آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہندو
مسلم اتحا دکے پیامبر کا خطاب ملنے والے شخص نے مسلم قومیت کا نعرہ لگایا
اور برصغیر کی تقسیم کا علمبردار بن گیا ۔ ان سے قبل کیوں سرسید نے یہ واضع
کردیا کہ ابہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ سارے جہاں سے اچھا
ہندوستاں ہمارا اور خاک وطنکے ہر ذرہ کو دیوتا کہنے والا اقبال کیوں مسلم
ہیں وطن ہیں سارا جہاں ہمارا اور وطنیت کو تازہ خدا کہنے پر مجبور ہوا۔ یہ
سوالات ذہن میں اس لیے بھی ابھرے کہ حالیہ دنوں میں بھارتی قیادت کے بیانات
اور رویہ نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایک طرف اُن کا طرز عمل ہے اور
دوسری طرف خود ہمارے کچھ لوگ یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھارت سے خطرہ
ہی کیا ہے اور ساتھ امن کی آشا بھی کا بھی چرچا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ
امن اور سلامتی اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک انصاف نہ ہو اور فریق
ثانی کو برابر کامقام نہ دیا جائے۔ظلم رہے اور امن بھی ہو یہ ممکن نہیں
ہوسکتا۔جب تک دوسروں کو اپنا مطیع بنائے رکھنے ،علاقائی چوہدراہٹ اور نا
انصافی کی پالیسی ترک نہ کیا جائے امن کی آشا صرف سوچ کی حد تک رہتی ہے۔
دراصل قیام پاکستان کے بعد پید ا ہونے والی نوجوان نسل کو معلوم ہی نہیں کہ
ہندو ہے کیا اور ہندو ذہنیت ہوتی کیا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ان کا پالا جو
نہیں پڑا۔ہندوؤں کی ساری تاریخ میں صرف ایک سیاسی فلاسفر پیدا ہوا ہے جس کا
نام ہے چانکیہ اور اس کا لقب ہے کوٹلیا جس کے معنی مکار اور فریب کار خود
وضاحت کررہے ہیں مزید تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں۔چانکیہ نے اصول سیاست پر
سنسکرت میں ایک کتاب لکھی جس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔اپنی کتاب
میں چانکیہ نے جو اصول سیاست دئیے ہیں اس کے مطابق ہمسایہ ریاستوں سے دشمن
کا سا سلوک روا رکھا جائے دوستی خود غرضی پر مبنی ہو دل میں ہمیشہ رقابت کی
آگ مشتعل رکھی جائے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ
پائے۔امن کے قیام کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں
اس پر مجبور کیوں نہ کردے۔ مجھے بھارتی قیادت کے بیانات اور طرز عمل سے
کوئی حیرانی نہیں اپنے روحانی باپ چانکیہ کی تعلیمات عمل پیرا ہوہے۔
چانکیہ کے ان نظریات کو گاندھی جی نے مذہب کا لبا دہ اوڑھ کر جاری
رکھا۔انہیں سچائی کا مجسمہ اور عدم تشدد کا پرستار کہہ کر پکارا جاتا ہے
مگر قائد اعظم محمد علی جناح جن کا دن رات گاندھی سے واسطہ رہتا ہے ایک
مختصر بیان میں ساری حقیقت بیان کردی کہ ،مشکل یہ ہے کہ گاندھی جی کا مقصد
وہ نہیں ہوتا جو وہ زبان سے کہتے ہیں اور جو ان کا در حقیقت مقصد ہوتا ہے
اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔قائد اعظم نے ایک موقع پر گاندھی کے بارے میں
کہا کہ وہ گر گٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔اسی پالیسی پر نہرو کاربند
تھے کہ جسے ختم کرنا پہلے اس کے ساتھ دوستی کرو ،گلے مل کر اسے چھرا گھونپ
دو اور پھر اس پر بین کرو اور رورہ کر اپنی ہمدردی جتاؤ۔یہ اس محاورے کی
عملی تفسیر ہے جو ہندوؤں کے لئے مشہور ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام۔
ہندو قیادت کے طرز عمل کی وجہ سے کہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور وطن پرست
سرسید احمد خان،علامہ اقبال ،قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر مسلم
اکابرین دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کرنے پر مجبور
ہوگئے۔مطالعہ تاریخ سے عیاں ہے وجہ صرف ایک ہی ہندو ذہنیت تھی اگر ہندو
رواداری کا مظاہرہ کرتا اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دینے سے گریزاں نہ
ہوتا تو پاکستان کبھی بھی معروض وجود میں نہ آتا۔مسلمانوں کو دوبارہ ہندو
بنانے کے لئے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں کے جلسوں میں اسلام مخالف اشتعال
انگیز تقریرں اور نعرے لگتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ
اٹھا اپنا تو ملامصلی یہ بلٹی عرب کو پہنچانی پڑے گی
جہاں ہے کعبہ ہوگا شیوجی کا مندر اسلام کی ہستی مٹانی پڑے گی
یہ ہے ہندو ذہنیت کا اصل چہرہ۔ موجودبھارتی قیادت نے اعلان کیا تھا کہ
اقتدار میں آکر تین ہزارمساجد جو بقول ان کے مندروں پر بنی ہیں مسمار کرکے
ان پر مندر تعمیر ہوں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کو کس کے
ایماء پر قتل کیا گیا۔ تاریخ اس پر بھی شاہد ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان
سے قبل ہی ہندوؤں نے آسام اور بنگال میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا
جوپورے ہندوستان میں پھیل گیا۔آزادی کے بعد بھی بھارت میں اب تک ہزاروں
مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں لیکن آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔مسلم کش
فسادات کے لئے ہندوؤں کا حربہ یہ ہوتا ہے کہ خود ہی کسی ہندو جلوس یا مندر
پر معمولی سا حملہ کرکے الزام مسلمانوں پر عائد کردیا جاتا ہے اور پھر
مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجاتا ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس پر اسی حکمت عملی کے
تحت خود آگ لگائی اور سزا مسلمانوں کو دی۔بھارت کا کون ساایسا علاقہ ہے
جہاں خون ِمسلم آبیاری نہیں ہوئی۔گجرات،احمد آباد،بھوانڈی ،اور ہر وہ شہر
جہاں مسلمان آباد ہیں ان پر قیامت نہ ڈھائی گئی ہو۔بھارتی مسلمانوں کو ہر
جگہ اور ہر وقت اپنی وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔بعض علاقوں میں مسلمانوں
کو اپنا مسلم نام تبدیل کرکے ہی تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا ہے۔پاک بھارت
جنگ میں پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں کو پاکستان کا جاسوس قرار دیکر غداری
کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اکثر مقامات پر دیواروں پر یہ نعرہ لکھا گیا
کہ ،مسلمانوں جاو پاکستان یا قبرستان۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کی کمر توڑنے
کے لئے زمین داری ایکٹ نافذ کیا گیا اور مسلمانوں سے ان کی زمینیں ہتھیا لی
گئیں۔ہندوں انتہا پسند تنظیموں جیسے آر ایس ایس کوصوبائی فورسز میں تبدیل
کردیا گیا جنہوں نے مسلم آبادی کے خلاف کھلم کھلا تعصب برتا اور اسی آر ایس
ایس کے رکن آج بھارت کت وزیر اعظم ہیں۔ابھی تک بھارت میں مسلمانوں کی وفا
داری پر شککیاجاتا ہے اور ایک مرتبہ ایک مسلمان لیفٹینٹ جنرل کو آرمی چیف
بننے کے استحقاق کے باوجود نہ بنایا گیا اور اسے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا
وائس چانسلر بنا دیا گیا۔
بعض مسلمان بھی گاندھی جی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں
اور انہیں سچائی ،انصاف اور سیکولرازم کا علمبردار قرار دیتے ہیں مگر حقیقت
وہی جو قائد اعظم نے گاندھی کے بارے میں کہی تھی ان کا سیکولرازم محض
دکھاوا تھا۔جب نہرو کی بہن ایک مسلمان کے ساتھ شادی کرنے لگی تو گاندھی نے
اس کو روک دیا۔پھر گاندھی کا اپنا بیٹا ہر ی لال مسلمان ہوا تو اس کا دہرا
معیار کھل کر سامنے آگیا۔پورے خاندان نے اس کے ساتھ قطع تعلق کرلیا اور اسے
پھر ہندو بنوا کر گمنامی کی موت سے دو چار کیا۔بھارت نے چانکیہ کی پالیسی
کو قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رکھا۔ایک طرف اثاثوں میں سے پاکستان کے
پانچ کروڑ روپے ہڑپ کرلئے اور دوسری جانب کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔جو
ناگڑھ اور مناور کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے باوجود اس پر قبضہ کیاور
حیدر آباد کی خود مختاری کو اپنی جارحیت اور فوج کشی سے روند ڈالا۔مشرقی
پاکستان میں اندرونی غلفشار سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دو لخت کرکے جشن
فتح منایا اور آج ان کا وزیر اعظم اپنے شریک جرم ہونے کو کہانی سُنا رہا
ہے۔سیاچن میں پاکستان پر دنیا کی مہنگی ترین جنگ مسلط کررکھی ہے اور جس وجہ
سے آئے روز ہمارے کئی جوان جام شہادت نوش کرتے ہیں۔پاکستان کے دریاؤں سے
پانی چرا کر ہمیں بنجر بنانے کا عمل شروع کردیا ہوا ہے۔پاکستان میں دہشت
گردی کے تانے بانے سر حد پار ہی سے ملتے ہیں اور اسی تناظر میں سری لنکا کی
ٹیم پر حملہ کرکے پاکستان کی کرکٹ کو تنہائی کا شکار کردیا ہے۔پاکستان کو
سبق سکھانے اور نشان عبرت بنانے کے منصوبہ پر وہ عمل پیرا ہے۔بلوچستان اور
کراچی کے امن کو کون تباہ کررہا ہے اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں۔
بھارتی ذہنیت صرف وہاں کی حکومت ،سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں تک ہی محدود
نہیں بلکہ عام عوام بھی اسی پر کاربند ہیں۔اگرچہ ایک بہت ہی قلیل تعداد
خلوص دل کے ساتھ امن کی آشا کی حامی ہیں مگر بد قسمتی سے اکثریت ایسا کرنے
کی بجائے اپنی حکومت کے نقش قدم پر چلتی ہے۔اکثر بھارتی عوام پاکستانی
مصنوعات خریدنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستانی عوام بھارتی
اشیاء خریدنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
بر صغیر میں امن اور سکون سے ہی وہاں بسنے والے عوام کے مسائل حل ہوسکتے
ہیں جو خطیر رقم فوجی مقاصد اور ہتھیاروں پر خرچ ہورہی ہے اسے تعلیم ،صحت ،آمدورفت
،سائنسی ترقی اور دیگر شعبوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔مگر امن کی آشا اسی وقت
مل سکتی ہے جب انصاف،برابری اور دوسروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔بھارت
بڑا ملک ہونے کے ناطے اس کا آغاز کرسکتا ہے اور بھارت نواز حلقوں کو بھی
چاہیے کہ وہ یہ بات بھارت کو باور کرائیں اور اس کا آغاز اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کو تسلیم کرنے سے کرے اور کشمیر میں آزادانہ استصواب کرا کے امن
کی آشا کو عملی موقع دے اور پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے ختم کرے۔ |