رینجرز اور متحدہ قومی موومنٹ

کراچی میں رینجرز کی آمد کو قریباََ بیس سال سے زیادہ زیا دہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ جس وقت کراچی میں رینجرز کو بلایا گیا تھا تو کراچی کے حالات کو سہارا دینا اور شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ کرنا مقصد تھا۔مگر بد قسمتی سے رینجرز کے ہولے ہاتھ نے وہ نتائج تو نہ دیئے تھے جس کی توقع تھی۔ مگر کچھ نہ کچھ حالات کی اَن ریسٹ میں بہتری تو آ ہی گئی تھی۔ جب بھی کراچی کے لوگوں نے رینجرز سے اکتاہٹ کا اظہار کیا توتو ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین رینجرز کو کراچی سے نکلنے نہیں دیتے تھے ۔ان لوگوں نے ہر بار کراچی میں رینجرز کا دفاع کیا اور اس کو شہر چھوڑنے میں بڑی ٰ رکاوٹ ثابت ہوتی رہی تھی۔کراچی میں ایم کیو ایم اس میں رکاوٹ بنتی رہی۔ٰہ بات کوئی بھولا نہیں ہے کہ جب رینجرز کے لوگوں سے کراچی میں ایک نوجون کی زندگی کی بھیک مانگنے کے باجود ڈاکو بنا کر قتل کرنے اور اس پر قاتل کے رقص کی ویڈیو میڈیا پر ساری دنیا نے ہی دیکھی تھی۔اور پھر خروٹ آباد میں چیچن خوتین کے رینجرز کے ہا تھوں سفاکانہ قتال پر ہر انسان پریشان تھا ۔کراچی میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا تھا کہ رینجرز کو واپس بھیجا جائے ۔یہ ایم کیو ایم ہی تھی جو رینجرز کی واپسی کے مطالبے کی شدت سے مخالفت کر رہی تھی۔آج ایسا کیا ہوا کہ وہ رینجرز جس کی ایم کیو ایم سب سے بڑی حامی اور اس کی واپسی کی سب سے بڑی مخالف تھی ،آج اس کے مد مقابل کھڑی دکھائی دیتی ہے۔کل تک رینجرز سندھ کی محافظ تھی اور آج اس کے برعکس بتائی جا رہی ہے۔

الطاف حسین کا کہنا ہے کہ رینجرز نے سندھ کو مقبوضہ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ آگ میں جل رہا ہے۔اور ایم کیو ایم کے کا رکنوں کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں آگ گذشتہ دو عشروں سے کس نے بھڑکائی ہوئی ہے؟یہ بات پاکستان کے ہر شہری کے زبان زدِ عام ہے کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں گذشتہ بیس سالوں سے کسی نہ کسی شکل میں بھر پور طاقت میں رہی ہے اور اس آگ کے بھڑکانے میں سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔اس دوران یہاں پر ایم کیو ایم کے کرتا دھرتاؤں کے علاوہ کسی کی بھی عزت محفوظ نہ تھی ۔اس کی مثال میں پھانسی کی سزا پانے والے صولت مرزا کابیان بھی قابل غور ہے۔اس دوران ایم کیو ایم کی مرضی کے بغیر کراچی کا پتہ بھی نہیں ہلتا تھااور رینجرز اس دوران کراچی میں پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔یہاں جس کی چاہے پگڑی اچھال دی جاتی تھی اور جس کا چاہے روڈ پر لاشہ گرا دیا جاتا تھا ۔مرنے والے کی صدا ہوتی تھی کہ ’’ ـمیں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟تمام شہر نے پہنے ہیں دستانے‘‘ دو عشروں تک یہ کھیل چلتا رہا شہر کراچی لہو میں نہاتا رہا ۔قتل و غارت گری، لوٹ مار،ڈکیتیاں اور اسنیچنگ، کونسا جرم تھا جو اس شہر میں ہو نہیں رہا تھا مگر یہا’’پتھر بندھے تھے اور کتے آزاد تھے‘‘ اس شہر کے طاقتور لوگ طاقت کے نشے میں بد مست انسانی لہو بہا کر عیش و طرب کی محفلیں سجاتے رہے۔مجال ہے کہ قاتلوں ،ڈکیتوں،لُٹیروں اور سنیچرز کے گروہوں کا ایک بھی قاتل، ایک بھی ڈاکو،ایک بھی بھتہ خور اور ایک بھی اسنیچرکو پکڑا جاتا اور مقتول اور لُٹے پٹے لوگوں کے خاندان کے آنسووں کی جھڑی میں کمی آتی۔ جب کہیں انصاف نہیں ملتا ایسے ادوار میں لوگ مکافات عمل کے منتظر ہی ہوتے ہیں اور قانوںِ قدرت کے حرکت میں آنے کے منتظر رہتے ہیں۔اب جب قانون قدرت شائد حرکت میں آگیا ہے تو مجرموں کو جائے پناہ نہیں مل پا رہی ہے۔

آج وہ ہی متحدہ قومی موو منٹ ہے جس کے لئے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مکافاتِ عمل کے عمل سے گذر رہی ہے۔ وہ رینجرز جس کی متحدہ سب سے بڑی سندھ میں قیام کی حامی تھی ۔اس کے ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ رینجرز نے سندھ کو مقبوضہ بنا دیا ہے؟سندھ آگ میں جل رہا ہے؟ایم کیو ایم کے کارکنوں سے جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رینجرز نے کراچی فتح کیا ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ایم کیو ایم کی سندھ میں پسندیدہ فورس کل تک تھی۔آج جب اسے مجرموں کو پکڑنے کا اختیار دیدیا گیا ہے تو ۔اس کو مجرموں کو پکڑنے دو تاکہ سندھ اور خاص طور پر کراچی سے ڈاکووں، بھتہ مافیہ اور قاتلوں اور ہر قسم کے مجرموں کا صفایہ ہو سکے ۔ابھی کل ہی کی بات ہے رینجرز نے کے ڈی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عاطف خان کو ملیر سے گرفتار کیا تو اس نے برملا اس بات کا اظہار کر دیا کہ وہ ایم کیو ایم کے لئے کام کرتا رہا ہے۔اور وہ کراچی میں پلاٹوں کی چائنا کٹنگ میں ملوث رہا ہے۔جس نے 17 ،ارب روپے ’’ چنوں ماموں ‘‘ کے توسط سے ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ منتقل کروائے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے عذاب سے ایم کیو ایم کے رہنما پہلے ہی گذر رہے ہیں۔دوسرے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مجرموں نے اقرارِ جرم کر کے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب اشارہ کر کے ایک نئی مشکل ایم کیو ایم اور اس کے رہنما کے لئے کھڑی کر دی ہے۔

اس شہرت کی وجہ کوئی اور نہیں ہے۔ مجرموں کی وجہ سے ایم کیو ایم ہندوستانی ایجنٹوں کی صفوں میں بھی شمار ہونے لگی ہے۔جس نے مہاجروں کی اولادوں کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔جن کے اجداد نے اس ملک کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تھا۔کیا وجہ ہے کہ آج ساری دنیاں میں ایم کیو ایم پاکستان میں را کی ایجنٹ مشہور ہو چکی ہے ۔ اس کے اپنے گرفتار مجرمین ہیں جو ہر ہر موقعہ اور مقام پر اپنے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی سے رابطوں اور واسطوں کا کھل کر اقرار کر رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے سندھ کے شہری علاقوں میں کہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو کوئی آسانی کے ساتھ ختم نہیں کرسکتا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کل تک جو کچھ ایم کیو ایم کے نام پر مجرم لوگوں نے کیا اس کو بھول جائیں اور کالی بھیڑوں کا ایم کیو ایم سے صفایہ ہو لینے دیں۔کہ سیاسی میدا ن میں پھر بھی کراچی کے لوگوں کا ایم کیو ایم کا ووٹ بنیک کوئی مسخر نہیں کر سکتا ہے۔ مجرم چاہے جو بھی یرغمال چاہے جو بھی قاتلوں کا سردار چاہے جو بھی ۔ایمکیو ایم کو اس سے اور قاتلوں ڈاکووں او ر لُٹیروں کے ٹولے سے بہر حال چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہوگا۔سیاست کے میدان کو رہزنی سے الگ کرنا ہی ہوگا کہ اسی میں سب کی نجات ہے۔ہم ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر الگ رہ کر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ہمارا اسلامی شعار چھننے والوں اور ننگ دھڑنگ سیاست کے حواریوں سے ہمیں ہر صورت میں نجات حاصل کرنا ہی ہوگی۔رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں اور متحدہ سیاست کے میدان میں سُتھری سیاست میں قدم رکھ کر اپنا اسلامی شعار بحال کرے ۔کیونکہ ہمارے اجداد نے یہ ملک اسلام کے لئے حاصل کیا تھا ۔مہاجر وں کی اولادیں اپنا رشتہ اسلام اور پاکستان سے تو توڑ سکتی ہی نہیں ہیں۔اگر ہم نے خدا اور رسول کی جانب اپنا رشتہ استوار کر لیا تو ہم شرابی زانی معاشرے کی گھٹن سے نجات پالیں گے۔
Prof Dr Shabbir Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Khursheed: 285 Articles with 212975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.