رمضان انسان کی جسمانی،روحانی تربیت کا ذریعہ

رمضان المبارک کا مہینہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر ایک بڑا انعام ہے جو اس مہینے میں بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے نوازتے ہیں۔کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانہ پر کی جاتی ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت والی خبر ہوا کرتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمت ِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد،اﷲ اور رسول سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی ، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔

ر مضان اسلام کا چوتھا ستون ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر روزے فرض کیئے۔اﷲ تعالیٰ قرآن میں روزوں کے متعلق فرماتا ہے’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ چند مقرر دِنوں کے روزے ہیں‘‘( البقرۃ ۴۸ ۱) دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اْس کو لازم ہے کہ اس مہینے کے پورے روزے رکھے ‘‘ ( البقرۃ ۵۸۱) روزے رکھنے واے مرد و ں عورتوں کے لیے اﷲ نے مغفرت اور بڑا اجر مہیاً کر رکھا ہے۔

ٓایک مسلمان کو جہاد کا فریضہ ادا کرنا ہے اس سے سخت جان بن جانے کا سبق ملتا ہے کہ عام لوگوں میں اﷲ کے دین کو قائم کرنے کا فریضہ ادا کرنے والے مومن کا کس طرح اﷲ تعالیٰ رمضان کے مہینے میں مشکل میں ڈال کر تیار کرتا ہے تاکہ وہ سخت جان ہو جائے اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ’’الصیام‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو لفظ صوم سے نکلا ہے۔ عرب صائم اْس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کو دھوپ میں بھوکا پیاسا باندھ دیا جاتا ہے وہ کھونٹے کے ارد گرد رسًی میں باندھا ہوا چکر لگاتا رہتا ہے۔ بھو ک و پیاس میں رکھ کر اْسے صائم کیا جاتا ہے۔یعنی سدھارا جاتاہے۔تاکہ لڑائی کے مشکل وقت میں کھانے پینے کو نہ ملے تب بھی وہ انسان کے کہنے پر چلتا رہے اور دشمن سے لڑتا رہے صائم کیا ہوا گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔کیا روزے فرض ہونے کے بعد ہم سخت جان اور اپنے مالک کے وفادار ہیں؟ روزے کے لیے لفظ سیاحت بھی استعمال ہوتا ہے۔ وہ اس نسبت سے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی ذادِ راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اْس وقت تک بھوکارہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اس بنا پر روزہ ایک درویش ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ داربھی بھوکا رہتا ہے۔حاشیہ تفسیر آیت ۵ سورۃ التحریم مولا نا مودودی تفہیم القرآن ‘‘حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اس امت کی سیاحت(یعنی درویش روزہ ہے) اس حدیث سے بھی مشکل برداشت کرنے کا سبق ملتا ہے۔

رسولﷺ شعبان کے مہینے سے ہی روزے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے رویت ہے کہ رسول ﷺ نے فر مایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (متفق علیہ)باقی تمام عبادات تھوڑے وقت کے لیے ہوتیں ہیں لیکن روزہ مسلسل ایک ماہ کا تربیتی کورس ہوتا ہے نمازمیں تھوڑا وقت صرف ہوتا ہے،حج بھی صرف زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔زکوٰۃ سال میں ایک وقت ادا کر دی جاتی ہے۔اس کے برعکس روزہ سال میں مسلسل ۰۳ دن ساری عمر آتا رہتا ہے اس سے اﷲ کا منشاء ہے کہ ہر سال انسان کی تربیت ہو، تاکہ وہ خلافت کا بھاری کا م سنبھال سکے۔

انسان اس دنیا میں اﷲ تعا لیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہے یعنی اس دنیا میں اﷲ کا نائب ہے اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہاﷲ کے احکامات اﷲ کی مخلوق سے عمل کروائے قرآن کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ نے انسان کو پیدا کرتے وقت ہی یہ بات اس کے دماغ میں ڈال دی تھی کہ رحمان کا رستہ کونسا ہے اور شیطان کا رستہ کو ن سا ہے۔ اﷲ کا حکم ہے کہ انسان اﷲ کی منشا ء کے مطابق زندگی بسر کرے۔

اب غور کرتے ہیں کہ اﷲ کی منشاء کیا ہے؟۔ اﷲ کی مرضی ہے کہ انسان کی شیرازہ بندی ہو۔ انسانی فطرت بھی یہی کہتی ہے کہ اس کی شیرازہ بندی کی جائے اس کو اکٹھا رکھنے کے لیے ٹھوس ادارے قائم کئے جائیں۔اگر ایسے ادارے نہ ہوں گے تو انسان ایک نقطے پر متفق نہیں ہو گا، ایک محور پر نہیں رہ سکے گا۔لوگوں کی سوچ مختلف سمت میں ہوگی جس سے وہ نتائج حاصل نہ ہو گے جو اْمت کی شیرازہ بندی کرنے والے کو مطلوب ہونگے۔اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس کائنات کے زمینی حصًہ، جس میں انسان بستہ ہے، اس کی شیرازہ بندی کے لیے ا س ہی میں سے ایک انسان تلاش کرتا ہے یعنی پیغمبر،جواس کی بات ٹھیک ٹھیک اْسی طرح اْس کے بندوں کے پاس پہنچائے جس سے اس کے تخلیق کرنے والے کی منشاء ہو یعنی اﷲ تعالیٰ کی منشا۔ شیرازہ بندی کا اِس سے بہتر انتظام سوائے اﷲ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا، یعنی توحید،رسالت، نماز،زکوۃ،رمضان، حج اور جہاد فی سبیل اﷲ۔انسان ان عبادات کو ادا کرنے میں لگا ہے یہ انسان کی شیرازہ بندی ہے۔ٰ

مثال کے طورپر انسان کے ہاتھ سے بنی ہوئی ایک مشین کی شیرازہ بندی اْس مشین کے بنانے والا ہی بہتر بنا سکتا ہے شیرازہ بندی اِس معنی میں ،کے اْس کے تمام پرزے باہم ایک دوسرے سے ملے رہیں ،اور وہ مشین یکجا رہے۔ اِس لیے ہر مشین کے ساتھ ایک مینول بک ہوتی ہے کہ اس مشین کو اسطرح چلایا جائے تو یہ صحیح نتائج دے گی اوراس کو اس مینول کے مطابق نہ چلایا گیا تو مطلوبہ نتائج نہ دے گی،بلکہ جلدہی خراب ہو جائے گی اور نہیں چلے گی۔ تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ مشین کومینول کے مطابق چلانے والوں نے اس مشین سے بہترنتائج حاصل کیے اور جس نے اس مشین کو مینول کے مطابق نہیں چلایا وہ صحیح نتائج حاصل نہ کر سکے۔بس اﷲ کی شیرازہ بندی کے مطابق انسان چلے گا،تو مثل مشین صحیح رہے گا۔
اسی مثال کے مطابق آپ انسان کو ایک مشین تصًور کریں اور پھر اس پر مزید غورکریں کہ اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے انسان کے بنانے والے یعنی اﷲ تعالیٰ کے مینول کے مطابق کام کریں گے تو بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں؟۔ ہر سمجھدار انسان یہی کہے گا کہ بنانے والے کے مینول کے مطابق کام کریں گے تو صحیح نتائج حاصل ہونگے۔ سب سے پہلے تو ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کے معاملے میں وہ کیا چیزہے جو اس کی مزید شیرازہ بندی کرے؟ وہ یہ ہے کہ انسان ایک ہستی کو ا پنا سب کچھ سمجھے یعنی ، اور اقرار کرے کہ سوائے رب کے کچھ نہیں تویہ توحیدہے اور رسول اﷲ کے پیغمبر اوربندے ہیں۔ پیغمبر ﷺ کو اسطرح مانے کہ یہ مجھے اﷲ سے ہدا یت لا کردینے والا ہے اور اس کے علاوہ کہیں سے بھی ہدایت نہیں مل سکتی تویہ رسالت ہے۔ وقت کی پا بندی کا سبق سیکھناصبر کی تربیت ہونااور پانچ وقت اﷲ کے بندہ ہونے کا احساس ہونااور اْن کو ایک دوسرے کے معاملات کابھی علم ہونا تو یہ نماز ہے۔ اِس کے بعد انسان کسی ایسے نظام پر عمل کرے کہ اْس کے کمزور ساتھیوں کو اگرزندگی گزارنے کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہو تو وہ مل سکیں تو یہ زکوٰۃ ہے۔اسی انسان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے اﷲ کے دین کوقائم کرنے میں بھوک پیاس برداشت کرنی پڑے اور یہ احساس تازہ رہے کہ تکلیف کے وقت انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے تو اِس کے لئے روزہ یعنی رمضان ہے۔ انسا ن بستی بستی ، شہر شہر، ملک ملک، بر اعظم بر اعظم میں آباد ہوتا ہے اب ان سب انسانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے، ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کے لیے کوئی ایسی جگہ ضرور ہونی چاہئے کہ وہاں سبجمع ہوں اور اﷲ کے دین کو قائم کرنے کی تدبیر کریں تو وہ حج ہے مندرجہ بالا احکام پر عمل کر کے ہی انسان اﷲ کا پسندیدہ بندہ بن سکتا ہے۔اسی لیے اﷲ نے یہ عبادات فرض کر دی ہیں۔

اب ذرا دِل پرہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اس سے بہتر شیرازہ بندی کچھ اور ہو سکتی ہے،یا یہی بہتر ہے جو ہمارے رب نے بنائی ہے۔اسی میں اﷲ کے حکم کی ادائیگی ہے ،اسی میں رضا الہی ہے ،اسی میں فلاح آخرت ہے اور یہی اﷲ کا منشاء ہے۔ اور یہی کامیاب زندگی گزارنے کا اﷲ کی طرف سے دیا ہوا مینول ہے۔ہم نے اْوپر مشین کی مثال سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صحیح نتائج کے لیے ضروری ہے کہ مشین بنانے والے کے مینول پر عمل کیا جائے تو صحیح نتائج ملیں گے۔اسی نظم میں منضبط ہو کہ اﷲ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جدوجہد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر ہی صحیح نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔یہ تو اﷲ تعالیٰ کی مہربانی ہے ا ور انسان سے انتہائی محبت کا اظہار ہے کہ اْس نے وہ تمام عبادات جس پر عمل کر کے انسان اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اﷲ نے اس پر اپنی طرف سے انعام بھی رکھ دیاہے یعنی اﷲ کی جنت۔ اگرتوحید ، نبوت،نماز،زکوٰۃ،رمضان حج اور جہاد فی سبیل اﷲ کے احکامات پرصحیح اﷲ کے بتائے ہوئے اصو لوں کے مطابق عمل کرو گے تو اس جہاں میں عزت وقار تو ملے گا ہی دوسری زندگی میں جو اصل اور ابدی زندگی ہے یعنی جنت کے بھی حق دار ہوجاوگے اور یہی اﷲ تعالیٰ کا منشاء ہے۔

اب مزید سوچیں کہ اس کے پیچھے فلسفہ کیا ہے۔فلسفہ یہ ہے کہ کررہ ارضی پر، یعنی جہاں انسان آباد ہے وہاں اﷲ کا حکم چلے، شیطان مردود کا حکم نہ چلے،خود ساختہ نظریات نہ چلیں، باپ دادا نے جو قاعدے بنائے ہوئے ہیں،جو غلط ہیں وہ نہ چلیں،انسان اپنی خوا ہشات پر جو کہ اکثر غلط ہوتیں ہیں عمل نہ کرے۔ جس دور کا بھی انسان ہو وہ سمجھ لے کہ اْس سے قبل کے دور کے انسان نے جوغلطیاں کی ہیں اْن سے سبق حاصل کرے جو اس سے پہلے دور کے انسان نے شیطان کے کہنے پر غلط کام کیے ہیں اْن سے بچے اور ا سے توبہ کرے اور اﷲ تعالیٰ کے بتاے ہو ئے اصولوں پر چلے یہ ہے فلسفہ۔اﷲ تعالیٰ نے جتنے بھی عبادات کے لیے ادارے قائم کیے ہیں وہ دراصل انسان کو اﷲ کے دین کو اس دنیا میں قائم کرنے کے دوران مدد فراہم کرنے کے لیے بنائے ہیں اور اْن کو فرض کا درجہ بھی دے دیا ہے کہ یہ عبادات ہر حالت میں کرنی ہیں۔یہ عبادات کریں گے تو مسلمان ورنہ کافر۔

بہت سے انسان جواﷲ کے اصل راستے سے ہٹ کر شیطان کے راستے پر چل پڑتے ہیں وہ اس کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں وہ یہ اصل کام نہیں ہونے دیتے ان لوگوں کی مزاحمت کرنے کے لیے اﷲ نے اپنے بندوں پر یہ عبادات فرض کی ہیں تا کہ جب مزاحمت کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو سخت جان بن جا ئیں اور اْن بْرے لوگوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں وہ برْے لوگ اِن کا راستہ روکیں گے وہ ان کو ہرطرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کریں گے، وہ قتل عام کریں گے اور شیطان کے کہنے پر ہر اس کام سے روکیں گے جو اﷲ نے اپنے نیک لوگوں کو کرنے کے لیے کہا ہے۔اب ذرا غور کریں ایسے غلط لوگوں کا کمزور لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یقیناّنہیں کر سکتے۔

لہٰذ ان نیک لوگوں کی تربیت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے عبادات کا نظا م قائم کیا ہے۔ اب مزید غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے جو لوگ اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام قائم کرنے کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں وہ صرف نماز پڑھ کر،زکوٰۃ دے کر ،ر مضان کے روزے رکھ کر ، سال میں ایک حج کر کے اور دل میں اﷲ کے نظام کو قائم کرنے کاارادہ کر کے یعنی کلمہ توحید پڑھ کر اﷲ کے دین کوقائم نہیں کر سکتے ہیں ؟ تجر بہ یہ بتاتا ہے طاغو ت یہ کا م نہیں کرنے دے گا قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جگہ جگہ رکاوٹ ڈالی جائے گی ابلیس نے شروع ہی سے کہا تھا کہ میں انسان کو آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے ہر طرح سے گھیروں گا شیطان اور اس کے چیلے نیک لوگوں کو نیک کام نہیں کرنے دیتے۔ شیطان بْرے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر، اور بْرے انسان اپنی خو ا شہات کے پیچھے چل کر نیک لوگوں کے راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں صرف عبادات کو ادا کر کے ان لوگوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا اس کے لیے لوگوں کو جہاد کے لیے تیارہونا پڑتا ہے۔اْن بْرے لوگوں کے مقابلے کے لیے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔اوراگر نیک لوگ صرف عبادات پر عمل کر کے چاہیں کہ اﷲ کا نظام قائم ہو جائے اور اﷲ کا منشاء پورا جاے،خلیفہ ہونے کا حق ادا ہو جائے تو یہ ممکن نہیں۔ ہاں تو صرف اس کے حکم سے سب کچھ ہو سکتا ہے مگریہ اس کی مشیت ہے کے وہ اپنے نیک بندوں سے یہ نظام قائم کرانا چاہتا ہے اس ساری تربیت یعنی نماز، زکوۃ،رمضان ،حج اورزبان سے توحید کا اقرار کرنے سے اجر تو ضرورملے مگر یہ کام نہیں ہوگاان عبادات کے ساتھ ساتھ عملی جد وجہد کرنی پڑے گی۔ یعنی جہاد فی سبیل اﷲ کرنا پڑے گا۔ اسی لیے انسان کو روزے کے ذریعے صائم کیا جاتا جیسے عرب کے لوگ گھوڑوں کو صائم کیا کرتے تھے تاکہ وہ ہر مشکل وقت کے لیے تیار رہے۔ مسلمان کو بھی اﷲ کے دین کو اﷲ کی زمین پر قائم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔
Hafiz Mohammad Siddiq Madani
About the Author: Hafiz Mohammad Siddiq Madani Read More Articles by Hafiz Mohammad Siddiq Madani: 62 Articles with 65938 views Mohammad Siddiq Madani from Chaman Pakistan .
Columnist and Writer of Pak
Chief Editor.
Monthly Albahr Chaman
office Weternary Hospital Road P.O B
.. View More