رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -1

اکثر محدثین اور مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے 40 سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت 17 ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مؤرخین نے آپ کا روز ولادت 12ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت چند حوادث اور غیر معمولی واقعات بھی رونما ہوئے جن میں سے بعض یہ ہیں:

ایوانِ کسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگورے زمین پر گر گئے، فارس کا وہ آتشکدہ جو گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا یکایک خاموش ہوگیا۔ ساوہ کی جھیل بیٹھ گئی، تمام بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ زرتشتی عالموں اور کسریٰ خاندان کے بادشاہ نے پریشان کن خواب دیکھے، شاہانِ دنیا کے تخت سلطنت سرنگوں ہوگئے، پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے باعث نور آسمان کی طرف بلند ہوا اور بہت وسیع حصے میں پھیل گیا۔

پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے وقت ایسے حیرتناک واقعات کا رونما ہونا درحقیقت لوگوں کو خطرے سے آگاہ اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنا تھا بالخصوص ان حکمرانوں کی تنبیہ کرنا مقصود تھی جو اس وقت دنیا میں فرمانروائی کر رہے تھے تاکہ وہ ان واقعات کے بارے میں غور کریں اور یہ جانیں کہ ان حادثات کا رونما ہونے کا کیا سبب ہے، نیز خود سے سوال کریں کہ کیونکر بتوں کے ڈھانچے اور بت پرستی کے نشانات منہ کے بل زمین پر آرہے ہیں اور وہ لوگ جو خود کو زمین کا آقا و مالک سمجھتے تھے کیوں مضطرب و پریشان ہوگئے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے بھی برتر بہتر طاقت کا ظہور ہوچکا ہے؟ اس کےساتھ ہی بت پرستی اور شیطانی طاقتوں کا زمانی عروج ختم ہوچکا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی زیر سرپرستی ہوئی۔

حضرت عبدالمطلب نے پیدائش کے ساتویں دن بھیڑ ذبح کرکے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور نام محمد رکھا، اس نومولود بچے کے لئے دایہ کی تلاش ہوئی اور چند روز کے لئے انہوں نے بچے کو ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طائفہ بنی سعد کے معزز فرد ابوذویب کی مہربان و پاکدامن دختر حضرت حلیمہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی تحویل میں لے لیا اور صحرا کی جانب لے گئیں تاکہ فطرت کی آغوش اور صحتمندانہ آزاد فضا میں ان بیماروں سے دور جو کبھی شہر مکہ کے لئے خطرہ پیدا کر دیتی تھیں۔ ان کی پرورش کرسکیں۔ قبیلہ بن سعد کے درمیان رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی حضرت حلیمہ اس نونہال کو ان کی والدہ کی خدمت میں لے گئیں تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا نے بھی ان سے اتفاق کیا۔

پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پانچ سال تک صحراء کے دامن میں طائفہ بنی سعد کے درمیان زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو واپس والدہ اور دادا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ کے مزار کی زیارت سے مشرف ہونے اور دونوں انائوں سے ملاقات کرنے کی غرض سے یثرب گئیں۔ جہاں کا ایک ماہ تک قیام رہا وہ جب واپس مکہ تشریف لارہی تھیں تو راستہ میں (ابوائ) نامی مقام پر شدید بیمار ہوگئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حادثے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کے مصائب میں دو گنا اضافہ ہوگیا، لیکن اس واقعے نے ہی آپ کو دادا سے بہت نزدیک کر دیا۔

قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکالیف کے زمانے کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
الم یجدک یتیما فاوی
”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا۔“

ابھی آپ نے زندگی کی آٹھ بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں کہ دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب علیہ السلام کے زیر سرپرستی آگئے۔

حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ عزیز تھے، وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کا انتظار کرو۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ہیں:
حقیقی معنوں میں وہی میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا دیتیں کہ شکم سیر ہو کر کھاتا ان کے بچے میلے ہی رہتے مگر مجھے نہلا دھلا کر ہمیشہ صاف ستھرا رکھتیں۔

خدائی تربیت
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:

لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار

”جس دن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔“

رسالت کی جانب ایک قدم شام کی طرف پہلا سفر
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رہنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ہوا۔ یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ہوئی، چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے ہی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا گوہر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ہوا، اور یہیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کہنا شروع کیا۔

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:

ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہوسکے واپس مکہ لے جائیے۔

حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آگئے اور پوری طرح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔

مستشرقین کی افتراء پردازی
راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بدنیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انہی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و براہین سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے، ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:

عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انہیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔

اگر پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی ہوتیں تو وہ یقیناً قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آکر انہیں بیان کرتے۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بعد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ہوں۔

اگر تورات اور انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔

اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟

۔۔۔جاری۔۔۔۔۔

آپ کی رائے باعث رہنمائی و عزت افزائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122511 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More