مادر پد ر آزاد کلچر
(Tahir Afaqi, Faisalabad)
پردیس میں عید کے موقع پر دو
پردیسی کھڑے اپنے گھر والوں کو یاد کر رہے تھے ان میں ایک جو کچھ عرصہ پہلے
پردیس میں آیا تھا اسے ماں کی یاد شدت سے ستا رہی تھی۔ ماں کی الفت میں
گزرے ہوئے دنوں نے اسے آخرر لادیا۔ دوسرے دوست نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش
کی مگر بے سود۔ آخر دوسرے دوست نے پہلے دوست کو کچھ وقت کے لیے اکیلا چھوڑ
کر بازار میں گیا اور اور وہاں سے عید کے سامان کی خریداری کی ۔ بس میں سیٹ
پر بیٹھا تھا تو ایک بزرگ کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دی۔ گھر میں جا کر دوسرے
دوست کے لیے کھانا تیار کیا ۔ پہلا دوست جب کمرے میں داخل ہوا تو اسے اپنے
اماں کی آواز سنائی دی ۔ حیرت سے ادھر ادھر دیکھا تو پتہ چلا کے اماں سکائپ
پے آن لائن ہے۔ وہ ماں کو دیکھ کر اپنے جذبات پے قابو نہ رکھ سکا اور رو
پڑا۔دوسرے دوست کی طرف متشکرانہ انداز میں دیکھا اور اس سے جذباتی انداز
میں گلے ملا اور کھانا کھا کر ان کی عید کا رنگ دوبالا ہو گیا ۔
ٹیلی وژن پے آنے والی چند ایک اعلیٰ کمرشلز میں وہ ایک تھی۔ اس سے پہلے ایک
چائے والی کمرشل کا پیغام بھی بہت اچھا تھا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں کمرشلز
اتنا زیادہ اخلاق باختہ ہو چکی ہیں کے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ایسی کمرشلز
بھی دیکھنا کار مشکل است۔ ان میں بے حیا ئی کا طوفان لانے میں موبائیل
کمپنیوں کی کمرشلز نے بھی بہت منفی کردار ادا کیا ہے ۔ ان کے دیکھا دیکھی
دیگر لوگوں نے بھی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ۔ ان کمرشلز میں کوئی اچھا
پیغام تو دور کی بات سوائے جذبات کو ابھارنے کے اور کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ بد
قسمتی سے ہمارے ہاں پیمرا اور متعلقہ ادارے بھی اس سب اخلاق باختگی پے کوئی
ایکشن لیتے نظر نہیں آرہے۔ نئی نسل تباہ ہو رہی ہے اور یہا ں ان ملٹی نیشنل
کمپنیوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جو ہمارے ہاں اپنا کلچر پروان چڑھا
رہے ہیں۔ اس میں حقیقت ہے کہ بہتریں میسج سے بھرپور کمرشلز کو لوگ صراحتے
ہیں اور انھیں دل سے پسند کرتے ہیں جبکہ اخلاق باختہ کمرشلز صرف جذبات کو
ابھارنے کا ایک منفی اور آزاد مدر پدرانہ کلچر رکھنے والوں کا طرز عمل ہے
جیسے انسانی فطرت ہمیشہ سے ناپسند کرتی آئی ہے اور کرتی رہے گی۔اور ہمارا
کلچر بھی ایسے ننگے کلچر کا متحمل نہیں۔ |
|