اچھے دِن کب آئیں گے؟

۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخاب میں نعرہ (خیالی)آیا’نہ کسی کی جیت نہ کسی کی ہار، اب کی بار مودی سرکار‘۔بھولی عوام نے سوچا یہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں اپنی جیت پر نہ تو خوشی منائیں گے اور نہ ہارنے والے کا مذاق اُڑائیں گے اور جو وعدے کیے ہیں وہ نبھائیں گے، پچھلے والوں کی طرح الّو نہیں بنائیں گے۔ اچھے وچار دھارا کے شریف لوگ معلوم ہوتے ہیں اور اسی غلط فہمی میں لوگوں نے ان کوبھر پیٹ ووٹ دے ڈالا اور مودی سرکار بن گئی۔گجرات کے وزیر اعلی کی حیثیت سے بولے تھے صرف ۱۰۰؍ دِن کے لیے مجھے حکومت مل جائے تو میں کالا دھن لا کے دکھا دوں گا ورنہ مجھے پھانسی دے دینا۔اتنی بھروسے کی باتیں کرنے والے انسان کی سرکار تو بننی ہی چاہئے اور پھر پانچ سال کے لے ’مودی سرکار‘ بن گئی۔ سرکار بننے کے بعد ۱۰۰؍ دِن کے بجائے چار سوبیس وِن گزر گئے لیکن اچھے دِن پتہ نہیں کس مچان پر ٹنگے ہیں کہ ہاتھ ہی نہیں لگ رہے ہیں۔اُدھر مودی جی بھی رہے رہے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔اور وہ جنتا جس میں بقول ’جسٹس کاٹجو‘ ۹۰ ؍فی صد بیوقوف لوگ ہیں مودی جی کا انتظارکرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں اچھے دن آ رہے ہیں تو کم سے کم اچھے دن کا خواب دکھانے والا ، من کی باتیں کرنے والا ہی آجائے ہو سکتا ہے ہمارے بیچ رہے تو شاید ’وعدے شادے‘ یاد آجائیں۔

بقول شخصے! مودی جی جب بھارت میں رہتے ہیں تو ’پھینکتے ‘ رہتے ہیں۔اور زیادہ تر غیر ممالک میں بھی پھینکنے جاتے رہتے ہیں۔اور ان کی غیر موجودگی میں یہاں چھٹ بھیےّ لوگ اناپ شناپ بولنا شروع کر دیتے ہیں ’جو یہ کر رہا ہے وہ پاکستان جائے، جو یہ نہیں کر رہا ہے ، وہ بھی پاکستان جائے‘۔یہاں لوگوں کو لوگ پاکستان بھیجنے میں لگے ہی تھے کہ پتہ چلا کہ مودی جی نے نواز شریف کی دعوت قبول کر لی اورخود پاکستان جانے کے لیے تیار ہیں۔کسی مسخرے نے یہ بھی کہا کہ مودی جی نے نواز شریف سے پوچھا کہ ’میں دلّی سے آپ کے لیے کیا کیا لاؤں‘۔تو نواز شریف نے کہا ’آپ کچھ لائیں یا نہ لائیں لیکن گری راج سنگھ کو ضرور لائیں‘۔

بہر حال یہ تو کچھ دوسروں کے اور کچھ میرے جملے ہیں، اِن جملوں کا کیا۔مودی جی کے اچھے دنوں کے سلسلہ میں جو وعدے تھے اُن وعدوں کے بر خلاف جو نتیجہ نکلے وہ آپ کو تو یاد ہی ہوں گے پھر بھی میں یاد کو تازہ کیے دے رہاہوں۔
۱۔ کپاس کے بھاؤ کم ہونے سے کسانوں پر دوہری مار۔ایک خبر
۲۔ سگریٹ پر چھوٹ اور کھیتی پر ویٹ۔ایک خبر کا یہ عنوان تھا۔
۳۔ ٹاٹا جیسے صنعت کار کو ایک فی صد بیاج کی در پر قرض اور چھوٹی صنعت کے قیام کے لیے دس فی صد بیاج کی در۔
۴۔ مودی جی نے فرمایا تھا ’کسانوں کو مرنے نہیں دونگا‘ لیکن ایک خبر کے مطابق مہراشٹر میں ایک ماہ میں ۱۲۰؍ کسانوں نے خودکشی کی۔
۵۔ مودی جی کی انتخابی ریلیوں پر کروڑو روپئے خرچ ہوئے اور ان کی حفاظت میں لگی پولیس کے ’ویل فیئرفنڈ‘ کی بجٹ سے پندرہ سو کروڑ روپیہ کم کر دیے۔
۶۔ ایک خبر کے مطابق گجرات میں ساڑھے سات لاکھ نوجوان بے روزگارہیں۔
۷۔ روس، امریکہ،پاکستان، انڈونیشیا اور بھوٹان سے مہنگا پٹرول بھارت میں ہے۔
۸۔ مودی جی کی ایک اور پھینک ’ہم نشے سے پاک بھارت بنائیں گے‘ جبکہ بھارت بھر میں غیر قانونی اور زہریلی شراب بنتی ہے جسے پی کر لوگ مر رہے ہیں۔
۹۔ ایک انتخابی جملہ تھا ’بہت ہوا ناری پر وار، اب کی بار مودی سرکار‘۔اور حال یہ ہے کہ دہلی میں سڑک کے جرائم تین گنا ہو گئے ہیں، ہر چار گھنٹے پرعورت کا ریپ ہوتا ہے اور دس عورتوں کے ساتھ چھڑ خانی ہوتی ہے۔
۱۰۔ ۹۲؍ ایم․پی․ ایسے تھے جنکو پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا تھا اوران پر آٹھ لاکھ روپیہ یومیہ خرچ آ رہا تھا۔
۱۱۔ مودی جی نے فرمایا تھا ’’پچھلے پندرہ سالوں میں مہراشٹر برباد ہو گیا‘‘ لیکن جھار کھنڈ کے نئے وزیر اعلی فرماتے ہیں’’پانچ سالوں میں جھار کھنڈ کو مہاراشٹر بنائیں گے‘‘۔
۱۲۔ ’’ایک بھی داغی منتری کو سرکار میں جگہ نہیں دوں گا‘‘۔ لیکن جھارکھنڈ کے وزیر اعلی اور مختار عباس نقوی کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا۔
۱۳۔ ’’مجھے وزیر اعظم نہیں چوکیدار بننا ہے‘‘ اور اس چوکیدار کے گھر کو ایک ہزار بلیک کمانڈوز سے حفاظت کرائی جا رہی ہے۔
۱۴۔ ’گجرات ماڈل ‘ کا یہ حال ہے کہ آج بھی گجرات میں چالیس لاکھ لوگ جھونپڑے میں رہتے ہیں۔
۱۵۔ بھارت کو صاف ستھرا بنانے کی خواہش ظاہر ہوتے ہی ہر درجہ کا آفیسر،اپنے فرائض منصبی چھوڑ کر، جھاڑو لیکراپنے اپنے دفتروں سے نکل کرپہلے سے بکھرائے ہوئے کوڑے کو بٹورنے میں مشغول ہوگئے۔اسی طرح سے یوگا کے لیے ہر کوئی بڑا چھوٹا جن پتھ پر اکٹھا ہو گیا۔
۱۶۔ ایک خبر تھی کہ پہلی اپریل سے ’پلیٹ فارم ٹکٹ‘ دس روپئے کر دیا گیا ہے اوراس کی میعاد دو گھنٹہ کی ہوگی۔جبکہ نزدیکی اسٹیشن کا کرایہ کم سے کم پانچ روپئے اورمیعاد چوبیس گھنٹہ۔

اِس وقت بھارت میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی حکومت ہے اورمودی جی وزیر اعظم ہیں۔ ایک زمانے میں ’جنتا پارٹی ‘کی حکومت تھی اور شری مورار جی دیسائی وزیر اعظم تھے۔مودی جی کی طرح ان کے بھی بہت پیروکار تھے۔ان کے لیے یہ مشہور تھا کہ وہ صبح اُٹھ کر اپنا ’پیشاب ‘ پیتے ہیں۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کی صحت کا راز یہی ہے۔انھوں نے جن پتھ پر اس طرح کا کوئی ڈیمو تو نہیں دیا لیکن پھر بھی ان کے ماننے والے بہت سے پیدا ہو گئے اور کھُل کر ’دیسائی جی‘ کا ساتھ دینے لگے اور ساتھ ہی ساتھ کہنے بھی لگے ’جب سے میں نے اس کا سیون شروع کیا ہے میری کئی پریشانیاں دور ہو گئیں ہیں۔

دیسائی جی نے کسی کو ایسا کرنے کے لیے مشورہ تو نہیں دیالیکن مرکزی سڑک پریوہن راجیہ منتری شری نتِن گڈکری نے کاشتکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پودوں کی سنچائی ’پیشاب‘ سے کیا کریں۔ انھوں نے کہا دہلی واقع ان کی رہائش گاہ میں جو پودے لگے ہیں اُس کی سنچائی وہ پیشاب سے ہی کرواتے ہیں۔ اس کے لیے وہ پانچ لیٹر کے کین میں اپنا پیشاب جمع کرتے ہیں اور ان کا مالی اس سے سنچائی کرتا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگرکوئی شکر کا مریض ہے اور اس کے پیشاب سے سبزی یا پھلوں کے پیڑ سینچے گئے تو پھرکھانے والے کااﷲ ہی مالک۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.