پاکستان میں تولیدی صحت سے متعلق آگاہی میں غفلت کیوں ۔۔۔۔!!

اسلام وہ بہترین مذہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر مرحلہ میں انسان کو ہدایت اور رہنمائی دیتا نظر آتا ہے بچے جب بچپن سے نکل کر بڑے ہونے لگتے ہیں تو انہیں مختلف جسمانی تبدیلیوں کا احساس ہوتا ہے اور ساتھ ہی ان کی جذباتی کیفیات بھی بدلنا شروع ہوجاتی ہیں یہ ایک فطری عمل ہے جس کی وجہ انسان کے جسم میں ہارمونز کی بنیادی تبدیلیا ں ہیں جو بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود میں آجاتی ہے اب اس انتہائی نازک موقع پر بچہ ایک طرف اس جسمانی تبدیلی سے گزرتا ہے تو دوسری طرف اس کی جذباتی کیفیات میں تبدیلی آتی ہے ایسے موقع پر والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی وجود کے اندر آنے والی تبدیلیوں ان کی اپنی ضروریات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بھی بتائیں کہ ان تبدیلیوں کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کو کیسے گزارنا ہے اور اسلام نے لڑکی اور لڑکے میں جو تفریق بیان کردی ہے اسے کس طرح ملحوظ خاطر رکھنا ہے ۔اگرچہ پاکستان میں صرف انتیس 29فیصد لڑکیوں اور 41اکتالیس فیصد لڑکوں کو حفظان صحت سے متعلق صحیح معلومات حاصل ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت روئیے اور معمولات کی قابل بھروسہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے درست تشکیل نہیں ہو پاتی اور وہ اپنے علم کو فیصلہ سازی میں بدلنے کے لئے درکار ہنر مند ی اور اعتماد سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی اصل وجہ شعور کی کمی اور درست معلومات کا نہ ہوناہے جبکہ سماجی تنظیم آہنگ اس ضمن میں ٹی وی ،ریڈیو اور کمیونٹی تھیٹر جیسے ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال میں لاتے ہوئے متعلقہ موضوعات پر نوجوانوں کے لئے پیغامات پر توجہ مبذول کروارہی ہے اگرچہ ہمارا مذہب قرآن کے ذریعہ بلوغت کے معاملات زیربحث لاتا ہے تاکہ درست امور روا رکھے جاسکیں جبکہ کمسن افراد کی صحیح رہنمائی کے حوالہ سے جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مولانا راغب نعیمی نے قرار دیا ہے کہ مناسب رہنمائی کا دستیاب نہ ہونا بچوں کو غلط صحبت اختیار کرنے اور بری عادات اختیار کرنے کا باعث بن سکتا ہے اسلام جب بلوغت کے احکامات کو بیان کرتا ہے تو اس بات کی پابندی لگاتا ہے کہ بلوغت کے یہ مسائل بچوں کو لازمی طور پر سکھا دئیے جائیں چاہے سکھانے کی یہ ذمہ داری ان کے والدین اد ا کریں یااساتذہ تاکہ بچہ جب بڑا ہو تو کسی بھی قسم کی اخلاقی برائی میں مبتلا نہ ہو سکے حالانکہ معاشرے کا ایک وسیع حصہ اب بھی ان موضوعات کو زیر بحث لانا ممنوع خیال کرتا ہے جبکہ ملک کے دس کروڑ نوجوانوں کے ان مسائل پر کسی سنجیدہ کاوش کے نہ ہونے کا شکوہ اکثر نوجوان کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے باوجود بڑھتی عمر کے بچوں کے جذبا تی ،نفسیاتی اور صحت کے پہلوؤں پر توجہ دینا دشوار امر کیوں ہے۔اگرچہ آہنگ صحافیوں ،اساتذہ ،والدین تک اس سنجیدہ موضوع کو زیر بحث لارہا ہے تاکہ نوجوانوں کو ان معلومات کے لئے ازخود جستجو نہ کرنی پڑے جن کا حصول ان کی عمر کا فطری تقاضہ ہے کمسنی کی عمر میں اکثر وبیشتر نوجوانوں میں جذباتی اور جسمانی تبدیلیوں رونما ہو نا شروع ہو جاتی ہیں جو نوجوانوں کی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور باقی ماندہ عمر بھر کے لئے یہ خصوصیات اس کی زندگی کی عکاسی بن جاتی ہیں ۔آہنگ کے مطابق صحیح معلومات اور رہنمائی دستیاب نہ ہونے یا ان معلومات کو دوسروں تک پہنچانے میں ہچکچاہٹ ازخوز اخذ کی جانے والی یا ادھوری معلومات کا باعث بنتی ہے اور یہ امر بعض مغالطوں کا سبب بن سکتا ہے جو حقائق سے کوسوں دور اور بسا اوقات استحصال کا موجب ہوسکتے ہیں اور ہمارا مذہب ان حساس موضوعات پر اپنے بچوں سے گفتگو کرنے یا نہ ان کی صحیح رہنمائی سے منع نہیں کرتا ہیاور نہ ہی اسے سماجی طور پر پابند معاملہ نہیں سمجھنا چاہئے البتہ والدین کو اپنے بچوں سے اس موضوع پر گفتگولازمی کرنی چاہئے۔آہنگ زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم (لائف سکل بیسڈ ایجو کیشن ) کو عام کرنے کا عزم رکھتی ہے جسے وہ کراچی کے علاوہ سندھ کے بیشتر شہروں میں باہم پہنچا رہی ہے یہ آہنگ کا ایک اہم قدم ہے جس سے شہری و دیہی نوجوان مستفید ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی سندھ کے بیشتر سکولوں میں سندھی و اردودونوں ہی زبانوں میں اس تعلیم کو باقاعدہ پڑھایا بھی جارہا ہے۔آہنگ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معاشرہ مثبت تبدیلی کے لئے آمادہ ہے مگر تبدیلی اس وقت آئے گی جب غلط تصورات کو ان صحیح اسلامی اصولوں کی روشنی میں دور کیا جائے گا جو بڑھتی عمر کے جذباتی اور ساختی پہلوؤں ،رفقاء کے دباؤ ،پیدائش میں وقفے ،ایچ آئی وی ایڈزسے متعلق معلومات ،قربت اور رشتوں و صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق رہنمائی دیتی ہے جبکہ جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مولانا راغب حسین نعیمی کا کہنا ہے کہ درست رہنمائی کا فقدان بچوں کو بری صحبت اختیار کرنے اور بری عادات کا شکار ہونے کا باعث بن سکتا ہے ۔جبکہ بچوں کے حقوق کا بل تولیدی صحت دو ہزار بارہ عطیہ عنایت اللہ نے پیش کیا تھا جسے تحفظات لگا کر پا س نہیں کیا گیا تھا ۔اس بل کابنیادی مقصد نوجوانوں میں جنسی اور تولیدی صحت کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا تھا تاکہ نوجوان خوداعتمادی کے ساتھ بیماریوں سے پاک زندگی گزار سکیں جبکہ ایک موقع پر مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ جنسی تولیدی صحت کے موضوعات کو نصاب میں شامل کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس تعلیم کو بچوں کو دینے سے قبل ان کی عمر کا خیال رکھنا ہوگا ایک موقع پر حافظ طاہر اشرفی نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ پردوں کو ہٹایا جائے اور ان مسائل پر بات کی جائے جو معاشرے میں فساد کی جڑہیں اور مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہا تھا کہ تعلیم دو طرح کی ہوتی ہے ایک جسم کی دوسری روح کی اور کسی صورت بھی تعلیم کی ان دونوں اقسام کو الگ نہیں کیا جاسکتا ان کے مطابق وفاق المدارس کے نصاب میں جنسی اور تولیدی صحت کے موضوعات شامل ہیں اور یہ تعلیم لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دی جاتی ہے ایک تقریب میں ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق محمود نے کہا تھا کہ جنسی اور تولیدی صحت کے حوالے سے کچھ مواد پہلے ہی نصاب میں شامل ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ امجد اسلام امجد کا کہنا تھا خاندان کے سربراہ کے طور پر سب سے بڑی ذمہ داری باپ پر عائد ہوتی ہے ۔البتہ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا لازمی ہوگا کہ سندھ میں آہنگ کے توسط سے ملنے والی تعلیم سندھ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ایک تحفہ ہے جسے وہ حاصل کر رہے ہیں آہنگ کی یہ تعلیم ان بچوں کو آئندہ زندگی گزارنے کی تعلیم ہے جسے وہ اپنا کر اپنی زندگی کو پرسکون طریقے سے گزار سکیں گے ۔حالانکہ ایک ریسرچ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ اٹھارہ برس کی عمر سے قبل ہی جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اٹھارہ برس سے کم عمر انسان بچہ ہی کہلاتا ہے اور اگر کسی بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے ،فحاشی مواد دیکھانا ،بچے کے جسم کو چھونا ،یہ باتیں استحصال کے زمرے میں آتی ہیں اگر بچوں کو اس استحصال سے بچانا تو بہن بھائیوں ،والدین اور اساتذہ کو کردار ادا کرنا ہوگا اور ساتھ ہی بچے کو اپنی جسمانی حفاظت کے حوالے سے مکمل آگاہی دیں تاکہ ایسے واقعات رونما ہونے سے قبل ہی ختم ہو جائیں واضح رہے کہ بچے جنسی زیادتی کا شکار صرف گھر سے باہر ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملازم یا رشتہ دار کے ہاتھوں بھی ہوسکتے ہیں ۔والدین اور اساتذہ کو سب سے پہلے تین سے اٹھارہ برس کے بچوں کو اعتماد میں لینا ہوگا تاکہ انہیں یہ بات پیار سے باور کرائی جا سکے کہ جب کوئی رشتہ دار یا ملازم کوئی بھی کھانے کی چیز دے تو وہ اس چیز کو نہ کھائیں کیونکہ اس عمل کا آغاز کا یہی سے شروع ہوتا ہے بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار کرنے والا بچوں کو اعتماد میں لینے کے لئے انہیں مختلف چیزیں دیتے ہیں اور یوں وہ بچوں کا اعتماد حاصل کر لیتے ہیں والدین اگر مصروف ہوں تو بچے کو دادا،دادی ،یا نانا ،نای کے ساتھ کسی بھی رزیز کے ہمراہ کمرے میں بیٹھائیں تاکہ اس سلسلے میں دادا،دادی معاون ثابت ہو سکیں اگر اس عمر میں بچہ کسی جسمانی زیادتی کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات بچے کی اعصابی اور نفسیاتی صحت پر زندگی بھر کے لئے چھوڑ جاتا ہے ۔ تیرہ سے اٹھارہ برس کے بچے کو یہ اثر دل ودماغ اور نفسیات پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بلوغت اور جسمانی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے ۔تاہم یہ مسئلہ صرف غریب کے بچوں کا نہیں بلکہ امیر اور متوسط طبقے کے بچوں کا بھی ہے جن کی غفلت سے ان کے بچے جنسی زیادتی کا شکار ہو سکتے ہیں اس لئے والدین دونوں یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں جسے صرف ماں ہی نہیں بلکہ خاندان بھر کے افراد انجام دے سکتے ہیں دریں اثناء ہمیں اپنے بچوں کو اعتماد میں لیکر انہیں ان کے جنسی اعضاء سے متعلق آگاہ اور ان کی حفاظت کا طریقہ کار بتانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں جاری بچوں کے استحصال کو روکا جا سکے یہ آگاہی ہی ایک ایسی طاقت ہے جو بچوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایک فریم ورک کے اندر تولیدی صحت کے لئے ایک مربوط نقطہ نظر اپنانے کی طرف سماجی رکاوٹوں کو دور کرے اس ضمن میں والدین بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی ظاہری و منفی جسمانی تولیدی صحت کی تبدیلیوں کے حوالے سے ان کو مکمل آگاہی دیں اور ساتھ ہی انہیں پیار اور ان پر اعتماد بھی کریں تاکہ بچے ان تبدیلیوں سے ڈرے نہیں بلکہ بڑی ہی بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرسکیں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

amir chouhan
About the Author: amir chouhan Read More Articles by amir chouhan: 3 Articles with 3004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.