عالمی ’یوگا‘ڈے کوعالمی ’ڈرامہ ‘ڈے کہنے کی نوبت اس وجہ
سے آئی کہ اس دن جو کچھ ہوا وہ ایک ڈرامہ سے کم نہیں… اس ڈرامہ ڈے کو
منعقد کرنے کے پیچھے بہت سارے مقاصد تھے… جس کی طرف بار بار مسلم پرسنل لاء
بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی صاحب اشارہ بھی کررہے تھے
… لیکن آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اور یہ خدشہ ہماری آئندہ نسلوں تک کو
بھگتنا پڑے گا …اگر اس کے خلاف بروقت عدالت عالیہ کا دروازہ نہیں
کھٹکھٹایاگیاتو اس کے برے نتائج سے ہمیں دوچار ہونا پڑگا… اس طرح کا عمل (اکثریت
کی تہذیب کو اقلیت پر تھوپنا) سیکولرازم کے منافی ہے اور ہندوستان جیسے سب
سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوریت کے خلاف اس ننگے ناچ پر ہندوستانی باشعور
مسلمانوں کا خاموش رہنا اور جو تنظیم اس کے خلاف آواز اٹھائے اس کے آواز
پر لبیک کہنے کے بجائے اس تنظیم کی تحریک کو سبوتاژ کرنا ایک المیہ سے کم
نہیں… مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ہندوستانی مسلمانوں
کی قیادت کی ہے اور انہیں حالات کی سنگینی سے ہمیشہ آگاہ کیا ہے …اور اس
نازک موڑ پر بھی قیادت کررہی ہے …لیکن کچھ لوگ اس تنظیم کی قیادت سے خار
کھاکر ُاس کے مشن میں افعال واعمال کے ذریعے روڑے اٹکانے کی کوشش کررہے ہیں
…اور پس پردہ برہمنی تہذیب کے فروغ میں معاون بن رہے ہیں… انہیں چاہئے کہ
ابن الوقتی چھوڑ کر ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت باقی رکھنے میں اپنی
صلاحیت کو بروئے کار لائیں … بہرحال عالمی ڈرامہ ڈے ختم ہوگیا لیکن ایک
سوشہ چھوڑ گیا کہ ہندوستان کے تمام اسکولوں میں چھٹی کلاس سے لے کر دسویں
کلاس تک یوگا لازمی ہوگا… سب سے پہلے اس ڈرامہ ڈے کی مخالفت مسلم پرسنل لاء
بورڈ کے کارگزار سکریٹری مفکر ملت مولانا ولی رحمانی صاحب نے بڑے ہی شدومد
کے ساتھ کی اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے خطرات سے قوم کو آگاہ کیالیکن وہیں
کچھ ہمارے اکابرین ملت نے اس ڈرامہ ڈے کی کچھ شرائط کے ساتھ مصلحت پسندی یا
حالات سے سمجھوتے کی خاطر اجازت دی… ہم یہاں بات کرتے ہیں مسلم پرسنل لاء
بورڈ کے تعلق سے عالمی ڈرامہ ڈے کے اختتام پذیر ہونے کے بعد فوراً ہی مسلم
پرسنل لاء بورڈ نے اس خطرے کی طرف اشارہ کردیا جس سے پہلے سے منع کرتے
آرہے تھے کہ یوگا ہماری تہذیب وکلچر نہیں ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ جائز
نہیں ہے کیوں کہ یہ ہندوئوں کے عقائد میں سے ہے ہم اس پر عمل پیرا نہیں
ہوسکتے… مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس ہندوانہ تحریک کے خلاف ملک گیر تحریک
چلانے کا اعلان کیا ہے …مسلمانوں کو چاہئے کہ اس تحریک کا حصہ بنیں اور
ہندوستان میں اپنی مذہبی شناخت باقی رکھنے کے لیے ان کے شانہ بشانہ چلیں
تاکہ ہندوستان میں برہمن واد پنپ نہ پائے اور ہماری لاشعوری سے کہیںیہ
دوسرا اندلس نہ بن جائے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری نے اس یوگا ڈے کی مخالفت میں
پہلے ہی کہا تھا کہ یہ یوگا ڈے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے بانی کی برسی ہے
کیوں کہ اسی دن جمہوریت مخالف تنظیم آر ایس ایس کے بانی کی موت ہوئی تھی…
مفکر ملت مولانا ولی رحمانی نے اپنے جاری کردہ خط میں گیتا کے چھٹے باب کا
ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوگا ایک مذہبی عمل ہے جو برہمنی مذہب اور ویدک
کلچرکاحصہ ہے… خط میں یوگا دیوس کو بڑھاوا دینے کو آئین کی خلاف ورزی
قراردیا ہے۔مولانانے مزید لکھا ہے کہ ملک کا آئین حکومت کو مذہبی سرگرمیوں
کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔مولانا نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے
کہ مرکزی حکومت کے ان اقدامات سے مسلمانوں کومحتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ
یہ اسلامی عقائد کو کمزور کرکے ان پر برہمنی مذہب مسلط کرنے کی سازش ہے…مو
لانا نے کہا مرکزی حکومت اس طرح کے ڈرامہ ڈے منعقد کرکے اپنی ناکامیوں
کوچھپانے کے لیے بین الاقوامی یوگادیوس جیسی تقریبات کا سہارا لے رہی
ہے۔یادرہے کہ مودی حکومت آئے دن اس طرح کے ڈرامہ ڈے منعقد کرکے اپنی بچی
ہوئی ساکھ اور ہندوئوں کو متحد کررہی ہے۔اور مسلمان ہیں کہ بس کبھی اس
تنظیم تو کبھی اُس تنظیم پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں… حالانکہ حالات اور
وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ڈرامہ ڈے کے بعد کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا تعاون کریں …تاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ آپ کے حقوق
کے لیے اور اسلامی شناخت کے لیے پوری طاقت سے سیکولرازم مخالف طاقتوں سے
لوہا لے سکے… اگر ایسا نہیں ہوتا ہے…ہم اسی طرح موجودہ حکومت کے نت نئے
فتنوں کے مقابلے خاموشی اور مصلحت پسندی اختیار کرتے رہے تو پھر بعید نہیں
کہ ہمارا حال بخارا وسمرقند کی گم گشتہ تاریخ کی طرح ہوجائے اور آر ایس
ایس کا مقصد بھی تو یہی ہے کہ ہندوستان ہندو راشٹر ہے اور وہ اس کی کوشش
برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں جب بی جے پی حکومت اکثریت کے ساتھ قائم ہوئی
تھی تو انہوں نے فخر سے کہا تھا کہ آزادی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں
ہندو حکومت قائم ہوئی ہے۔ ان کے مشن میں سے ہے کہ یہاں سے مسلم نیست ونابود
ہو … ابھی خبر آئی ہے کہ ہندو مہاسبھا ملک گیر تحریک چلائے گی جس میں
اکثریت کو ایک تلوار فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اقلیت کے وار کا سامنا کرسکے
۔ حالانکہ مولانا سلمان ندوی صاحب نے اس پر سخت نوٹس لیتے ہوئے مودی سے
جواب طلب کیا ہے ۔ لیکن اس سے آگے آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کیا اس تلوار
کے وار کو سہہ پائیں گے… آپ میں اتنی قوت وطاقت ہے نہیں ہے …؟ اگر ہوتی تو
گجرات مسلمانوں کا قبرستان نہ بنتا آئے دن ہرجگہ اٹالی اور بلبھ گڑھ جیسے
حالات نہ پیدا ہوتے اور نہ ہی مظفر نگر اور مظفر پور سے کمزور اور جلتے
مسلمانوں کی دلدوز چیخیں آسمانوں کو چیرتیں۔
میری اس تحریر کا مقصدمشتعل کرنا نہیں بلکہ جمہوری انداز میں اس کا مقابلہ
کرنا ہے اور یہ مقابلہ ہم اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ہم مرکزی تنظیموںمثلاً
مسلم پرسنل لاء بورڈ ،جمعیۃ علماء ہند اور دیگر بڑی تنظیموں کی سرپرستی
میںانجام دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو شاید پھر اس ملک کو ہندو راشٹر
بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں |