ثقافتی سیاست کا یوگ دوس اور ہمارا ماہ رمضان

وزیراعظم نریندرمودی نے آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹرکیشوبالی رام ہیڈ گوائر کے یوم وفات 21جون (1940) کو بڑی چابک دستی سے قومی جشن میں تبدیل کردیا۔پورے ملک میں اہتمام کیا گیا کہ اجتماعی طور سے لوگ یوگ آسن کریں جس پر کروڑوں خرچ ہوئے۔

طبی نقطہ نظر سے یوگ آسن ہلکی پھلکی ورزش ہے۔ انگریزی میں اسے'Stretch Exercise' کہا جاتا ہے۔ اسی کی ایک تیزطرارقسم وہ ہے جس کو ’ایکروبیٹ‘ (Acrobats) کہتے ہیں۔ چین اورکوریا وغیرہ میں یہ ایک خاص فن ہے۔ لڑکے اورلڑکیاں وہ وہ کرتب دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا ششدررہ جائے۔
ہلکے پھلکے یوگ آسنوں سے جسم کھل جاتا ہے ۔ چستی پھرتی پیدا ہوتی ہے۔ دوران خون اورتنفس بہتر ہوتا ہے۔تمام اعصاب پراوراعضائے رئیسہ دل ودماغ وغیرہ پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔ معمرافراد کے لئے جسم کو چست و درست رکھنے کا یہ آسان اور کفائتی طریقہ ہے۔ چہل قدمی کوبھی اس کا ایک حصہ سمجھا جاتاہے۔لیکن سبھی یوگ آسن آسان نہیں ہوتے۔ کچھ بہت مشکل ہوتے ہیں۔ہرکسی کو ان کو نہیں کرنا چاہئے۔ استاد کے بغیر ہرگز نہیں۔جو لوگ مشکل یوگ آسنوں کی مشاق ہوتے ہیں ان کوعرف عام میں یوگی یا جوگی کہا جاتا تھا۔

یوگ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ ویدوں میں ، جن میں آسمانی صحائف کی تعلیمات کی جھلک صاف نظرآتی ہے، یوگ کی تلقین کی گئی ہے۔ہندو اوربودھ یوگی، یوگ میں دھیان بھی شامل کرلیتے ہیں جس سے یہ تزکیہ نفس اورخداسے لو لگانے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ یوگی کے جسم وجان اورآتما سب مشغول ہوجاتی ہیں۔ یوں تو یوگ لوگ ہمیشہ ہی کرتے رہے مگر زمانہ قدیم میں یوگیوں یا جوگیوں کا وصف خصوصی ترک دنیا رہا ہے۔یوگی دورپہاڑوں میں چلے جاتے اور کٹیا ڈال کر پڑ رہتے تھے۔وہیں یوگ اوردھیان کی مشق کرتے ۔ان کا دنیا داری سے اورخودغرضی سے کچھ سروکار نہیں ہوتا تھا۔ ہر جاندار کی سیوا ان کا دھرم تھا۔ لیکن اب سب الٹا پلٹا ہوگیا ہے۔ جوگی جوگی نہ رہے ، ڈھونگی بن گئے اورلوگوں کو مشورہ دیتے ہیں سمندر میں جا کودو، حالانکہ یوگی وہ ہوتا تھا جو بچھو جیسے موذی جانورکو بھی مارنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ اب جابجا یوگ آشرم کھل گئے ہیں جویوگ کانام لے کر دولت اور شہرت کمانے کے اڈے ہیں۔ انہی اڈوں سے سیاست ہوررہی ہے۔ لیکن سیاسی حربہ کے طور پر یوگ دوس اس کا پہلا تجربہ ہے۔
جو ہندو یا بودھ یوگی آسن لگاکر دھیان اوریوگ میں مشغول ہوتے ،وہ ساتھ میں کچھ مذہبی کلمات اور اشلوک وغیرہ بھی پڑھتے ہیں۔دھیان کے آغاز میں اوریوگ کے بعض آسنوں کے ساتھ، جب سانس باہرنکالا جاتا ہے کلمہ ’اوم‘ بولا جاتا ہے۔بعض اہل علم کی رائے یہ ہے یہ کلمہ شرک سے پاک ہے اوراسی طرح توحیدی اسم ہے جس طرح اﷲ ہے۔ بعض کی تو رائے ہے کہ صرف ’اﷲ‘ اور’اوم ‘ کے علاوہ جتنے اسم خداکے لئے مستعمل ہیں، جیسے ایشور،بھگوان، گاڈ وغیرہ ان میں شرک کا پہلو ہے۔ ایشور کے ساتھ پرمیشورجڑا ہوا ہے۔ اگر ایشور اﷲ کا قائم مقام ہے تو پھر اس سے بڑا ’پرم ایشور‘ یا ’پرمیشور‘کیا ہے؟ہر بڑی ہستی بھگوان کا درجہ پالیتی ہے۔ گاڈ کے ساتھ بھی تثلیت کا تصور شامل ہوگیا ہے۔وغیرہ۔ مگر یہ سب نکتہ آفرینیاں اس سیاسی فکر سے جدا ہیں جو ’یوگ دوس‘ کا محرک بنی۔

سمجھا جاتا ہے کہ یوگ دوس نریندرمودی کے دماغ کی اختراع ہے۔ ان کی نیت کیا تھی، یہ توہم نہیں کہہ سکتے البتہ ان کی دوشناخت بہت نمایاں ہیں۔ وہ نظریاتی اعتبار سے آرایس ایس کے بہترین ترجمان ہیں اور ساتھ ہی سیاست میں بھی مشاق ہیں۔ اس لئے برہمنی ثقافتی بالادستی کا حصول ، جو آرایس ایس برپا کرنا چاہتی ہے، ان کے لئے ایک اہم فریضہ قرار پاتا ہے۔ کہا یہ گیا تھا کہ یوگ دوس خالصتاً غیرمذہبی نوعیت کا ہوگا۔اس موقع پر اپنی تقریر میں بھی وزیراعظم نے جوڑ کی باتیں کہیں بھی اوریوگ دوس سے ان سب اپنی ہی پارٹی کے بدزبان، بدکلام اورزہرزبان لیڈروں کو دوررکھا۔ لیکن ان کی تقریر کے بعد جب مشقیں شروع ہوئیں تو ان میں جوڑ کے بجائے توڑ اور ایک طرفہ برہمنی ثقافتی رنگ نمایاں نظرآیا۔آغاز ’اوم‘کے اچارن اور وید کے اشلوکوں سے ہوا۔ مفتی شمعون جیسے گنتی کے چند مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی جتنے لوگ اس میں شریک تھے، یقینا یہ مظاہرہ ان کے لئے اطمینان بخش رہا ہوگا کہ ان میں غالب اکثریت بھاجپا کے ہم نواؤں کی تھی۔ چنانچہ ہندودھارمک اشلوکوں کے اچارن سے ان کوانقباض پیدا نہیں ہوا ہوگابلکہ آسودگی حاصل ہوئی ہوگی۔ اسی لئے کئی اپوزیشن پارٹیوں نے ، جن میں بائیں بازو کی پارٹیاں اور مایاوتی کی پارٹی شامل ہیں، اس کی مخالفت میں آواز بلند کی ہے۔

ہمار ے لئے یہ بات ہرگز قابل اعتراض نہیں ہوسکتی اگرہمارے ہندو بھائی (اور ان کے ساتھ مفتی شمعون وغیرہ ) یوگ کو مذہبی مراسم کے ساتھ اداکریں۔مفتی شمعون کہتے ہیں کہ انہوں نے اوم کے بجائے اﷲ کہا۔ ہمیں اس پر کوئی پریشانی نہیں۔ لیکن دِقت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک مخصوص مذہب کے مراسم کو قومی رنگ دیا جائے اوربھاجپا لیڈر رام مادھو جیسے لوگ یہ سوال کریں کہ حامد انصاری کیوں شریک نہیں ہوئے؟ غنیمت ہے انہوں یہ سوال نہیں کیا کہ مساجد کے ائمہ کیوں غیرحاضر رہے؟ یوگ دوس کوایک سرکاری پروگرام کے طور پر منایا گیاحالانکہ اس کا مقصد صرف فروغ صحت نہیں تھا۔ لیکن کسی بھی حال اس کو قومی وفاداری کا پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ رام مادھو جیسے لوگوں کویہ حق نہیں کہ وہ حامدانصاری یا کسی اور شہری کی قوم پرستی پر سوال کھڑا کریں۔ وہ جس ایک طرفہ قوم پرستی کے علم بردارہیں ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔

جہاں تک حامد انصاری صاحب کا تعلق ہے، ہرچند کہ ان کا سلسلۂ نسب مشہورصحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری ؓسے ملتا ہے ،جن کو شوق شہادت معمرہونے کے باوجود قسطنطنیہ کے محاذ پر لے گیا ، وہیں آپ کی وفات ہوئی ۔شہرپناہ سے باہر ان کا مدفن آج مرجع خلائق ہے۔حامدانصاری صاحب اسی نسبت سے انصاری ہیں۔ وہ جب ترکی تشریف لے گئے اوراپنے جد کے مزار پر حاضری دی تو اس کو یہاں بعض فرقہ پرستو نے اشو بنایا تھا۔ بہرحال اگر پروٹو کول اجازت دیتا اور حامد صاحب کو مدعو کیا جاتا تو گمان غالب یہی ہے کہ وہ انکار نہیں کرتے۔ اگر جن پتھ کے ساتھ ساتھ راشٹرپتی بھون میں بھی ایسی کوئی تقریب ہوتی، اوراس میں صدرجمہوریہ خاص شریک ہوتے تواس میں شک کی کم گنجائش ہے کہ نائب صدر معہ اہلیہ محترمہ اس میں شریک نہ ہوتے۔(اس میں توجناب شکیل احمداور م افضل بھی چلے جاتے۔ )حامد صاحب سیاست داں سے زیادہ ڈپلومیٹ ہیں اورپروٹوکال کو رام مادھو سے زیادہ جانتے اوراس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ بات رام مادھو بھی جانتے ہیں ۔ لیکن ان کے ٹوئیٹ نے آر ایس ایس کے اس ایجنڈے کو پوراکردیا جس کو پورا کرنااورہندتووا کا رنگ دینا ا وزیراعظم کے لئے ممکن نہیں تھا۔

ہرچند کہ مسلم پرسنل بورڈ نے یوگ دوس کے بارے میں اپنی تشویشات کا اظہار پہلے ہی کردیا تھا اوران کے نو نامزد سیاسی سپہ سالار نے ایک گشتی خط کے ذریعہ ’برہمنی یلغار‘ کے خلاف ہلہ بھی بول دیا تھا،مگراس دوس کو اصل فرقہ ورانہ گول بندی کا رنگ رام مادھو کے دولائنوں والے ٹوئیٹ نے ہی دیا۔ لکھا ہے: ’راجیہ سبھا ٹی وی سرکاری پیسہ سے چلتا ہے، لیکن اس نے یوگاڈے کا پوری طرح بلیک آؤٹ کیا۔ جب کہ صدرجمہوریہ شریک ہوئے نائب صدر کیوں نہیں ہوئے؟‘

آرایس ایس کے سابق ترجمان اوربھاجپا کے موجودہ جنرل سیکریٹری کے اس بیا ن کا ہر نکتہ غلط بیانی کا شاہ کار ہے۔ مسٹر رام مادھو ایک ذمہ دار شخص ہیں۔ ان کے ذرائع معلومات محدود نہیں ۔ لاعلمی کا بہانا ہتھیار ہے۔ ٹوئیٹ میں جو کچھ کہا گیا، جس کے لئے بعد میں معذرت کرلی گئی، وہ اتفاق نہیں بلکہ اس ذہنی فتور کا اظہارہے جس میں سنگھیوں کو کمال حاصل ہے۔ غلط بیانی اورافواہیں ان کے اہم ہتھیار ہیں۔ اگرچہ را م مادھو نے معذرت بھی کرلی اورٹوئیٹ بھی ڈلیٹ کردئے، مگر سوشل میڈیا پراس کی بدولت جوفرقہ ورانہ یلغار مسلمانان ہند پر ہوئی وہ اپنا کام کرگئی۔ آرایس ایس کے سابق ترجمان نے وہ مقصدپورا کردیا جو اس دوس کے پس پشت نظرآتا تھا۔

ہمارا یوگ اعظم
یوگ کا مقصد اگرتزکیہ نفس اوراس کے ساتھ کچھ جسمانی کسرت ہے تو الحمدُﷲ ہم مسلمان اس میں پیچھے نہیں ہیں۔ جس دن دہلی میں آدھے گھنٹہ کا یوگ مظاہرہ ہوا، جس میں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق کوئی 36ہزار افراد نے شرکت کی، اسی رات کو دہلی میں کوئی دس لاکھ مسلمانوں نے مختلف مساجد میں ایک گھنٹہ سے زیادہ کھڑے ہوکر نمارعشاء اور تراویح کی کم از کم 27رکعت اداکیں۔یہ طویل اسلامی عبادت تزکیہ نفس، اپنے رب حقیقی سے قرب، نبی کی سنت پر عمل اور دن بھر روزہ کی مشقت کے بعد طویل جسمانی محنت کا عجیب وغریب عمل ہے جس کی کوئی مثال کسی کلچر میں نہیں ملتی۔ اس پرشیخ محمدابراہیم ذوقؔ کا ایک شعریادآگیا:
نہ ہوا، پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

پورے دہلی کی تو ہم کیا بات کریں، صرف جامعہ نگر کے علاقے میں (جس کواوکھلا بھی کہا جاتا ہے) مختلف مساجد میں پہلے رمضان کو35، 36 ہزار فرزندان توحید نے دوپہر کو نماز جمعہ اورات کوتراویح میں شرکت کی۔یہی صورت ملک بھر میں رہی۔ ایک کروڑ اسی لاکھ کی مسلم آبادی میں نوے لاکھ مرد ہیں ان میں سے کچھ نہیں تو ساٹھ ستر لاکھ ضرور مساجد میں حاضررہے ہونگے اوروہ خواتین بھی اتنی ہی ہونگیں جنہوں نے گھروں پر نماز پڑھی۔

شور یہ اٹھا ہے کہ اس یوگ دوس نے گنیز بک آف ریکارڈ س میں جگہ پالی۔ ہاں یوگ کرنے والوں کی یہ تعداد توواقعی ایسی ہی رہی ہوگی۔ورنہ یوگ تو اکیلے میں کرنے کی چیز ہے۔ اس ریکارڈ مظاہرے سے ایک ہی دن پہلے اخباروں میں یہ خبربھی آئی حرم مکہ میں 15لاکھ افراد نے نمازجمعہ ادا کی۔ دنیا بھر سے لوگ زرکثیر خرچ کرکے وہاں تشریف لاتے ہیں۔ حرم کعبہ کا حد نظرتک پھیلا ہوا احاطہ ہی نہیں بلکہ آس پاس سڑکوں، بازاروں اورہوٹلوں میں بھی کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں مصلا بچھا ہوا نہ ہو۔لوگ فجر کے بعد سے آکر بیٹھ گئے تھے اورذکروتسبیح میں مشغول رہے۔ گنیز بک کے عملے کو یہ منظر نظرہی نہیں آیا۔ اسی جمعہ کی نماز میں بیت المقدس میں اسرائیلوں کی ہزارعیاریوں اوررکاوٹوں کے باوجود دولاکھ سے زیادہ افراد نے سنگینوں کے سائے میں نماز جمعہ اداکی، جس میں غرب اردن کے مختلف شہروں سے ہی کوئی سوالاکھ افراد شریک تھے۔ حالیہ اسرائلی سفاکی میں تباہ غزہ پٹی سے بھی ہزاروں افرادآئے تھے۔ اگر نوجوانوں کوآنے کی اجازت ہوتی تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ۔ (اسرائیلی جابرحکام چالیس سال سے کم عمرکے افراد کو مسجد اقصیٰ کے کمپلکس میں داخل نہیں ہونے دیتے)

ان روح پرور مناظر کا کوئی مقابلہ کیا راج پتھ کے مظاہرہ سے ممکن ہے؟ کتنی کوشس کے بعد کہاں 36ہزار، اورکہاں بغیر کسی مہم کے لاکھوں کا اجتماع۔35ہزار سے زیادہ توعلاقائی تبلیغی اجتماعات میں جمع ہوجاتے ہیں ۔ بے اختیارزبان پرآتا ہے، اﷲ اکبر، سبحان اﷲ، الحمدُﷲ، استغفراﷲ۔

اس تذکرہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانان ہند کو احساس محرومی یا کمتری میں مبتلا کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام کرنے لئے مستعد رہنا چاہئے۔اس کا نسخہ قرآن نے بتادیا ہے۔ اﷲ نے اپنے حبیب سے کہا ہے:’ جب اپنے منصبی کاموں سے فراغت پاؤ تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجایا کرو‘۔(الم نشرح) اسی سورۃ مبارکہ میں یہ خوش خبری بھی ہے کہ ہرمشکل کے بعدآسانی آتی ہے۔ ظاہر ہے یہ آسانی اسی وقت آئیگی جب ہم اپنے اس منصبی فریضہ پر متوجہ رہیں گے جواﷲ نے ہم پر ’خیرامت‘ کے طورپرعائد کیا ہے۔ خیرامت ہونے کے ناطے ہمارافرض یہ ہے کہ ہم صرف اپنے ہی مفادات کی آواز نہ اٹھائیں،بلکہ ناانصافیوں کے مارے دبے کچلے تمام انسانوں کے مربی و محسن بن کرکھڑے ہوں۔ اس کالم کے آغاز میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نونامزد سیاسی سپہ سالار کے ایک خط کا ذکر آیا ہے جس کی خبرسب سے پہلے ایک انگریزی اخبار میں نظرآئی۔اس خبر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقصود یہ ہے کہ 18 فیصد مسلمانان ہند کو82فیصد دیگر اقوام کے خلاف لام بندکیا جائے۔ خدا کرے اخبار کی رپورٹ غلط ہو اورامت مسلمہ ایک طالع آزمالیڈر کی نادانی کی زدسے محفوظ رہے۔

مسلم مجلس مشاورت
صدرمسلم مجلس مشارٹ ڈاکٹرظفرالاسلام خاں کے ایک مکتوب میں اطلاع دی گئی ہے مشاورت کے قیام کی پچاس سالہ تقریب اب 31؍ اگست کو دہلی میں انڈیااسلامک کلچرل سنٹر، لودھی روڈ(نزد نظام الدین) میں منعقد ہوگی ۔ تقریب کا آغاز صبح ۱۱ ؍بجے ہوگا ۔ نائب صدرجمہوریہ جناب حامدانصاری افتتاحی اجلاس میں شریک ہونگے۔ یہ ایک روزہ تقریب اس اعتبا ر سے اہم ہوگی کہ اس میں ہندستان کی پچاس سالہ ملی تاریخ پر روشنی ڈالی جائیگی اورآئندہ کے لئے لائحہ عمل بھی زیرغورآئیگا۔ صدرمشاورت نے تمام موجودہ اورسابقہ ممبران اورمعاونین مشاورت اورملی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کو اس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔مشاورت بیرونی مہمانوں کو قیام کی سہولت کا بندوبست بھی کررہی ہے ۔ اس موقع پر ایک نوجوان صحافی محمد علم اﷲ کی مرتبہ ایک دستاویز ’مسلم مجلس مشاورت کی مختصرتاریخ ‘ بھی توقع ہے، منظرعام پر آئیگی۔

آخری بات:
ماہ رمضان کا مبارک ایام میں اپنی دعاؤں میں ہم جیسے ناتوانوں کو بھی یادرکھئے ۔ اپنے تزکیہ نفس پر خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ قرآن نے اس کا نسخہ یہ بتایا ہے ، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اورضرورت مندوں کی مدد کی جائے۔ (سورہ والفجر)

ضرورتمندوں کی مدد میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ اپنے کردار، قول و فعل اورکاروبار میں ایسی روش اختیار کریں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک باعمل مسلمان کے شایان شان ہوں تاکہ برادران وطن میں جو غلط فہمیاں ہماری غلط روش کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں، وہ رفع ہوں۔ یہ ان کا ہم پر حق بھی ہے کہ ہم ان تک دین کوصحیح صورت میں پہنچاسکیں۔ اس کی شعوری کوشش ہوتی رہیگی تو یہ باتیں لاشعور میں بس جائیں گیں اورانشاء اﷲ ہمیں اس گروہ میں شامل کرادیں گی جن کو اﷲ پکار کر کہے گا: تو مجھ سے راضی ہوا، میں تجھ سے راضی ہوا، آ، میرے عابد بندوں میں شامل ہوجا اورمیری جنت میں داخل ہوجا۔‘ (الفجر) جزاک اﷲ خیرا۔

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.