی فہرست میں نریندر مودی کی شمولیت سے اٹھنے والے طوفان کی ہوا نکال دی۔مخالفین کیلئے پھربھی موقع اچھا ہاتھ آچکاتھااور اس موقع کا کچھ لوگوں نے فائدہ اُٹھایااور سوشل میڈیا میں یہ بحث چل پڑی۔چنانچہ پر ٹوئٹرویسے ہی بحث و مباحثہ کی’ جنگ‘ چھڑ گئی ،جس کی طرح کی جنگ بسا اوقات لائن آف کنٹرول پرلڑی نہیں بلکہ ’’کھیلی‘‘ جاتی ہے۔وزیر اعظم کے ایک بدخواہ نے اُن کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے یہ لکھ دیاکہ’’مجرموں کی ٹاپ10والی لسٹ میں نام آنے سے کہیں نیتا جی اپنے آپ کو عالمی سطح کا لیڈر نہ ماننے لگیں‘‘۔حمایت و مخالفت میں شروع ہوانے والا’ٹوئٹر وار‘‘اُس وقت دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوا جب نریندرمودی کی حمایت میں کانگریس کھڑی نظر آگئی۔پارٹی کی ایک خاتون ترجمان پرینکا چترویدی نے تبصرہ کیا’’مجھے وزیر اعظم سے ہزار گلے شکوے ہو سکتے ہیں لیکن اُن کا نام ٹاپ 10 کریمنل میں ہونا قطعی گوارا نہیں‘‘۔اچھی بات یہ رہی کہ خود اس ’’ جنگ ‘‘کے اکھاڑے میں وزیر اعظم نہیں کودے اور نہ ہی کانگریس کی خاتون ترجمان کی طرح مودی کی خاتون خانہ یعنی جسودا بین کہیں نظر نہیں آئیں۔غالباًوہ ٹوئٹر پرہیں بھی نہیں ورنہ غالب قیاس یہ تھا کہ’لاتعلق شوہر‘ کے دفاع میں نہ سہی،جمہوریہ ہند کے وزیر اعظم کے حق میں’’آہنی دیوار‘‘ضروربن جاتیں۔خیر بات ہورہی تھی وزیر اعظم کی ،جن سے’کچھ لوگوں‘کی ملاقات پر’کچھ لوگ‘سوالات کھڑا کررہے ہیں اور تلخ و تند تبصروں کے ذریعہ اس ’سعادت‘ سے اپنی محرومی کے نتیجہ میں ہونے والی خفت و شرمندگی کو چھپا بھی رہے ہیں۔جمہوری ملک میں مخالفت میں آوازیں اُٹھنی بھی چاہئیں کہ جمہوریت کا اصل حسن بھی یہی ہے مگر بات معقول اندازمیں کہی جانی چاہئے لیکن بڑی عجیب بات یہ بھی رہی کہ 2جنوری کو جن لوگوں کو وزیر اعظم ہند سے ملاقات کی ’’سعادت‘‘ حاصل ہوئی،مخالفین کے ذریعہ اُنہیں حقیر گردانا جانے لگا۔

کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ جو لوگ وزیر اعظم سے ’’ملی مسائل‘‘ کے تعلق سے ملے، انہیں کوئی نہیں جانتا ہے،جبھی تومودی کی ’’ثناخوانی‘‘کا الزام عائد ہوجانے کے خوف سے بے پروا’’ امام صاحب‘‘ کی سلگ گئی اور ایک ایک کر کے انہیں میڈیا میں یہ بھی بتانا پڑ گیا کہ ’’میری قیادت‘‘میں جن لوگوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی،اُن میں کئی ’’عظیم ترین‘‘ ہستیاں بھی شامل ہیں۔مثلاًان کی جانب سے قومی مجلس شوریٰ کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد، اسلامی کونسل آف انڈیا کے چیئر مین قاری محمد میاں مظہری، سابق صدر جمہوریہ ہندفخر الدین علی احمد کے فرزنداور عالمی شہرت یافتہ ماہر امراض قلب ڈاکٹر پرویز احمد ،ذاکر حسین کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسلم پرویز احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر قاضی عبیدالرحمان ،دلّی ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ اصغر علی خان اور امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد کے سلسلہ نبیرہ کے ایک فرد کا نام بھی لیا گیااور کئی ایسے ائمہ کرام کے اسمائے گرامی سامنے لائے گئے جو اتفاق سے’’شاہی امام ‘‘کے لاحقہ کے ساتھ وزیر اعظم کے شاہی دربارمیں نہ سہی‘’شاہانہ انداز ‘‘کے دربار میں حاضر ہوئے۔چائے کی چسکی لی۔خیرت پوچھی۔’’فضائل یوگ ‘‘پر بیان کی سماعت کی،شب برات کی اہمیت بتائی اور اس اہم موقع پر بھی موقع نکال کرتشریف آوری کا مدعا بتایا۔گویا’قائد‘ملاقات نے ایک طرح سے ملت کی غیر معمولی شخصیات کا غیر معمولی انداز میں پروفائل میڈیاکے سامنے رکھ دیاکہ کن کن لوگوں کی وزیر اعظم سے ملاقات کرائی گئی ہے۔یعنی اِسے یوں سمجھئے کہ ملاقات کا شرف انہیں حاصل ہوا جوواقعتا بازاری زبان میں’’ سڑک چھاپ‘‘ نہیں ہیں۔اس وضاحت کے سامنے آجانے کے بعدبہر حال یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کن کی باتوں کو باوزن سمجھاجائے،اور کن کی باتوں کو ہوا ہوائی؟اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن 30صاحبان کو شرف ملاقات حاصل ہوا اُن میں سے کئی کم از کم ایسے تھے،کل تک دوسروں کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبروں کو حسرت بھری نگاہوں سے پڑھا کرتے تھے،آج جب اُنہیں یہ ’’اکرام‘‘ حاصل ہوا تو وہ قائدین جل بھن کر غصہ میں کباب ہو رہے ہیں، جن کی وزیر اعظم سے ملاقاتوں کی لمبی تاریخیں رہی ہیں۔

یوں بھی زمانہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا۔جب وقت بدلتا ہے تو بعضوں کیلئے قسمت کی دیوی مہربان ہو جایا کرتی ہے۔امام صاحب خود بھی تو اِس کا نمونہ ہیں۔یاد ش بخیر!2007کے اگست ماہ کی 12تاریخ بروز اتوارکوایک’ خفیہ خبر‘ ہاتھ آئی کہ ملت اسلامیہ کاایک وفدنہایت رازدارانہ انداز میں اسرائیل کے دورہ پر روانہ ہونے والا ہے جس میں ہندوستان کی بعض ’’روشن خیال ہستیاں‘‘ شریک سفر ہوں گی۔چنانچہ 13 اگست بروزپیر جب یہ خبر روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے صفحۂ اول پر منظر عام پر آئی،جو اتفاق سے اِسی حقیرنے لکھی تھی، تو’’روشن خیال ہستیوں‘‘کو پسینہ آنے لگ گیا۔پھر کیا تھا،مجوزہ دورہ سے کئی لوگوں نے خود کوطوفانی اندازمیں علاحدہ کیا تو کئی صاحبان نے اپنی جگہ پر دوسروں کونامزدکردیا۔اسی تغیر و تبدل کے نتیجہ میں’امام‘سے ’قائد‘کے منصب پرابھی ابھی چھلانگ لگانے والے موصوف کے مرحوم والد بزرگوارنے(اﷲ انہیں غریق رحمت فرمائے) ’’فرزندِلائق‘‘ کو’’ قیادت‘‘ کی ذمہ داری سپرد کی اور کچھ دنوں کیلئے مرحوم نے اپنا ذاتی دورہ مؤخر کیا۔عمیر الیاسی نہ صرف یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے اسرائیل کے دورہ پر گئے بلکہ انہوں نے آسٹریلیا- اسرائیل جیوش افیئرکونسل کی میزبانی کا لطف بھی اُٹھایا۔یہ بھی اتفاق ہے کہ جب ہندوستانی وفدکے اراکین اسرائیل میں اُس وقت کے صدر شمعون پیرزودیگر چوٹی کے قائدین سے ملاقاتیں کررہے تھے،تب نئی دہلی میں ملی تنظیمیں آگ بگولہ تھیں۔اسرائیل میں ہندوستانی’’امام‘‘اور اُن کے ’’مقتدیوں‘‘کی ’’میزبانی‘‘ کے خلاف جس انداز میں دہلی کے جنتر منتر میں احتجاج درج کرایا گیا تھا،وہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی تھا کہ ’’عام مسلمان‘‘ ہند-اسرائیل تعلقات کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں۔غصہ کااظہار کرنے والی کئی مسلم تنظیمیں تو ایسی تھیں،جو’’ملت کے درد‘‘سے وزیر اعظم کو واقف کرانا کل تک اپنا اور اپنی تنظیموں کا محبوب مشغلہ سمجھا کرتی تھیں۔گردش ایام ہی کہہ لیجئے کہ آج ایسی تنظیمیں حاشیہ پر ہیں اور جنہیں کل تک ’’ملت فروش‘‘ کے’’ نازیبا‘‘ خطاب سے نوازا جاتا تھا،آج انہیں وزیر اعظم کے دربار عالی مقام میں عزت ہی نہیں مل رہی ہے بلکہ’’چائے والے وزیر اعظم‘‘خود سے انہیں چائے بھی پلارہے ہیں۔ یہ تو مخالفت کی بات ہوئی ،موافقت کا حال بھی جان ہی لیں۔ خبر یہ بھی آئی ہے کہ وزیراعظم اس بات سے خوش ہوگئے بلکہ خوشی سے جھوم اُٹھے کہ شب برات کے موقع کی مصروفیات کے باوجود مسلم رہنماؤں نے ان سے ملاقات کیلئے وقت نکالا۔ ’’مسلم لیڈروں‘‘ کے اس جذبہ کی جب وزیر اعظم کی زبانی تعریف سننے کو ملی توساتھ ساتھ یہ امید بھی پیدا ہوگئی کہ اِس بارہندوستانی مسلمانوں کی عید پھیکی نہیں رہے گی اور شاید ملک کے وزیر اعظم سال گزشتہ کی طرح عید کو بھول نہیں جائیں گے بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کو’’مبارکباد‘‘کی سوغات ضرور دیں گے۔اسی کو کہتے ہیں’’رنگ ‘‘کا بدل جانا۔خواجہ حیدر علی آتش نے بالکل درست کہاہے ؂
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

یوں تو میڈیا کی زبانی وزیر اعظم اوروفدکی ملاقات کے تعلق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں،اُنہیں پڑھنے کے بعد کوئی نالائق یا کج فہم ہی ہوگا جو یہ کہے گاکہ موصوف نے کچھ بھی غلط کہا ہے۔یوں بھی ’’اچھے دن‘‘ کا وعدہ کر کے اقتدار میں آنے والی سرکارباتیں تو بڑی اچھی اچھی کرتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ کرتی رہے گی لیکن اس بنیاد پرہم یوں بھی زیادہ توجہ دینا اور سرکار کی شان میں قصیدے پڑھنا مناسب نہیں سمجھتے کہ اولاًاس سے یہ خطر ہ لاحق ہو جائے گا کہ کہیں قوم مودی سرکار کو ’’باتونی سرکار‘‘ نہ قرار دے دے اور ثانیاًہمارا ایقان اِس پر بھی ہے کہ عمل کے ترازو پر تول کر ہی کسی سرکار کے تعلق سے کوئی رائے زنی کی جائے۔رہی بات امام صاحب اور اُن کے’’ مقتدیوں‘‘ کے حاسدین کی تو ان کیلئے شاد عظیم آبادی کا یہ شعر کافی ہے ؂
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
Shahid Ul Islam
About the Author: Shahid Ul Islam Read More Articles by Shahid Ul Islam: 8 Articles with 5948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.