۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا سورما’ مولوی احمد اﷲ شاہ ‘
(Shamim Iqbal Khan, India)
(۱۵؍جون ۱۸۵۷ء کی شہادت کے موقع
پر)
ہندوستان میں جب بھی جنگ آزادی کے سورماؤں کا ذکر آتا ہے تومسلمانوں کے دو
ایک نام مجبوراً لے لیے جاتے ہیں ان میں ایک نام مولانا ابوالکلام آزاد کا
ہے اور دوسرا نام شہید اشفاق اﷲ خاں کا۔ان دو ناموں کے علاوہ کسی سطح پراور
کوئی نام نہیں لیا جاتالیکن اگر ایمان داری سے فہرست تیار کی جائے تو فرقہ
پرستوں کی آنکھیں تعجب سے پھیل جائیں گی۔یہ دوسری جنگ آزادی کا حال ہے،
پہلے جنگ آزادی کے مسلم سورماؤں کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے
کہ مسلمانوں کی نئی نسل اپنے اسلاف کی جنگ آزادی کی حصہ داری سے بالکل
انجان ہے۔اسے کبھی کبھی احساس شرمندگی بھی ہوتی ہوگی کہ ہمارے اسلاف یوں ہی
ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔
انڈیا گیٹ پرشہیدوں کے نام کنندہ ہیں جس میں مسلم شہیدوں کے نام گنے جا
سکتے ہیں۔دیوبند کے علماء کے پیچھے میڈیا اور فرقہ پرست لوگ پڑے رہتے ہیں
وہ سب جانتے ہیں کہ دیوبند کے علماء نے آزادی کے لیے کتنی قربانیاں دی
ہیں۔علماء کو کھلے عام پھانسی دی گئیں۔ تعصب اور دھاندلی کا یہ حال ہے کہ
’وکی پیڈیا‘انٹر نٹ کی دنیا میں ایک ایمان دار اور غیر جانب دار سائٹ مانی
جاتی ہیں لیکن اس نے بھی مسلم مجاہد آزادی کے نام اپنی فہرست میں شامل نہیں
کیے۔ہاں مجاہد آزادی کے ۲۶؍ برہمنوں کے ناموں کی فہرست ضرور دیکھنے کو ملی
جسمیں آخری نام ’ناتھو رام گوڈسے‘ کا بھی شامل ہے۔
کسی نے کہا تھا ’’ہندوستانی ریاستیں انگریزوں کی چراہ گاہیں ہیں‘‘ اس طرح
سے آخری چراہ گاہ اودھ کا صوبہ ثابت ہوا۔کچھ لوگ طنز کرتے ہیں کہ اودھ کا
صوبہ نوابوں کی آرام طلبی میں چلا گیا۔ پنجاب تو بہت بہادر لوگوں کا صوبہ
تھا اس پر انگریزوں کا قبضہ کس طرح ہو گیا؟ نہ پنجاب نہ اودھ ، ہندوستان پر
انگریزوں کا قبضہ ہمارے ملک کے ’جے چند اور میر صادق و میر جعفر‘ کی مدد سے
ہوا۔
انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کرنے کی غرض سے نواب واجد علی شاہ کو بدنام کرنے
لگے اسمیں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور بادشاہت چھین کراودھ سے نکل جانے کے
حالات پیدا کر دیے۔ بادشاہ کی بے عزتی کو عوام نے محسوس کیا اور انگریز
حکومت کے خلاف جو چنگاری سلگ رہی تھی اچانک شعلہ بن گئی۔پنڈتوں اور مولویوں،
دونوں نے ’دھرم ےُدھ ‘ اور ’جہاد‘ کا نعرہ دے دیا اور عوام کو ذہنی اور
جسمانی طریقہ سے تیار کرنے میں مشغول ہو گۓ۔
مولوی احمد اﷲ شاہ کے بارے میں برطانوی مورخ ’ جی․بی․مالیسن‘ لکھتے ہیں کہ
پہلی جنگ آزادی کے جاں باز سورما تھے۔ان کی صلاحیتں ایک فوجی رہناماکے طور
پر تھیں جس کے بہت سے نمونے ۱۸۵۷ء کی غدر میں دکھنے کو ملے۔یہ بڑے فخر کی
بات رہی ہے کہ انھوں نے ’سر کولن کیمپبل‘ جیسے انگریزی فوجی سر براہ کو دو
بار دھول چٹایا۔ ’سر کولن کیمپبل‘ کوئی معمولی جنرل نہیں تھاوہ ’کریمن‘ جنگ
کا ہیرو تھا۔ یہ جنگ، روس،فرانس، برطانیہ، سلطنت عثمانیہ اورسردینیہ کے
اتحادی فوج کی جنگ تھی۔
ان کی پیدائش ۱۸۲۰ء میں ہوئی تھی۔ ان کا نام سید احمد علی خاں رکھا گیا۔
عرفیت ان کی ضیاء الدین تھی اور دلاور جنگ کا خطاب تھا۔ ان کے والدمدراس کے
’چنّا پٹّن‘ کے نواب تھے۔شہزادوں کی طرح اس وقت کے مطابق ان کی بہترین
تعلیم ہوئی تھی۔انھوں نے کلاسکی زبانوں اورروائتی اسلامی علوم(تفسیر، حدیث،
فقہ اور منطق) میں تعلیم مکمل کی۔اس کے علاوہ جنگ کے فن میں وسیع تربیت
حاصل کی۔غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے انگریزی کا علم بھی حاصل کیا تھا۔ایک
بہادر اور ذی علم شہزادے کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔
مولوی احمد اﷲ شاہ کچھ اور کرنا چاہتے تھے لہذا وہ کرناٹک سے حیدرآباد گئے
اور نظام حیدرآباد کے کچھ وقت تک مہمان رہے۔حیدرآباد کے قیام کے دوران
انگریز افسروں نے ان کے والد سے ان کو انگلینڈبھیجنے کو کہا لہٰذا وہ
انگلینڈ بھی گئے اور کِنگ سے ملنے کا شرف بھی حاصل کیا۔وہاں ان کی مختلف
سرگرمیوں کا علم تو نہیں ہو سکا لیکن ان کے درخواست پر ہتھیاروں کے استعمال
کی مہارت کا مظاہرے کا موقع ضرور دیا گیا۔ ہندوستان واپسی پر ان کی دلچسپی
’تصوف ‘کی طرف مائل ہوئی اس کے لیے ان کو کسی رہنما کی تلاش ہوئی اور وہ
سید فرقان علی شاہ،سامبھر، راجستھان کے مرید ہوگئے کچھ دن اپنے پیر کے ساتھ
رہنے کے بعدان کی ہدایت پریہ گوالیار چلے گئے۔ ان کے پیر نے ان کا نام
’احمد اﷲ شاہ‘ رکھا ۔ بعد میں وہ اسی نام سے جانے گئے۔
مسلمانوں میں انگریزی حکومت کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھ رہا تھا اور لوگوں کا
رجحان دھیر دھیرے جہاد کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ اسی سلسلہ میں مولوی احمد
شاہ اپنے شاگردوں کی بڑی تعداد کے ساتھ آگراگئے اور وہاں ایک بڑا اور
شاندار مکان کرائے پر حاصل کیا اور اُسی میں اپنے مریدوں کے ساتھ مقیم ہوئے
۔صدر دروازے پر ایک نقارہ رکھا گیا جو دِن میں پانچ وقت بجتا تھا۔قوالیوں
کی مجالس منعقد ہوتی رہیں، ان کی شہرت بڑھتی گئی ساتھ ہی ساتھ ان کے مریدوں
کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔مریدوں کے دلوں میں ایک ایسا یقین پیدا ہو گیا کہ
ان کو نہ تو آگ جلا سکتی ہے اورنہ تلوار کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔محفل سمع
کے دورن احمد اﷲ شاہ مراقبہ کی مشق کرتے تھے اور کافی کافی دیر تک سانس
روکتے تھے۔
آگرامیں دھیرے دھیرے انگریزوں کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگی تھیں اس کے
شکایتیں بھی انگریز افسروں تک پہنچنے لگیں کہ وہ صرف نام کے درویش ہیں
حقیقت میں وہ ایک شہزادے ہیں اورحکومت کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں
لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی مگر وہ گوالیار چلے گئے اور وہاں
سے وہ لکھنؤ آگئے۔
لکھنؤ میں ان کے آمد کی خبر ۲۱؍نومبر ۱۸۵۶ء کے ہفت روزہ اخبار ’تلسم‘ میں
شائع ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں حکومت کو جہاد کی بھنک بھی لگنے لگی۔
انگریزی پولیس نے ان سے اس افواہ کے بارے میں پوچھ تاچھ بھی کی۔اور ساتھ ہی
ساتھ ان کے یہاں آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کے لیے کچھ پولیس بھی تعینات
کی کر دی تھی۔اور ان کی سرگرمیوں پر نظررکھنے کے کیے ایک تھانیدار بھی لگا
دیا۔ آخیر میں ان کو یہ حکم دیا گیا کہ شہرچھوڑ کر کہیں بھی جا سکتے ہیں۔
ہندوستان میں مختلف جگہوں پرگھوم کر مذہبی ودانشوروں کی صحبت میں رہے اور
کئی طرح سے علوم حاصل کیے۔عبادت میں وقت گذارتے تھے۔انگریزوں کی ناپاک
سازشوں کی وجہ سے ان سے جہادکرنے کے لیے انھیں ایک بہادر سپاہی بھی بنا دیا
تھا۔جہاد کا پہلا مرکز آگراتھا یہاں انھوں نے ’’جمیعت العلما‘‘ کی بنیاد
ڈالی۔ ’جہاد‘ اور ’دھرم ےُدھ‘ کی اہمیت اور ضرورت پر باتیں ہوتی
تھیں۔مخبروں سے خبر پاکر انگریز پریشان ضرور ہوئے لیکن ان کے خلاف کوئی
کارواہی نہیں کی جا سکی۔مولوی احمد شاہ آگرے سے لکھنؤ چلے آئے اور یہاں بھی
وہ اپنا کام کرتے رہے۔انگریزوں نے اُن پر پہرا بٹھا دیا اور آخر میں اُنہیں
شہرنکالا بھی دے دیا۔مولوی صاحب لکھنؤ سے فیض آباد آ گئے اور سرائے چوک میں
قیام کیا۔یہاں بھی جہاد اور دھرم ےُدھ کے لیے لوگوں کا اکٹھا کرتے
رہے۔انھوں نے اپنی ایک فوج بھی بنا لی۔ فیض آباد پر انگریزوں کی پکڑ کافی
مضبوط تھی اس لیے مولوی صاحب اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ انگریز کمشنر
نے انھیں بات چیت کے لیے بلایا لیکن وہ نہیں گئے تو کمشنر خود آیا اور خود
سپردگی کے لیے ڈرایا دھمکایا لیکن وہ اس کے آگے جھکے نہیں۔آخر میں انگریزوں
نے فوجی کارواہی کر کے مولوی صاحب کا گرفتار کر لیا۔اس جنگ میں مولوی صاحب
زخمی بھی ہو گئے تھے اور علاج فوجی اسپتال میں کرایا گیا۔ان کے صحتیاب ہونے
پر انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ان پر مقدمہ چلااور انھیں پھانسی کی سزا ہوئی۔
حالانکہ ابھی تک انکی تلوار پر کسی کے خون کا ایک چھینٹا بھی نہیں لگا تھا۔
وہ بہت ہی مخلق اور اﷲ سے ڈرنے والے انسان تھے یہی وجہ تھی کہ فیض آباد کا
جیلر ان کی اتنی ہی عزت کرتا تھا جتنی وہاں کے ہندو و مسلمان کرتے تھے۔ ان
کے ایک ادنی سے اشارے کے منتظر رہا کرتے تھے۔ جیلر نے ان کوجیل میں حقہ
رکھنے اور پینے کی اجازت خود دے رکھی تھی۔
عوام کے صبر کا پیمانہ اب بھر چکا تھا اور انتہائی خطرناک رُخ اختیار کر
لیا تھا۔انگریزوں کی ہندوستانی فوج بھی باغی ہو چکی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ
جیل کا پھاٹک توڑ کر مولوی احمداﷲ شاہ کو آزاد کرا لیا گیا۔بڑی گھماسان جنگ
ہوئی تھی جس میں انگریزوں کی ہار ہوئی اور مولوی احمد اﷲ شاہ کی حکومت قائم
ہو گئی جسے اُنھوں نے راجہ مان سنگھ کو سونپ کراپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ
کا مورچہ سنبھالنے آگۓ۔یہاں انھوں نے نئی فوجی ترکیبیں اپنائیں تھیں جس سے
کئی موقوں پر انگریزوں کے چھکے چھڑا چکے تھے۔ لکھنؤ میں بیگم حضرت محل سے
اورانگریزوں کے بیچ جنگ چل رہی تھی۔ وہ اس موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے اور
اچانک انگریزوں پر پیچھے سے حملہ کر دیتے تھے۔انگریزوں پر پیچھے سے کیے گئے
حملوں سے ان کا کافی جانی نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔
مولوی احمد اﷲ شاہ کو کئی جگہ پرانگریزوں نے گھیرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار
وہ ایک چھلاوہ کی طرح نکل جایا کرتے تھے۔اور اکثر دوسرے ضلع میں جاکروہاں
کے لوگوں میں انقلاب کی روح پھونکنے کا کام کرنے لگتے تھے۔ اسی طرح سے اپنے
ایک دوست راجہ جگنا تھ سنگھ جو ’پوایاں‘ ضلع شاہجہانپورکے راجہ تھے کے یہاں
گئے۔ ظاہری تو اس نے بڑی خاطر مدارات کی لیکن وہ انگریز کا پٹھو نکلا اور
پچاس ہزار روپے کا انعام پانے کے لیے اپنے بھائی کنور بلدیو سنگھ سے مل کر
۱۵؍جون ۱۸۵۷ء کو انہیں شہید کر دیا اور سر کاٹ کر انگریزوں کو بھجوا دیا۔
نو آبادی تسلط کے خلاف بھارت کی مزاحمت میں مولوی احمد شاہ کے بہادری اوران
کی فوجی سوجھ بوجھ سے متعلق مضامین خوب لکھے گئے۔جہاں مورخین
آر․سی․مجمداراور وی․ڈی․ساورکرنے ان کا کردار اعلی درجہ کا ہونا لکھا ہے
وہیں تارا چند، ایس․این․سین، سید معین الحق، ابرار حسین فاروقی اور غلام
رسول مہرؔ اور مختلف ادیبوں نے انکے خصوصی قیادت کی تعریف کی ہے۔
مولوی احمد اﷲ شاہ کی تقریروں میں ہزاروں ہندو مسلمان کا جمع ہو جایا کرتا
تھا۔ چنانچہ آگرا کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوا کرتا تھا۔ان کی
ہردل عزیزی کی یہ حالت تھی کی ایک موقع پرمجسٹریٹ کے حکم پر پولیس نے ان کو
گرفتار کرنے سے منع کر دیا تھا۔
مولوی احمد اﷲ شاہ کی طرح پتہ نہیں کتنے جانباز مجاہد آزادی ہیں جن کی
بہادری اور کار گزاریوں کو ہم نے جاننے کو کوشش ہی نہیں کی ہم نے ادب کے
نام پر کچھ رٹے رٹائے نام ہی رٹتے اور رٹاتے چلے جا رہے ہیں۔کبھی ہم نے
پیچھے پلٹ کر ان کی طرف دیکھ ہی نہیں کہ ہمارے اسلاف نے ملک کے لیے کیا کیا
قربانیاں دیں۔دارالعلوم دیو بند کے مولانا محمود الحسن، مولانا رشید احدم
گنگوہی، مفتی کفایت اﷲ،مولانا لطف اﷲ،مولوی وحید احمد، مولانا عزیر
گل،مولانا حسن احمد مدنی، مولانا عبید اﷲ سندھی، مولانا سجاد بہاری،مولانا
عبدالباری، مولانا ظفر علی خاں اور مولانا حفط الرحمن وغیرہ کی جو قربانیاں
ملک کی آزادی کی جد جہد میں رہی ہیں کیا ان کو ادب کا حصہ نہیں بنایا جا
سکتا ؟ |
|