رمضان المبار کے آخری عشرہ کا اعتکاف
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
اﷲ تعالیٰ اتنا رحیم وکریم ہے کہ
اپنے بندے کوہر حال میں نوازتا ہے ۔اب بندے کام ہے کہ وہ ہرحال میں اپنے
رَب تعالیٰ کا شکراداکرے اور حکم بجالائے ۔کہہ دوکہ میری سب عبادتیں اﷲ
تعالیٰ کے لیے ہی ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں ۔جو تمام کائنات کاخالق ومالک
اور رازق ہے ۔جو کسی کا نہیں مگر سب کا ہے ۔جو میری جان پر ظلم نہیں کرتا ،جو
میرے لیے آسانیاں پیدافرماتا ہے،جو آسمان سے پانی برساتاہے ،جو زمین پھاڑ
کر میرے لیے اناج اگاتا ہے ،جورحیم بھی ہے اور کریم بھی ،بے شک سب تعریفیں
اﷲ تالیٰ ہی کے لیے ہیں ،میرا رب رحمٰن تو تعریف کے قابل ہے پر میری اوقات
نہیں کہ اس ذات پاک کی تعریف کرسکوں ۔کائنات کی سب مخلوقوں میں سے انسان اﷲ
تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لیے کائنات میں بے
تحاشہ نعمتیں پیدافرمائیں ہیں ،جن کا شمار بھی انسان کے بس کی بات نہیں ۔اﷲ
والے کہتے ہیں کہ اگرانسان کو طاقت ملے اور اس کائنات کے رنگوں میں اس صورت
پاک کو دیکھ پائے جو ہر جگہ موجود ہے تو قسم پیداکرنے والے رَب کی اسی جگہ
ساکت ہوجائے اور دیکھ کر پہچان بھی لے توساری زندگی سجدے میں گزار دے ۔اﷲ
تعالیٰ اپنے بندے سے کتنی محبت کرتا ہے یہ جاننا انسان کے بس سے باہر ہے ۔انسان
بس اتنا سمجھ لے کہ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ مالک ہے
اور انسان اس کا مملوق ،اﷲ تعالیٰ معبود ہے اور انسان اس کا عبد،اﷲ تعالیٰ
آقا ہے اور انسان اس کا بندہ اور غلام بے دام ،غلام کاکمال یہ ہے کہ اس کا
آقا اس سے خوش ہومملوق کے لیے سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسے مالک کی خوشنودی
حاصل رہے۔بندے کو اپنے رب تعالیٰ کی راہ میں لٹ کر بھی ایک لطف آتا ہے اور
محب اپنے محبوب کے لیے کھوکربھی پانے کی لذت محسوس کرتا ہے ۔اسی محبت ‘
غلامی اوربندگی کے احساس کو عملی پیکر دینے کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کیے
گئے اور انسان کا اصل مقصد وجود قرار دیا گیا ۔اسلام میں عبادت کے جو طریقے
مقرر کیے گئے ہیں۔ان میں قدم قدم پر اپنی بندگی ،نیستی اور اﷲ تعالیٰ کے
ساتھ محبت اور شیفتگی کا اظہار ہے۔نماز کی کیفیت کو دیکھئے کہ غلام اپنے
آقا کے سامنے نگاہ نیچی کیے ہوئے ہاتھ باندھ کر کھڑاہے۔بار بار اپنے رب کی
کبریائی کا نعرہ لگاتا ہے ۔کبھی کمر تک جھکتا ہے۔کبھی نگاہ جھکائے دوزانو
بیٹھتا ہے۔کبھی اپنی پیشانی زمین پر رگڑتا ہے۔زکوٰۃ دیتا اپنی ذات اور اپنے
مال پرخدا کی حکومت کا اعتراف کرتا ہے،روزہ ،حج بھی خدا کی بندگی ہے ۔ اس
میں خوف سے زیادہ اپنے مالک کی محبت کا اظہار ہے۔ روزہ دار کو دیکھئے
بھوکاہے،پیاسا ہے،دھوپ کی تمازت اور موسم کی شددت ہے۔اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی
اور اس کی رضا کے لیے سب کچھ برداشت کرتا ہے۔روزہ گویا اﷲ تعالیٰ سے کمال
محبت اور علائق سے رشتہ توڑنے سے عبارت ہے۔ بھوکے پیاسے رہنے کے باوجودروزہ
کی حالت میں گھر سے کاروبار سے اور لوگوں کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے۔محبت
کا اوج کمال یہ ہے کہ آدمی ان تعلقات کو بھی خدا کے تعلق کے سامنے قربان
کردے۔ اس کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ایک اور عبادت رکھی گئی ہے
جسے اعتکاف کہتے ہیں۔روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک ہروقت یاد
دلاتا رہتا ہے کہ روزے میں بے شمار حکمتیں ہیں ۔ اس کی تہ میں اﷲ تعالیٰ کا
خوف ہے۔اﷲ تعالی کے حاضروناظر ہونے کا یقین ہے۔آخرت کی زندگی اور اﷲ تعالیٰ
کی عدالت پرایمان ہے۔روزے کی حکمتوں کا شمار کرنا تو بہت مشکل ہے پر روزے
کاانعام اﷲ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔بات چلی تھی اعتکاف کی ۔ اعتکاف کے معنی
ٹھہرنے ،پوری قوت سے کسی چیز کا ساتھ پکڑے رہنے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں
ایسی مسجد میں روزہ کے ساتھ قیام پذیر ہوجانے کا ہے۔جس مسجد میں پانچ وقت
کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہو۔گویا اعتکاف اﷲ تعالیٰ کی چوکھٹ پرسر
رکھ دینے اور خدا کے دامن رحمت سے چمٹ جانے کا نام ہے۔جیسے بندہ اب اپنی
مراد حاصل کئے اور منزل مقصودکو پائے بغیراس در کو نہیں چھوڑے گااوریہ مکمل
حوالگی،خودسپردگی کا اظہارہے ۔اسی لیے رمضان المبارک کے تیسرے یعنی آخری
عشرے کے اعتکاف کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔حضرت عبداﷲ بن عباس سے
روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے معتکف کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے
بچارہتا ہے،وہ اعتکاف سے باہرجونیکیاں انجام دیتا ،وہ نیکیاں بھی اس کے نام
لکھ دی جائیں گی۔حدیث پاک ہے کہ رسول اﷲ کواعتکاف کا اس قدر اہتمام تھا کہ
آپ ﷺہرسال رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔اور جس
سال وفات ہوئی اس سال دوسرے اور تیسرے دونوں عشروں کا اعتکاف فرمایا ۔ایک
سال آپؐ اعتکاف نہ فرما سکے تو آپؐ نے رمضان کے بدلہ شوال میں دس دنوں کا
اعتکاف فرمایا۔اعتکاف کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں ۔نفل،سنت اور واجب ،اعتکاف
نفل کے لئے نہ روزہ ضروری ہے اور نہ وقت کی قید ،صرف اعتکاف کی نیت ہونی
چاہئے ۔تھوڑی دیر کے لئے بھی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں قیام کرلیا جائے
تونفل اعتکاف ہوجائے گا۔دوسری صورت واجب اعتکاف کی ہے ۔اعتکاف واجب ہونے کی
دوصورتیں ہیں۔ایک یہ کہ اعتکاف کی نذر ہو،دوسرے یہ کہ ایک دن یا اس سے
زیادہ نفل اعتکاف کی نیت سے اعتکاف شروع کیا جائے لیکن مدت پوری ہونے سے
پہلے اسے توڑ دیا تو اب جتنی مدت پوری کی اس نے نیت کی تھی شروع کرنے کے
بعد توڑدینے کی وجہ سے اتنے دنوں کااعتکاف واجب ہوجائے گا۔اعتکاف واجب کے
لئے روزہ ضروری ہے ۔اس لئے کہ اعتکاف روزہ کے ساتھ ہی ہے ۔ تیسری صورت جو
اعتکاف کی اصل صورت ہے ،وہ اعتکاف سنت ہے ۔اعتکاف سنت رمضان المبارک کے
آخری عشرہ کا اعتکاف ہے ۔یہ سنت علی الکفایہ ہے۔یعنی اگر شہر کے کچھ لوگوں
نے اعتکاف کر لیاتو ثواب تو عتکاف کرنے والے کو ہوگا۔لیکن ترک اعتکاف کے
گناہ سے سبھی لوگ بچ جائیں گے اور اگر بستی کے کسی بھی شخص نے اعتکاف نہیں
کیا توبستی کے تمام لوگ گناہگار ہوں گے۔اعتکاف بیسویں روزے سے شروع ہوتا
ہے۔نماز عصر کے بعد مغرب سے پہلے یعنی بیسویں کی افطاری مسجد میں کی جاتی
ہے جبکہ آخری روزہ افطار کرکے اعتکافی بعد نماز مغرب اعتکاف سے فارغ ہوتے
ہیں۔ |
|