پاکستان رینجرز (سندھ) کے ایک
اعلامیے کے مطابق ڈی جی رینجرز نے گذشتہ روز ایپکس کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں
بتایا تھا کہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی جانے والی کروڑوں روپوں کو
مختلف گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔لیڈ مافیا میں سیاسی جماعتیں
، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایڈ منسٹریشن ، کنسٹرکشن کمپنیاں ، اسٹیٹ ایجنٹ اور
پولیس اہلکار شامل ہیں۔ نام لئے بغیر رینجرز نے کراچی کی ایک بڑی سیاسی
جماعت کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ دیگر سیاسی لیڈران اور بلڈرز بھی اس
مکروہ دھندے میں شامل ہیں۔مختلف غیر قانونی طریقوں سے جبری وصولی کا تخمینہ
تقریباََ 230بلین سالانہ بتایا گیا۔ابھی ان انکشافات پر تبصرے جاری تھے کہ
گھر کے بھیدی وزیر اعلی سندھ کی انسپکشن ٹیم کے کو آرڈی نیٹر حاجی مظفر
شجرہ نے لنکا ڈھاتے ہوئے کہا کہ محکمہ خزانہ سمیت 18محکموں میں کرپشن اور
خلاف ضابطہ بھرتیاں بھی ہو رہی ہے۔ ان کی جانب سے مہیا تفصیلات پوری ایک
کرپشن کی داستان ہے لیکن ایک معاملے کا ذکر ضرور کروں گا جس میں انھوں نے
بتایا کہ محکمہ داخلہ کے افسران نے ’ وائٹو‘ لگا کر 20کروڑ روپے سے زائد کی
کرپشن کی ، 284انکوئریز پر کاروائی کی جارہی ہے ، اب تک 18کروڑ واپس کئے
جاچکے ہیں۔جبکہ ’ ایک روپیہ ‘ فیس وصول کرکے سپریم کورٹ میں پی پی پی کاکیس
لڑنے والے اعتزاز احسن ( سب جانتے ہیں کہ یہ کیس کون سا تھا جس میں ایک
وزیر اعظم کو تاریخی سزا سنا کر اس لئے فارغ کردیا گیا کیونکہ انھوں نے
کرپشن کے ایک بہت بڑے کیس کو ری اوپن کرنے کیلئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا
تھا)بے فکر ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ" ہمیں تو کوئی پریشانی نہیں ۔ سندھ
میں230ارب روپے کی کرپشن کے اعداد و شمار کس طرح پیش کئے گئے ؟۔بھتہ خوری ،
چئنا کٹنگ کے معاملات مشروف دور کی پیداوار ہیں، زکوۃ ، فطرے اور کھالوں سے
اپنے تعلق کی نفی کرتے ہیں"۔ رینجرز نے اس سے قبل بھی واٹر گولڈ مافیا کی
جانب سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی غیر قانونی آمدنی کے استعمال کیلئے اسی
طرح کا ایک بیان جاری کرچکی تھی جب واٹر گولڈ مافیا کے حوالے سے ذرائع
ابلاغ میں تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ ریونیو اوسطاََ
صرف پچاس سے باون لاکھ روپے ہے جبکہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سالانہ آمدنی
50ارب روپے کا پانی فروخت کرتی ہے۔
کراچی کا مجموعی رقبہ 3,336کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے ، 18قصبات ، 6عدد
کنٹونمنٹ اور دیگر ایجنسیوں میں منقسم ہے ، شہری علاقے 1800مربع کلو میٹر
پر مشتمل ہے۔کراچی 60سے 70فیصد پاکستان کی معیشت میں اقتصادی اور مالی
سرگرمیوں کا حصہ دار بھی ہے۔کراچی قومی GDPکا پندرہ فیصد بھی مہیا کرتا
ہے۔مینو فیکچرنگ سیکٹر میں42فیصد اور وفاقی حکومت کا کل25 فیصد محصول بھی
کراچی ادا کرتا ہے۔ شرح پیدائش ملکی شرح 3.0 فیصد جبکہ کراچی میں شرح
پیدائش سالانہ4.8 فیصد جبکہ کراچی کی آبادی میں بڑھتی ہوئی شرح ایک اندازے
کے مطابق 35ہزار خاندان یا 02لاکھ افراد کی ہر سال اس عروس البلا میں باہر
سے آکر آباد ہونا بھی ہے ۔ جس میں افغان ، برمی، بنگالی، سمیت دیگر قومیتوں
کے افراد شامل ہیں۔کراچی میں بڑھتی آبادی کی اہم وجوہات مہاجرین ہیں ۔ جس
کی پہلی لہر 1940-50ء میں بھارت سے آنے والوں کی شکل میں آئی ، ویزہ
پابندیوں کی وجہ سے اردو بولنے والے اپنے رشتے داروں سے کٹ گئے ، 1960-80
میں پنجابی اور پختون آئے جنھوں نے اپنے رشتے داروں سے تعلق قائم رکھا۔
1970-90ء میں سندھی قوم پرست ممتاز بھٹو کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر
روزگار ، سرکاری زبان اور سندھی نیشنلزازم اور پی پی پی کا عروج تھا جس کی
وجہ سے سندھیوں کو کراچی میں آنے کی ترغیب ملی۔ ہجرت کے چوتھے مرحلے میں
غیر ملکیوں کی بشمول افغان، عراق( کُرد)،ایران (بہائی) سری لنکا(تامل)
1979-90کی دہائیوں میں سیاسی پناہ گزینوں کا ریلہ آیا، حالانکہ اقوام متحدہ
کے بلوچستان اور صوبہ سرحد ( خیبر پختونخوا) کے کیمپوں سے باہر جانے کی
اجازت نہ تھی لیکن کرپشن کی وجہ سے انھوں نے پاکستانی شہریت حاصل کرنا شروع
کردی ، یہیں مختلف مسائل کے ساتھ ساتھ جرائم نے بھی جنم لیا اور ایک تحقیقی
اندازے کے مطابق کراچی میں تقریباََ 200سے زائد گینگ متحرک ہیں۔10جون 2004ء
میں کور کمانڈر کے فوجی کانوائے پر حملے کے تین روز بعد جب سات دہشت گرد
پکڑے گئے تو پہلی بار " جندولہ"نامی تنظیم منظر عام پر آئی 2003ء میں جماعت
المسلمین سے نکالے گئے عطا الرحمن نے قیادت سنبھالی گرفتاری کے بعد قسم
طوری اس کا منتظم بنا۔ بعدازاں مختلف مذہبی تنظیموں نے مسلح گروپ بنا لئے
اور خود کو منظم کرنے کیساتھ ساتھ بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں کیلئے
فنڈنگ اور کراچی کو اہم لیڈران کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کئے جانے
لگا۔یہ معاملات کراچی سے باہر اندرون سندھ بھی پھیلنے لگے ۔2009ء میں حساس
اداروں نے سیاسی جماعتوں کو آگاہ کردیا تھا کہ عسکریت پسند کراچی میں اپنا
اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، خاص طور پر ایم کیو ایم ، پی پی پی
اور اے این پی اس بات سے مکمل آگاہ ہوچکی تھیں کہ کراچی میں اب صوبائیت ،
لسانیت کے بعد فرقہ واریت اور مذہب ( مسلم مکاتب فکر) کی ایک نئی عالمی جنگ
شروع ہونے والی ہے اور اس کیلئے بھی کراچی ہی فنڈمہیا کرنے کا اہم مالی
ذریعہ ہے۔کراچی کا کوئی بھی گینک ہو ، لیاری گینگ ہو ، کراچی گینگ ہو ، ڈی
گینگ ( سی ڈینز کی غیر قانونی ریکارڈنگ کرنے والا گینگ) ہو ، غرض یہ ہے کہ
جرائم پیشہ افراد نے سیاسی جماعتوں کی چھتری جہاں استعمال کی تو دوسری جانب
سیاسی جماعتوں میں لیڈر بننے کی خواہش رکھنے والوں نے ایسے افراد کو
استعمال کرنا شروع کیا جو کسی بھی طریقے و کسی بھی قیمت پر جلد از جلد امیر
، بن کر غریبی مٹانا چاہتے تھے ، تو کچھ مذہب کے نام پر اپنے اپنے بنائے
گئے فلسفے کا نفاذ چاہتے تھے ، کراچی میں معاشی قبضے کی اس جنگ میں امن کی
کنجی کس پاس ہے، یہ کبھی طے نہیں کیا جا سکا ، لیکن عوام اورقانون نافذ
کرنے والے ادارے اس نتیجے پر ضرور پہنچ چکے تھے کہ جب تک بڑی مچھلیوں پر
ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا اس وقت تک کراچی میں امن کا قیام ممکن نہیں
ہے۔کراچی کا کالا بجٹ کا تخمینہ 230ارب ہے یعنی یومیہ63کروڑ روپے ، جبکہ اس
سے قبل ایک غیر سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کی عوام
سے 83کروڑ روپے یومیہ جبری وصول کیا جاتا ہے۔کون کتنا لیتا ہے کون کون سا
ادارہ اس میں ملوث ہے ، یہ سب بتانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ پبلک سب جانتی
ہے۔ واٹر گولڈ مافیا کے خلاف جب رینجرز نے کاروائی کی کہ کالعدم جماعتوں کو
فنڈنگ کی جاتی ہے تو سب نے اس کو سراہا۔ لیکن جب ساڑھے 14ارب کے 1200پلاٹوں
کی چائنا کٹنگ کے الزام کے تحت لائنز ایریا پراجیکٹ کے پانچ افسران گرفتار
کئے گئے اور سوک سینٹر میں قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے سے
تعمیرات اور نقشوں کی منظوری سے متعلق رخصت پر گئے ڈی جی منظور قادر کے
بارے بھی معلومات کیلئے رینجرز نے پوچھ گچھ شروع کی تو پی پی پی کے شریک
چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمانہ پالیسی کے برعکس ایک حیرت انگیز
بیان دے ڈالا کہ کہ "ہمیں تنگ مت کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے ، میں نے
فہرست بنائی تو کئی جرنیلوں کے نام آئیں گے"۔جیل کے گرم پانی کے ذکر میں
انھوں نے کئی سیاست دانوں سمیت سابق فوجی چیف کو بھی تنقید کا نشانہ
بنایا۔اب بلاول زرداری کو اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن لیڈر کو سندھ کا وزیر
اعلی بنائے جانے کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں ہیں۔غرض یہ ہے کہ ایک نیا
پنڈورا بکس کھل گیا اور عوام یہ تمام تماشہ رمضان سے قبل دیکھنے لگے ۔ ویسے
بھی کہا جاتا کہ رمضان المبارک میں شیطان قید کردئیے جاتے ہیں ، کچھ نے کہا
کہ گیارہ مہنیوں کی مشقت کے بعد ایک ماہ کی رخصت پر چلے جاتے ہیں تو کسی نے
کہا کہ بڑے بڑے شیاطین الیکڑونک میڈیا میں جمع کردیئے جاتے ہیں۔لیکن ایک
بات طے ہے کہ مفاہمت کے بے تاج بادشاہ کی جانب سے انتہائی متنازعہ بیان آنے
کے بعد ایک بات واضح ضرور ہوگئی ہے کہ ماضی میں ایوان صدر میں اپنی خواب
گاہ میں مسلح ہوکر بیٹھنے والے سابق صدر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے یا پھر
پی پی پی اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے سیاسی شہید بننے کیلئے بلاول
زرداری کے کندھے استعمال کرنا چاہتی ہے ، کیونکہ بلاول زرداری اپنے تند و
تیز بیانات سے پی پی پی کارکنان میں کافی مقبول ہیں ، یا پھر ذوالفقار مرزا
سے محاذ آرائی اور پھر عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد اس کے اعترافی بیانات
سے ممکنہ پیدا شدہ صورتحال کیلئے فصیل اور نئی جنگ کیلئے نئے ہتھیار ہیں۔ |