ہم جو سچ میں خراب ہوتے تو سوچو کتنے فساد ہوتے
( اطہر مسعود وانی, Rawalpindi)
گزشتہ دنوں میں نے ایک کالم ''
صحافی کون ہوتا ہے؟'' کے عنوان سے لکھا۔اس پر کئی آراء سامنے آئیں اور اسے
وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔اس کے بعد خالد گردیزی نے فیس بک پہ 28صحافیوں کی
تصاویر شائع کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کو چیلنج کیا کہ صحافی
آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن بن کر ان سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے
ہیں۔اس پر بہت بحث ہوئی،نوک جھوک ہوئی،لوگوں کی طرف سے بہت دلچسپی کا اظہار
کیا گیا۔اسی حوالے سے میںنے '' آزاد کشمیر میں سیاسی بغاوت کا صحافتی
منصوبہ '' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم تحریر کیا۔بالعموم اس مزاحیہ کالم
کو بہت پسند کیا گیا،تاہم ایک دوست اس سے '' پریشان خیالی '' کا شکار ہو
گیا،جس کا مجھے افسوس ہے۔اسی دوران برطانیہ میں مقیم ایک اچھے سیاسی کارکن
سید تصور نقوی،جو مختلف موضوعات پر اچھا لکھتے بھی ہیں،نے بتایا کہ وہ ''صحافی
برائے رینٹ'' کے نام سے ایک کالم لکھ رہے ہیں۔گزشتہ روز انہوں نے مجھے وہ
کالم ای میل کیا،جسے پڑہنے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس اہم کالم کو
فیس بک پہ لاتے ہوئے اسے ایک موضوع کے طور پر پیش کیا جائے۔اس میں تلخ
باتیں تو تھیں،سخت الفاظ کا استعمال توہو ا،(تصور نقوی وکیل ہے اور اس نے
ثابت کیا ہے کہ معاملے کی سنگینی کی شدت کے لحاظ سے کتنے سخت الفاظ استعمال
کرنے ہیں،اسے سخت دوائی کے استعمال سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے)، لیکن
سچائی اورصورتحال کی خرابی کی سنگینی کی عکاس بھی ہیں۔اس سے صحافی اور
صحافت کا موضوع اور آگے بڑہا۔
فیس بک پہ اس پوسٹ کو بھی وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا۔ان کی حقائق پر مبنی
کھری کھری باتیں کئی دوستوں کو ناگوار بھی گزری ہوں گی،لیکن یہ کسی پہ ذاتی
حملہ نہیں بلکہ صحافت کو درپیش ان خطرات کو بیان کیا گیا ہے جو ریاستی
صحافت کے اصل مقصد کو فوت کرنے کے نتائج پر مبنی اثرات کے حامل ہیں۔انہی''
دھندے دار'' کالی بھیڑوں نے صحافت کو آلودہ ،صحافیوں کو بدنام اور ملک و
عوام کو نامراد کئے رکھا ہے۔آزاد کشمیر کی ریاستی صحافت اور صحافی کا کردار
پاکستان و دیگر ملکوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ ایک ایسا متنازعہ علاوہ
ہے جو جنگ کے ذریعے ریاست کشمیر کی آزادی کے لئے قائم کیا گیا،لیکن پھر
تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کوآزاکشمیر
حکومت بنا دیا گیا ،جو ا ب اپنے مقامی حقوق کا رونا رو رہی ہے۔انحطاط پزیری
کے اس عمل نے آزاد کشمیر کے سیاسی کردار کو داغدار ہی نہیں بلکہ آلودگی سے
لبریز کر دیا ہے۔یوں آزاد کشمیر کی ریاستی صحافت ،صحافی کے کردار،ذمہ
داریوں میں یہ تمام امور پیش نظر رکھنا نہایت اہم ہیں۔خدارا ،آپ ہی
بتائیں،اب ہمارے ایسے کتنے صحافی ہیں جو ان امور کا ادراک رکھتے ہیں اور ان
موضوعات پر قلمی جہاد کر رہے ہیں؟ہم نے تو یہ سیکھا ہے کہ صحافت تو یہ ہے
کہ کشمیر کاز، عمومی عوامی مفادات کے لئے دل ،دماغ اور روح ہی نہیں بلکہ
پیٹ پہ بھی'' ضربیں '' برداشت کرنا پڑ سکتی ہیں۔صحافت کوئی کاروبار،پیشہ
نہیں ہے کہ اسے محض کمائی کے لیئے اپنایا جائے۔ہماری سماجی،سیاسی،معاشی
بدحالی کی بڑی وجوہات میں ہماری صحافت اور صحافی (بحیثیت مجموعی)کی علمی و
اخلاقی انحطاط پزیری بھی شامل ہے ۔ہماری صحافت اور صحافی کو جہالت پر مبنی
رائج الوقت اس مقولے کا پیرو کار نہیں بننا چاہیئے کہ'' اب دماغ کے بجائے
پیٹ سے سوچنے والے کو ہی عقلمند قرار دیا جاتا ہے''۔
جے تو پیار کھیلن کا چائو
سر دھر تلی رکھ مورے آنگن آئو
بلاشبہ ریاستی اخبارات کی افادیت مسلمہ ہے لیکن ریاست کشمیر کے دونوں طرف
کے عوام کی بے چارگی،مظلومیت اور ابتر حالت کی سنگینی کے تقاضوں کے مطابق
ہماری صحافت اور صحافی کام کرنے سے قاصر چلا آ رہا ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر
میں عوام کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے جبکہ آزاد کشمیر کے
عوام حکمرانوں ،سیاستدانوں کی مفاد پرستی،بدکرداری اورآزاد کشمیر کو کنٹرول
کرنے والوں کی آئینی،انتظامی،مالیاتی زیادتیوں کے باعث بے چارگی کی زندہ
مثال بنے ہوئے ہیں۔اس سیاسی ا نحطاط پزیری کے پیش نظر ریاستی صحافت اور
صحافی پر جو گراں ذمہ داری عائید ہو رہی ہے اس کا اظہار تو درکناراس کا
احساس ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ریاستی اخبارات و جرائد میںپرفیشنل ازم اور
اس کی قدر کم نظر آتی ہے۔ہماری ریاستی صحافت اور صحافی قبیلائی ازم اور
تعصب میں بھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ایک وقت تھا کہ جسے کہیں نوکری نہ ملے ،وہ
پولیس میں بھرتی ہو جاتا تھا،پھر یہی سلسلہ ٹیچر بننے میں شروع ہوا،وہ
دروازہ بھی بند ہوا تو پھر جو چار لائینیں درست نہیں لکھ سکتا،نہ کوئی
معیاری صحافتی کام کر سکتا ہے،وہ نامور صحافی بن گئے کہ وہ بڑے اداروں سے
وابستہ ہو گئے۔اب آپ کو صحافیوں میں ایک بڑی تعدا کمیشن ایجنٹ ٹائپ کے
افراد کی نظر آتی ہے۔ خدارا ،ایسا نہ کریں کہ باقی ماندہ صحافی بھی رواج
زمانہ میں بہہ نکلیں،یا کنارہ کش ہو جائیں،جو خطے اوراس کے لوگوں کو بہت ہی
خراب کرے گا ۔علم و دانش کی قدر کیجئے کہ یہ قیمتی ترین شے ہمارے معاشرے
میں نایاب ہے۔یہ عرض بھی ہے کہ علم و دانش کو جاہلوں کے ہاتھوں رسوا تو نہ
کرایا جائے۔اب چندلاعلم،کم تعلیم یافتہ،جھگڑالو قسم کے صحافیوں کا گروپ ہی
عددی طاقت پر اصل صحافی کو ہی غیر صحافی قرار دے دیتا ہے۔اتنی ہی التجاء ہے
کہ علم و دانش سے محروم صحافی بابائے صحافت،بانی صحافی،عقل کل،خدائی فوجدار
وغیرہ تو نہ بنیں۔ علم و دانش کے حامل صحافیوں کا احترام کیا جائے ،انہیں
کم ظرف صحافیوں کے ہاتھوں رسوا تو نہ کرایا جائے۔اگر اچھے صحافی بھی تعمیری
سوچ وفکر کو ترک کر کے منفی انداز اپنا لیں تو ذرا سوچیں کہ کتنا عذاب ہو
گا۔
ہم اچھے تھے پر سدا ان کی نظر میں برے رہے
ہم جو سچ میں خراب ہوتے تو سوچو کتنے فساد ہوتے
صحافت اور صحافی کے موضوع پر سوشل میڈیا پر ہونے والی اس دلچسپ،سبق
آموز،مشعل راہ بحث سے ایک مثبت اور موثر مہم کا آغاز ہوا ہے۔اور سوشل میڈیا
نے اپنی اہمیت و افادیت تسلیم کرا لی ہے۔آزاد کشمیر کے ریاستی صحافیوں(کالم
نگار کی حیثیت سے اس میں تصور نقوی بھی شامل ہے) نے صحافت اور صحافیوں کو
تنقیدی دائرے میں لاتے ہوئے اس کے مختلف مثبت ،منفی پہلو ( جن میں اضافہ
عین ممکن ہے)، سامنے لاتے ہوئے وہ کام کر دکھایا ہے جو پاکستان کی صحافت
اور صحافی نہ کر سکے۔ علم و شعور کی اس جدوجہد میں ہمیں'' بھینس،بھینس کی
بہن ہوتی ہے''، '' پیٹی وال بھائی '' جیسے جاہلانہ ،قبیلائی موقف اختیار
نہیں کرنا چاہئیں، عوامی و قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقیقت اور
آگاہی کو فروغ دینے کا ذریعہ بننا چاہئے،تاکہ ریاست کے مظلوم،بے بس و عاجز
عوام کا اعتماد ہماری ریاستی صحافت پر مستحکم ہو سکے۔ہماری کوشش ہو گی کہ
ساتھوں کے تعاون سے سوشل میڈیاکی موثر طاقت کے ساتھ، اہم موضوعات پر بحث
،آگاہی کے اس سلسلے کو آگے بڑہایا جا سکے۔ |
|