کاش کہ ہم سمجھ سکتے

احادیث نبی کریم ﷺ کی ایک کتاب ہے ابنِ ماجہ اس کتاب میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے وہ پوری حدیث کچھ یوں کہ مہاجرین حبشہ جب مدینہ واپس لوٹے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے ملکِ حبشہ میں کیا دیکھا، وہاں کی کوئی دلچسپ بات تو سناؤ۔ ایک نو جوان نے یہ قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ہم حبشہ میں بیٹھے تھے۔ ایک بڑھیا کا ہما رے پاس سے گزر ہوا۔ اس کے سر پر پانی کا ایک مٹکا تھا وہ ایک بچے کے پاس سے گزری تو اس نے اسے دھکا دیا اور وہ گھٹنوں کے بل آگری۔ مٹکا ٹوٹ گیا۔ وہ بڑھیا اٹھی اور اس بچے کو کہنے لگی اے دھوکے باز بدبخت! تجھے جلد اپنے کئے کا انجام معلوم ہو جائے گا جب اﷲ تعالی اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہو گا اور فیصلے کے دِن پہلو ں اور پچھلوں کو جمع کرے گا۔ ہاتھ اور پاؤ ں جو کچھ کرتے تھے خود گوہی دیں گے۔ تب تمہیں میرے اور تمہارے معاملے کا صحیح علم ہو گا۔ رسول اﷲ ﷺ نے جوشِ ہمدردی سے فرمایا
’’اس بڑھیا نے سچ کہا اﷲ تعالیٰ اس قوم کو کیسے برکت بخشے اور پاک کرے گا جس کے کمزوروں کو طاقت وروں سے اُن کے حق دلائے نہیں جاتے‘‘
(سنن ابنِ ماجہ کتاب الفتن)
یہ اس بزرگ ہستی کا کلام ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے
یہ(نبی کریم ﷺ) اپنی ہوئے نفس سے کلام نہیں کرتا اور جو کچھ بھی بیان کرتا ہے وہ وحی حق کی روشنی میں بیان کرتا ہے

مگرا فسوس صد افسوس کہ پاکستان کے عوام و خواص نے نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو نہیں سمجھا ہمیں تو چاہئے تھا اس کلام کو خوب خوب پڑھتے اور پھر اس کے مطابق عمل بھی کرتے مگر ہمارے ایک طبقہ کے لوگوں نے تو اس حدیث کو پڑھا ہی نہ ہوگا اور جس دوسرے طبقہ (مولویان ومفتیان) کے لوگوں نے پڑھا ہو گا وہ دہرے نافرمان ہیں کیوں کہ نہ تو اس حدیث کو خود وہ سمجھے اور نہ وہ دوسروں لوگوں کی اس طرف راہنمائی ہی کر سکے ہو سکتا ہی کہ میرے اس بات سے بعض افراداتفاق نہ بھی کریں مگر مجھے تو حقیقت یوں ہی معلوم ہوتی ہے اور ہے بھی بڑی ہی تلخ حقیقت جب اس وقت امتِ مسلمہ کی اس حالت کو دیکھتے ہیں جو کہ اس ہے ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر لگ یوں رہا ہے کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ہماری اپنی زمیں ہے مگر محسوس یوں ہو رہا ہے کہ ہم کرایہ دار ہے۔ آخر اس کی کوئی تو وجہ ہو کبھی تو ہم کو رات کو سونے سے پہلے چند منٹ اس بات پہ غور کرنا چاہئے کہ آخر ایسا کیوں پوری دنیا میں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے خدا نے کیوں اپنی برکات کے دروازے ہمارے اوپر سے بند کر دئے ہیں جب ہم اپنی حالت کو دیکھتے ہیں تو پھر ہماری آنکھیں کھلتی ہیں اور بے اختیار دِل سے یہ آواز آتی ہے کہ ہم نادم پیارے آقا کے کلام کو سمجھ نہ سکے بلکہ جب یہ واقعہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو ہمارے منہ سے (مولوی کے خوف کی وجہ سے) سمجھے بغیرسوائے تعریفی کلمات کچھ نہ نکلا ہمارا پورے کا پورا نظام ہی آپ ﷺ کے اس قول کی نا فرمانی کر رہا ہے۔خواہ کوئی دنیاوی شعبہ ہو یا دینی شعبہ سب کا ایک سا ہی حال ہے۔

اس ملک میں جس کا پورا نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان بیان کیا جاتا ہے اور اسلام کی روح نبی کریم ﷺ کا وجود ہے اور آپ کی ہی تعلیمات پر ہی لوگ عمل پیرا نہیں ہیں۔اگر کوئی گاؤں کا بڑا ذمہ دار ہے تو وہ ہمیشہ اسی کوشش میں ملے گا کہ کس طرح میں اپنے گاؤں میں موجود غریبوں کا مال کھائے ۔اگر کوئی ایسا انسان ہے جسے کہ لوگوں کے وٹوں نے قابلِ عزت بنایا ہے تو وہ انہی کمزور لوگوں کا معاشی قتل کر رہا ہے۔ اگر کوئی جج ہے یا پولیس والا ہے یا کوئی ان جیسا اور ہے تو اس کے کام کو یہ فقرہ واضع کردیتا ہے وہ فقرہ یہ ہے کہ ’’قانون تو کمزور لوگوں کے لئے ہے‘‘ اگر کوئی دین کا ٹھیکے دار ہے تو اس کے تو کیا کہنے ہیں کہ اگر وہ سیاست میں ہے تو امریکہ کے ساتھ ہے اور مسجد میں امریکہ کے مخالف ہے اور اپنی روزی روٹی اس بات میں سمجھتا ہے کہ جو امیر ہے یا با اثر ہے اتنا ہی اس کے لئے فائدہ مند ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کہ منہ جب امریکہ کی طرف ہوتے ہیں تو بات کچھ اورہوتے ہیں اور جب ہماری طرف ہوتے ہیں تو اور ہوتے ہیں یعنی ہر میدان میں ہمارا دہرا معیار ہے جو قابلِ افسوس ہے اگر ہم لوگ ایسے ہیں کہ جو کمزور کی مدد کرنے کی بجائے طاقتور کے ساتھ ہیں تو اسی لئے خدا تعالی ٰ نے ہمارے لئے اپنی رحمت و برکت کے دروازے بند کر لئے ہیں۔

اسی لئے ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں مگر بھوکوں مر رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج پہ جاتے ہیں مگر اخلاقی حالتیں خدا معاف کرے وہ سائنس دان جس نے نوبل انعام حاصل کیا ڈاکٹر عبدالسلام تھا مگر ہم اس کی ناقدری کر بیٹھے اوراس وقت ہم اپنی توانائی کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پا رہے اور دنیا کو چاند پر پہنچے ہوئے بھی کئی دہائیاں ہونے کو ہیں اور تو اور اس وقت ہم دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں اوپری نمبروں میں آرہے ہیں۔

اگر تو ہم آج چاہتے ہیں کہ ہمارا بھی شمار ان لوگوں میں ہو کہ جو دین میں بھی کامیاب ہیں اور جن کی دنیا بھی کامیاب ہے تو ہمیشہ ہم سب کو اپنا نصب العین اس بات کو بنانا ہو گا کہ ہم ہر صورت میں غریبوں کے حامی ہوں اور ہر وقت ہم اس بات میں ہوں کہ جو بھی طاقتور غلط ہے اس سے کمزوروں کے حقوق ان کا لے کر ان کو دیں۔ ورنہ ہم پہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور برکات کے دروازے بند ہی رہے گے اور یہ سب ہماری ہی نالائقی کا اجر ہو گا جس طرح ہم حرمتِ رسول پر فداء ہوئے جاتے ہیں کاش کہ ہم ہدایتِ رسول پر بھی فداء ہوں۔
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 28100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.