پاکستان کا مغربی بازو بلوچستان معدنی وسائل کے علاوہ کئی
اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان کے کھلے دشمن بھارت
اور کچھ دوست نما مغربی دشمنوں نے ایک عرصہ سے یہاں بد امنی پھیلا رکھی ہے
تاکہ نہ صرف پاکستان کو نام نہاد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا واویلا مچا
کر دباؤ میں رکھا جا سکے بلکہ اس کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی
جا سکیں ۔ذیل میں بیان کیئے جانے والے حقائق بلوچستان کی اہمیت کو اجاگر
کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
ملکی اعتبار سے بلوچستان کی اہمیت:
موجودہ صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اسکی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے کل رقبے کا
44%بلوچستان پر مشتمل ہے ۔
Strategic نکتہ نظر سے بلوچستان کی اہمیت:
بلوچستان ٓابنائے ہرمز (Strait of Hormuz)کے دہانے پہ واقع ہے ۔یہ واحد
سمندری راستہ ہے جو خلیج فارس کو کھلے سمندر سے ملاتا ہے اور فوجی نکتہ نظر
سے بڑا اہم ہے ۔ ایسی Straitsکو فوجی اصطلاح میں Choke Pointکہا جاتا ہے جس
سے مراد تنگ سمندری راستہ ہے ۔راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے فوج اپنی پوری
Strengthکے ساتھ وہاں سے نہیں گزر سکتی اور ایسے راستوں پر فوج کو ٹریپ
کرکے اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ۔چونکہ راستہ تنگ ہوتا
ہے اسلئیے اسے blockکرنا بھی ٓاسان ہوتا ہے ۔ ایران کئی بار دھمکی دے چکا
ہے کہ اگر امریکہ نے اس پر حملہ کیا تو وہ ٓابنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔
دنیا کا ٓادھا تیل ایران، عراق، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات
میں پایا جاتا ہے اور ٓابنائے ہرمز اسکی ترسیل کا واحد سمندری راستہ ہے ۔
ایران یہ راستہ بند کرکے پوری دنیا میں تیل کا بحران پیدا کر سکتا ہے ۔گو
کہ اب ایران اور امریکہ کے درمیان رابطے بحال ہوئے ہیں اور کسی فوجی مہم
جوئی کا فی الحال کوئی امکان نہیں لیکن ایران یہ کارڈ کبھی بھی کھیل سکتا
ہے ۔
جسطرح ایران امریکہ کے خلاف یہ کارڈ کھیل سکتا ہے اسی طرح پاکستان انڈیا کے
خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال کر سکتا ہے ۔ ہندوستان مذکورہ تیل پیدا کرنے
والے ممالک سے تیل کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان ٓابنائے ہرمز کو
بلاک کرکے ہندوستان کو تیل کی سپلائی بند کر سکتا ہے اوراسطرح زمانہ جنگ
میں دشمن کی سپلائی لائن کاٹ کر اسے گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کیا جا
سکتا ہے ۔تاہم اسکے لئے ایک مضبوط نیوی اور موثر ائیر ڈیفنس کی صلاحیت کا
ہونا ضروری ہے ۔ پاکستان نیوی کو جدید بنانے کا کام جاری ہے اس کے علاوہ
اگر پاکستان چین کے ساتھ ملکر گوادر میں ایک جدید نیول بیس بنانے میں
کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے بھی پاکستان نیوی کی صلاحیت میں بہت اضافہ ہوگا۔
تجارتی نکتہ نظر سے بلوچستان کی اہمیت:
فوجی نکتہ نظر کے علاوہ ٓابنائے ہرمز کی ٹریڈنگ اہمیت سے بھی ساری دنیا
واقف ہے۔ پوری دنیا میں سمندری راستے سے تیل کی مجموعی تجارت کا35% (جو
دنیا کی overall تیل کی تجارت کا 20%بنتا ہے) ٓابنائے ہرمز سے گرزتا
ہے۔اسکے علاوہ قطر 2ٹریلین کیوبک فٹ ایل این جی ہر سال ٓابنائے ہرمز کے
ذریعہ ایکسپورٹ کرتا ہے جو دنیا میں کل ایل این جی تجارت کا 20%بنتا ہے ۔
اس سمندری راستے سے ہونے والی تیل کی تجارت کا 85%ایشیائی منڈیوں میں جاتا
ہے اور بلوچستان سمندر کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک مال کی ترسیل کا
مختصر ترین راستہ ہے۔انہیں حقائق کے پیش نظر گوادر پورٹ بنائی گئی اور پاک
چین راہداری کے پس منظر میں بھی یہی عوامل کار فرما ہیں۔
اگر ہمارے حکمران اور پالیسی ساز دانش مندی اور دور اندیشی سے کام لیں تو
بلوچستان کے راستے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ افغانستان سمیت بیشمار
وسطی ایشیائی ریاست Land Lockedہیں ۔ اگر پاکستان اپنے روڈز اور انفراسڑکچر
کو بہتر کر لے اور ان ریاستوں کو گوادر پورٹ کے ذریعہ تجارت اور مال کی
ترسیل کی اجازت دے دے تو اس سے کثیر ٓامدن حاصل ہو سکتی ہے ۔ اسکے علاوہ
پاکستان خود بیرونی ممالک سے مصنوعات امپورٹ کرکے انہیں ان ریاستوں کو
فروخت کر سکتا ہے جس سے دنیا کے ساتھ تجارتی رابطوں میں پے پناہ اضافہ کے
ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت بھی مضبوط ہو گی ۔
پاکستان کی سمندری حدود میں اضافہ:
19مارچ 2015کو اقوام متحدہ نے پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کا
claimمنظور کر لیا جس سے پاکستان کی سمندری حدود 200نوٹیکل میل سے بڑھ کر
350نوٹیکل میل ہو گئی ہے اب پاکستان اس اضافی سمندری علاقہ میں موجود ٓابی
وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ پاکستان خطے میں پہلا ملک ہے جسکا
اس حوالے سے claimتسلیم کیا گیا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے ۔ گوادر گہرے
پانی کی بندرگارہ ہے جس کی لوکیشن کراچی سے زیادہ اہم ہے ۔ یہ ایران کی
چابہار بندرگاہ سے بھی زیادہ اہم ہے اور اس اضافی سمندری علاقہ کے ملنے کے
بعد گوادر کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرت کی اس
مہربانی کو رائیگا نہ جانے دیا جائے ۔
پاکستان Coastline:
پاکستان کی Coastlineایک ہزار پچاس کلو میٹر ہے جس میں سے 250کلومیٹر سندھ
جبکہ 800کلومیٹر بلوچستان میں ہے ۔ بلوچستان کی 800کلومیٹر سمندری پٹی کو
اگر properطریقے سے developکیا جائے اور اس پر واقع beachesجیسے سوم نیانی
، ہنگول دریا، اورمارا، پسنی اور گوادر پر تفریح اور سیاحتی نکتہ نظر سے
سہولیات فراہم کی جائیں تو اس سے نہ صرف پاکستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا
بلکہ بلوچستان کے بسنے والوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ تفریح کی سہولیات بھی
میسر ٓائیں گی۔
ہندوستان کا درد:
بلوچستان کی Strategic اورTrading اہمیت ہندوستان کیلئے بہت تکلیف دہ ہے وہ
ایک عرصہ سے یہاں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے ۔ستر کی دہائی سے وہ بلوچ علیحدگی
پسندوں کو سپورٹ کر رہا ہے اور اسکا ایجنڈا بڑا واضح ہے ۔مودی کے سیکیورٹی
ایڈوائزر اجیت کمارڈوول نے پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں
کہا تھا کہ You will lose Balochistan، گو کہ یہ بات اس نے ممبئی حملوں کے
تناظر میں کہی تھی لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان بلوچستان
میں بنگلہ دیش کی تخلیق جیسا کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور اس سے
یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کا 44%حصہ شدید خطرے میں ہے اور ہمارے
حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں پنجاب اور اسلام ٓاباد سے باہر کچھ دکھائی
نہیں دیتا۔
بلوچستان کے نام نہاد بھگوڑے لیڈراور پاکستان کے دوست نما دشمن:
بلوچ قوم کا رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے والے ٓاج کل یورپ اور امریکہ کی
رنگینیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں کوئی Belgiumمیں بیٹھا ہے تو کوئی
Switzerlandمیں ،کوئی امریکہ میں مزے کر رہا ہے توکوئی جرمنی میں موج منا
رہا ہے اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ
اپنی جان بچا کر بھاگ جانے والے ،بلوچ قوم کے لیڈر ہونے کا دعویٰ کیسے کر
سکتے ہیں ؟لیڈر کی جان تو قوم کی امانت ہوتی ہے اور وہ اسے اپنی قوم پر
قربان کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ اسے اپنی جان سے زیادہ اپنی قوم کی فکر
ہوتی ہے ۔ یہ کیسے لیڈر ہیں جنکو قوم سے زیادہ اپنی جان کی پڑی ہے ؟دراصل
یہ بلوچستان کے چند مفاد پرستوں کا وہ ٹولہ ہے جنہوں نے ایک عرصہ سے اپنی
ذاتی انا اور خودساختہ نظریات کی بنا پر بلوچستان کی ترقی کا راستہ روکنے
کے ساتھ ساتھ بلوچ نوجوانوں کوبھی مسلسل گمراہی میں ڈال رکھا ہے ۔ جس ملک
نے ان کو عزت دی یہ اسی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں اور اسے دنیا میں
بدنام کر رہے ہیں اور ہمارے مغربی دوست نما دشمن جن کی دہشتگردی کی جنگ میں
ہم ہراول دستے کا کر دار ادا کر رہے ہیں ان کا میڈیا فیڈریشن ٓاف پاکستان
کے منکروں کو ہیرو کے القاب سے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے ۔ 30جون 2015کو
onlineاخبار انٹر نیشنل بزنس ٹائمز نے براہمداغ بگٹی کا انٹرویو اس ہیڈنگ
کے ساتھ شائع کیا ''Meet Hero of Balochistan in exile since grandfather's
assassination''۔(انٹرویو میں جو باتیں کہی گئی انکا دہرانہ مناسب نہیں)۔
اس سے پہلے 8فروری 2012میں یو ایس کانگرس کی فارن افئیر کمیٹی بھی بلوچستان
کے مسئلے پر ہیرنگ کر چکی ہے جس میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں کا بوگس الزام لگایا گیا تھا ۔ جو ممالک ریاست پاکستان
کے دشمنوں کو پنا ہ دیں وہ پاکستان کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں ؟یہ ممالک
اپنی نیشنل سیکیورٹی کو بہانہ بنا کر ساری دنیا کو جنگ کی ٓاگ میں دھکیل
دیں تواسے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور اگر پاکستان کے سیکیورٹی ادارے
پاکستان کے جائز مفادات اور اسکی علاقائی حدود کے تحفظ کیلئے اپنے ملک کے
اندر اقدام کریں تو یہ انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر ٓاتا ہے ، کیا
یہ دوہرا معیار نہیں؟
ہمارا فارن ٓافس، سفارتخانے، فارن ایجنٹس ، لابیز اور سیاستدان کیا کر رہے
ہیں؟
فیڈریشن ٓاف پاکستان کے منکر اور پاکستان کا جھنڈا جلانے والے مغربی ملکوں
میں بیٹھ کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں تو ہمارا فارن ٓافس، ان ممالک میں
ہمارے سفارتخانے، ایجنٹس اور لابیز کیوں خاموش ہیں؟کیوں وہ ان ٓاوازوں کو
غیر موثر کرنے میں اپنا کر دار ادا نہیں کر رہے ؟ادھر ہمارے حکمران اور
سیاستدان بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔اگر کوئی اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر
رہا ہے تووہ فوج ہے لیکن فوج اکیلی بلوچستان میں امن قائم نہیں کر سکتی
کیونکہ یہ مسئلہ بندوق سے زیادہ بات چیت سے حل ہوگا۔ دشمن نے ہمارے معصوم
بلوچ بھائیوں کے ذہنوں میں جو نفرت پیدا کر دی ہے اسے ختم کرنے کیلئے گولی
کی نہیں پیار اور محبت کی ضرورت ہے ۔ اگر ہندوستان ہمارے ان معصوم نوجوانوں
کی برین واشنگ کرکے انکے ہاتھ میں بندوق تھما سکتا ہے تو ہم اپنی محبت سے
ان کے ذہنوں کو تبدیل کیوں نہیں کر سکتے؟ضرورت صرف عمل کی ہے جو فوج تو کر
رہی ہے لیکن سویلین کی طرف سے کوئی کردار ادا نہیں کیا جا رہا اور اگر ایسا
ہی چلتا رہا تو فوج تو اپنا کام کرتی رہے گی لیکن بلوچستان میں امن قائم
نہیں ہوگاکیونکہ دیرپا امن اور ترقی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ بلوچستان کی
محرومیوں کو دور کیا جائے اور اس میں بسنے والے پاکستانیوں کو main
streamمیں لایا جائے۔ |