پاکستان کا مستقبل جوانوں کے ہاتھ میں
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ وراہ
ہم وہ نہیں جنھیں زمانہ بناگیا
ایک بکھری ہوئی ریاست کے شیرازے کو مزید بکھرنے سے بچانے کے لئے اب سب کی
نظریں نئی نسل پر لگی ہوئی ہیں ۔ ایک ٹیڑھی اینٹ کی بنیاد سے معرض وجود میں
آنے والی اس مملکت پاکستان کا ہر ادارہ اور محکمہ تعمیر نو کی صدا بلند کر
رہا ہے ۔ ملک مذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے ابتری کا شکا ر ہے
کیونکہ ۔
یہاں جھگڑے ہیں صوبوں کے ذاتوں کے نصب کے
جس کے تہہ سایہ میں اگتے ہیں خار غضب کے
یہ ملک ہے سب کا پراس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پر اب دانت ہیں سب کے
آج وطن عزیز شعلو ں کی لپیٹ میں ہے اوربریکنگ نیوز کا محور بن چکا ہے ۔
آمرانہ جمہوریت سے لے کر جمہوری آمریت تک سب تجر بات کئے جاچکے ہیں ۔ ڈیلی
ویجزپر چلنے والی اس ملک کی خودمختیاری کا سودا کبھی ہم نے کولن پاول
فارمولے کی صورت میں کیا تو کبھی کیری لوگل بل کی صورت میں۔ عوام اور
حکمرانوں کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں۔
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
سلطانی جمہور سے جمہورورے ہے
کراچی میں رینجرزکی کاروائیاں،خود کش حملے اور ضرب عضب خانہ جنگی کی تصویر
پیش کررہے ہیں ۔معیشت ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے ۔دہشت گردی
اورانتہا پسندی عروج پر ہے۔ توانائی کا بحران، مہنگائی اور بعض اوقات
بنیادی ضروریات زندگی کی نایابی ملکی عدم استحکام کی طرف واضح اشار ہ ہیں۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں نوجوان نسل ہی خونی انقلاب کا راستہ روک سکتی ہے ۔
مٹی کے نم ہوتے ہی یہ نسل ایک مرتبہ پھر زرخیزی کا خواب پورا کرے گی اور
لیس الانسانٰ الا ماسعی پر یقین کا مل کے ساتھ نوجوان نسل میدان میں اترنے
کیلئے تیار ہے ۔ستاروں پر کمند ڈالنے کا عزم لیے آج کا نوجوان انقلابی سوچ
کا مالک ہے آج کا نوجوان نڈر، بے باک ،خوددار اور غیرت مند ہے اسی کے نزدیک
منزلیں ذوق تجسس کو سلادیتی ہیں
حاصل زیست تو بس راہ گزر ہوتی ہے
نئی نسل میں مجھے پھر محمود غزنوی ،سلطان صلاح الدین ایوبی ، ٹیپوسلطان ،
محمد بن قاسم ،طارق بن زیاد، راشد منہاس اور غازی علم الدین شہیدکی جھلک
نظر آتی ہے ۔ مغرب کی تہذیب کا باغی آج کا نوجوان ملکی خارجہ پالیسی میں
غیر ملکی اور لا دینی عناصرکو سخت نفر ت کی نگاہ سیے دیکھتاہے۔ اس کے نزدیک
یہودونصاریٰ کبھی فرینڈز آف پاکستان نہیں بن سکتے ۔ آج کا نوجوان خود
انحصاری اور خوداعتمادی کا قائل ہے ۔و ہ کشکول کو توڑ دینا چاہتاہے اور
اپنے وسائل سے بھر پور استفادہ حاصل کرنا چاہتاہے ۔اصول قائد کام کام اور
مزید کام کا کاربند ہے اور ملک کی باگ دوڑ اسی نوجوان نسل کی شدت سے منتظر
ہے ۔
آج اگر ہم ملک کے سیاسی ڈھانچے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتاہے کہ اب تاریخ
پاکستان محسنوں کے قاتلوں سے بھری پڑ ی ہے۔ بھٹو کے ضیاء سے نوازشریف کے
مشرف تک غداری اور احسان فراموشی کی متعددداستانیں رقم ہوئیں ہیں۔ موجودہ
اسمبلی پرجعلی مینڈیٹ کا الزام ہے اور جاہل وزیر تعلیم سے لے کر قانون کی
دھچیاں اڑانے والے وزراء قانون کے منصب پر نظر آتے ہیں۔
آج کی نوجوان نسل تعلیم یافتہ اورباشعور ہے وہ اس سیاسی ڈھانچے کی یکسر
تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ نئی قیادت نے انتخاب اور احتساب کا نیا نظام وضع کرنا
ہے۔ نئی نوجوان نسل جاگیردرانہ نظام کی بجائے تعلیم اور قانون کی
فرمانروائی دیکھنا چاہتی ہے۔ نگہ بلند، سخن دلنواز اور جان پر سوز کی مالک
یہ نوجوان نسل ملکی سیاست میں دیانتدار ، ایماندار ، عظیم اور صاف شفاف
کردار کے مالک لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔ نئی سوچ اور نئے عزم کی مالک اس
نسل نے
ہو دین سیاست سے جدا تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کا درس عام کرنا ہے ۔ اقتدار اعلیٰ کا مالک خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھنا
اور عوام کے خادم کے طور پر کام کرنا سیاست کا بنیادی مقصد سمجھتی ہے ۔
آمریت کے راستے نوجوان نسل نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیے ہیں۔شعبہ تعلیم
میں نئی نسل کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ علم کو ایک
مذہبی فریضہ کے طور پر حاصل کرنے اور دنیا میں چھا جانے کے عزم کے ساتھ آج
کی نوجوان نسل وطن عزیز کو خلفائے راشدین کے دور کی طرج دیکھنا چاہتی ہے
۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں انتھک محنت سے پاکستان کا نوجوان دنیا میں اپنا
ایک علیحدہ مقام پیدا کررہا ہے ۔سی ایس پی آفیسر ، پٹرولنگ آفیسر اور فوجی
افسروں پر عوام کو مکمل اعتماد ہے۔ نئی نسل تعلیم کے بل بوتے پر تھانہ کلچر
کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری جیسے جرائم کو قبر سے
اکھاڑ پھیکنا چاہتی ہے ۔ قانون اور انصاف کی بالادستی چاہتی ہے۔ Might is
Rightکی بجائے Right is Mightکو تسلیم کرتی ہے ۔ آج کا طالب علم آئنرک
نیوٹن اور ارشمید س بننے کا خواں ہے ۔ وطن کے تعلیمی ڈھانچے کو نوجوان نسل
مناسب انداز میں تعمیر کر سکتی ہے ۔
ملکی معشیت آج دم توڑرہی ہے۔ بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے
ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آج نئی نسل سے توقع ہے کہ وہ اپنے زور بازو پر
اعتماد کر کے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزان
کر سکے گی ۔ وطن عزیز معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے اور جدید دور کے
انسان نے زمین کے نیچے چھپے خزانوں کو تلاش کر کے اپنی مٹی کو سونا بنانا
ہے ۔ درآمدات کی بجائے برآمدات پر انحصار کر نا ہے ۔ طلب اور رسد میں توازن
قائم کر نا ہے۔ ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کے لئے ہر انسان
کی نظریں صرف اور صرف نئی نسل پر لگی ہو ئی ہیں ۔ آج کا تعلیم یافتہ تاجر
افراط زر جیسی اصطلا حات سے واقف ہے ۔ وہ زرمبادلہ کو بڑھانے کی ہر ممکن کو
شش کر رہا ہے ۔ توانائی کے بخران پر قابو پانے کے لئے آج کی نوجوان نسل
ذرائع ڈھونڈ رہی ہے ۔
مملکت پاکستان کے معاشرتی نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت
ہے ۔ دہشت گردی لا قانونیت اور انتہا پسند ی نے ملک کی جڑوں کواکھاڑ کے رکھ
دیا ہے۔ عدالتی نظام متنازہ بن چکا ہے ۔نوجوان وکلاء کی تگ ودو سے اب
عدالتوں پر پھر سے لوگوں کا اعتماد بخال ہو ا ہے۔ نئی نسل نے فرقہ وارانہ
مسائل کو حل کرنا ہے ۔ درس توحید کو عام کرنا ہے آج کے نوجوان کے نزدیک
انسانی زندگی بڑی قیمتی ہے اس کا ایمان ہے ،
ایک انسان کا قتل پوری انسانیات کا قتل ہے ‘‘
وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور جب کبھی وطن عزیز کو ان کی جان کی
بھی قربانی درکار ہوگی وہ پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ آج کا نوجوان ہی حقیقتاََ
ملک کا سرمایہ اور فخر ہے۔ |
|