شیخ چلی کے دعوے

رمضان میں بدترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ گرمی اپنی انتہا پر ہے۔ سورج قہر برسا رہا ہے۔ سحر اور افطار کے اوقات بھی پوری طرح لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں۔ روز کئی افراد گرمی کی شدت سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ بیہوش ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ لوگ بے حال ہو کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ شہر شہر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بجلی کا شارٹ فال بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ آپ کے پاس جنریٹر ہے آپ نہ برداشت کریں، لوگوں کو تو مجبوراً برداشت کرنا ہے آپ عملی طور پر بے حس جو ٹھہرے ۔وزیراعظم نے پانی اور بجلی کے محکمے کے ذمہ داروں کو ہدایت کی ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ لوگوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بجلی نہیں ہوتی تو پانی بھی نہیں ہوتا۔ ان کے بغیر اب زندگی کیسے گزرتی ہے؟ گھروں میں ہر وقت جرنیٹر چلانے والے ارباب اختیار کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں۔ بجلی اور پانی کے وزیر جناب خواجہ آصف کم بولتے ہیں، بولیں بھی تو لگتا ہے کہ عوام سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔بڑی سادگی سے کہتے ہیں معمولی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے شہباز شریف جو شریف برادران کی حکومت آنے سے پہلے بجلی کی فوری فراہمی کے بہت سے دعویٰ کر رہے تھے آج کل خاموش ہیں۔ وزیر مملکت عابد شیر علی ٹیلی ویژن پر اپنا فون نمبر 0300-8666111 لوگوں کو دیتے ہیں کہ اپنی شکایت اس نمبر پر SMS کر دیں فوری ازالہ ہوگا۔ مگر یہ نمبر کئی کئی دن بند رہتا ہے۔جتنی مرضی شکایات بھیج دیں کچھ نہیں ہو گا۔ ٹی وی کا شو ختم تو اُن کا ڈرامہ بھی ختم۔ سچ تو یہ ہے کہ طفل تسلیاں ہیں۔ دعویٰ ہیں شیخ چلی کے۔ دعوے تو سبھی بے اعتبار ہیں البتہ شیخ چلی حضرات کی بڑھکیں ہیں بس سنتا جا ……اور سنتا جا……

ہفتے کی رات 9بجے ہلکی سی آندھی کے ساتھ بجلی غائب ہو گئی۔ سحری کھا رہے تھے تو آئی، مگر چار پانچ منٹ ہی میں پھر غائب۔ پورا علاقہ بجلی والوں کو فون کر کے تھک گیا مگر کوئی بھی آنے کو تیار نہیں تھا۔ فون آپریٹر نے تنگ آکر کہا کہ لائن انچارج نذیر سے اُس کے فون پر بات کریں۔ نذیر سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ پرائم منسٹر صاحب لاہور میں ہیں اور میں دو بندوں کے ساتھ اُن کے گھر کی ڈیوٹی دے رہا ہوں۔ یہاں سے کہیں جا نہیں سکتا۔ آپ SDO سے بات کریں۔ کہیں سے بندوں کا بندوبست کریں۔ پورے علاقے کے معززین بار بار درخواست کرتے رہے مگر لگتا ہے جناب وزیر اعظم شاید ہمیں تنگ کرنے ہی لاہور آئے تھے۔ اتفاق کی بات وہ لائن جس سے ہمارے علاقے کو بجلی فراہم ہوتی ہے جاتی عمرہ کو بھی بجلی فراہم کرتی ہے، مگر جاتی عمرہ کے مکینوں کو بجلی سے کیا اُن کے جنریٹر زندہ باد۔ وہ بھی سرکار کے خرچ پر۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر۔ اُنہیں کیسے احساس ہو سکتا ہے کہ بجلی اور پانی کے بغیر زندگی کس قدر تلخ ہوتی ہے۔ سارا دن عذاب میں گزارنے کے بعد دو بجے کے قریب علاقے کے کچھ نوجوان لیسکو کے دفتر پہنچے اور وہاں آرام کرتے ہوئے سٹاف کو برا بھلا کہہ کر زبردستی ساتھ لے کر آئے۔ پندرہ، بیس منٹ میں بجلی بحال ہو گئی تو علاقے کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

میں ایک آدمی ہوں اور عام آدمی کی طرح ہر روز ہر جگہ کسی نہ کسی مشکل کا شکار ہوتا ہوں۔ اپنے حالات پر پریشان رہتا ہوں۔ اپنے مسائل کا حل نہیں پاتا اور ملک کے بگڑے حالات دیکھتا ہوں تو کبھی سیاستدانوں کو مورزِ الزام ٹھہراتا ہوں، کبھی فوج پر تنقید کرتا ہوں، کبھی عدلیہ کا گِلہ ہوتا ہے، کبھی انتظامیہ کا رونا رویا جاتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اپنی تمام مشکلات اور مصائب کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم اپنے لیڈروں اور نمائندوں کا چناؤ کرتے وقت عقل اور شعور کا استعمال کم اور جذبات کا زیادہ کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ سیاست کے میدان میں جس شخص کی ضرورت ہے اُسے سیاستدان ہونا بہت لازمی ہے۔ جیسے علاج کے لئے ڈاکٹر اور تعمیرات کے لئے انجینئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعمیرات ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں اور علاج انجینئر کا مضمون ہی نہیں۔ مگر ہر جھوٹی سچی شہرت رکھنے والا سیاست سے لابلد شخص ہمارا لیڈر ہے۔ سیاست خدمت خلق کا دوسرا نام ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ پیسے کے زور پر انتخاب لڑنے والا شخص جسے عوام کے مسائل اور مصائب کا اندازہ ہی نہیں ،ہمارا لیڈر ہے۔ بس کوئی ادا لوگوں کو پسند آجائے سہی لوگ نعرے مارتے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ منی لانڈرنگ اور سمگلنگ میں ملوث ایک ماڈل جو جیل میں ہے وہ باہر آئی تو لوگ ’میری لیڈر بے قصور ‘کے نعرے مارتے اس کے پیچھے چل پریں اور لوگوں کے پست انتخابی معیار کے سبب کل وہ ہماری عظیم لیڈر ہی نہ بن جائے۔ اس ملک میں سب ممکن ہے، وہ جس حلقے سے بھی الیکشن لڑے گی لوگ مذاق ہی مذاق میں بغیر سوچے سمجھے ماضی میں جس طرح بہت سے نام نہاد لیڈروں کے ساتھ چلے ، اس کے ساتھ بھی چل پڑیں گے اوروہ جیت جائیگی۔ ہمارے موجودہ بڑے لیڈروں کا معیار بھی سیاسی کارکردگی نہیں بلکہ ذاتی وابستگی ہے اور اگر کسی بڑے لیڈر نے ایسے کسی شخص کو مخصوص نشست کا ٹکٹ دے دیا تو لوگوں کے ووٹوں کے بغیر بھی وہ لیڈر ہوگی۔ ویسے بڑے لیڈروں کی نظر کرم کسی کو بھی مستند لیڈر بنانے کے لئے بہت کافی ہوتی ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستیں تو شاید ہوتی ہی اسی لئے ہیں۔ پچھلے بیس ، پچیس سال کاریکار ڈدیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سال ہا سال سے سیاسی کام کرنے والی اور سیاست کو پوری طرح سمجھنے والی خواتین عین الیکشن کے وقت حسرت سے دیکھتی رہ جاتی ہیں اور وہ نشستیں جن کی وہ مستحق ہوتی ہیں کچھ چمکتی دمکتی چہیتی خواتین لے جاتی ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اُن کا سیاست سے تعلق منتخب ہونے کے بعد بنتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ مستحق سیاسی ورکرز احتجاج بھی نہیں کرتیں اور ٹکٹ بانٹنے والے بڑے لیڈروں کو ٹکٹ دیتے وقت شرم بھی محسوس نہیں ہوتی اور عوام ………… اُن کو شاید اﷲ نے یا اُن کی مجبوریوں نے اس معاملے میں سوچنے کی حِس ہی نہیں دی ہوتی یا ۔۔۔ شاید ختم ہو چکی ہوتی ہے۔

سیاسی ورکر آج کے دور میں فقط جلسوں کی رونق بڑھانے اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرنے کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔ الیکشن باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وافر پیسے، لیڈر سے تعلقات اور چاپلوسی کے نتیجے میں منتخب ہونے والے کو کیا پتہ کہ سیاست کیا ہے خدمت خلق کیا ہے؟ سیاست ایک عبادت ہے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا نام ہے۔ مگر ہمارے موجودہ نام نہاد لیڈر انہیں فقط اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ دولت کا حصول عزیز ہوتا ہے جس کے لئے وہ ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے لیڈر کا ہر حال میں دم بھرتے ہیں، اُس کی خوشی کے لئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ مگر یہ لوگ عوام کے مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اپنے لیڈر کی مہربانی اور عنایت کے سبب شہرت کے متلاشی ان لوگوں کو خدمت خلق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اسمبلیوں میں یہ گونگے اور بہرے بن کر بیٹھتے ہیں۔ شرم آتی ہے کہ یہ شخص ہمارا نمائندہ ہے۔ عوام کو اپنے مسائل اور مصائب کے حل کے لئے چناؤ کا معیار بدلنا ہوگا۔ جب تک اہل اور عوام کا درد رکھنے والے اور عوام ہی سے تعلق رکھنے والے لوگ منتخب نہیں ہوتے مسائل اور مصائب زندہ رہیں گے اور عوام کے حصے میں ذلت قائم و دائم رہے گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 456843 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More