ہیک نیا پنگا

روزمرہ زندگی میں میانہ روی کسی فردواحد کی انفرادی ہی نہیں کسی قوم کی اجتماعی ترقی و کامیابی کی بھی ضمانت ہے ہمارا ایمان ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وصلم اﷲ کے آخری نبی ہیں جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لئے آپ کے بعد آپ کی جدوجہد کو آگے بڑھانا امت ہی کی زمہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے تمام احکامات احادیث اور اسواۂ حسنہ اہل اسلام کے لئے حکم کا درجہ رکھتے ہیں جب کہ پوری انسانیت کی کامیابی و کامرانی بھی اسی میں مضمرہے ۔ایک عرصہ سے یہ دیکھا گیا ہے کہ اسلام کے وہ زریں اصول جن غیر مسلموں نے اپنائے انہیں توترقی ملی لیکن مسلمان اپنے ہی ان اصولوں سے دوری کے باعث دنیا کے ہر حصے میں مشکلات کا شکار ہیں۔۔ میانہ روی بذات خود ایک ایسا فطری ضابطہ ہے جو روزمرہ انسانی زندگی کے آدھے مسائل کو انسان سے دور کر دیتا ہے لیکن ناجانے کیوں ہم زندگی کے ہر شعبہ میں تسلسل کے ساتھ انتہا پسندی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں میانہ روی ہم سے کوسوں دور ہے ۔محبت ،نفرت ،دوستی ،دشمنی ،غیبت ،بغض ،نمود ونمائش و بے حسی حتیٰ کے روزمرہ انسانی معاملات کو لمحوں میں اتنہاتک لیجانے کے ماہر بن چکے ہیں ۔کافی عرصہ پہلے میں نے اپنے کالموں کے زریعے تحریک آزادی کشمیر کے بیسویں صدی کے اتار چڑھاؤ اور سیاسی تبدیلیوں کے پس منظر میں اس زمانے کی تمام سیاسی شخصیات بشمول گلاب سنگھ تجزیہ کیا تھا جسمیں دورحاضر کے تمام سیاستدان جو اپنے سینوں پر کئی ایک انمول القابات و خطابات سجائے بیٹھے ہیں کچھ ’’پرلوک‘‘سدھار گئے کچھ باقی ہیں کا جائزہ لیااورریاست کی موجودہ دگرگوں صورتحال اور اس کے زمہ داران کا جب گلاب سنگھ سے موازنہ کیا گیا تو تاریخ کے ترازو میں گلاب سنگھ کا پلڑہ بھاری پایا جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ شخص کم از کم ریاست کے حصے بخرے کرنے اور اسکی وحدت وتشخص سے کھلواڑ کرنے کا قطعی مرکتب نہیں ہوا تھا بلکہ وہ واحد ایسا زریعہ بنا جس کے باعث ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل دیس برٹش انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گیا تھا ۔یہ وہ قانونی نقطہ ہے جو ریاست جموں کشمیر کے موجودہ مقدمہ آزادی کی بنیاد کو صرف اس لئے مضبوط کرتا ہے کہ اگر یہ دیس ۱۸۴۶میں برٹش انڈیا کا حصہ بن جاتا تو تقسیم قانون ہند کے مطابق یہ دوممالک میں سے کسی ایک کا حصہ بن گیا ہوتا اور آج اس کا نام و تاریخ محض دیومالائی کہانیوں تک محدود ہو کر رہ جاتی لیکن ایسا صرف اس لئے نہیں ہو سکا کہ یہ برٹش انڈیا کے علاقوں میں شامل نہیں تھا اس لئے اس پر دو قومی نظریہ کا اطلاق نہ ہو سکا تبھی سے آج تک دوممالک کے بنیادی دستور میں بھی اس کی خصوصی حیثیت باقی ہے اوراقوام عالم کے سامنے ہمارے حق خودارادیت کا مطالبہ بھی اس کے مرہون منت ہے اور دنیا نے اس دیس کے عوام سے خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وعدہ بھی کررکھا ہے۔۔۔اس لئے گلاب سنگھ کو ان تمام احباب پر فوقیت حاصل ہے چہ جائیکہ اس نے ایسا محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہ کیا ہو گا بلکہ اس کے اس کردار کے پیچھے بھی حصول اقتداروحاکمیت وبرتری کا عنصر کارفرما رہا ہے اوریوں جنہوں نے ہر دور میں مادر وطن کا نام صرف ایک سیاسی کاروبار کی حد تک استعمال کیا ہے اقتدار کی خواہش ان سب میں قدر مشترک ہے بہر حال گلاب سنگھ نے کچھ بیچا نہیں بچایا ضرورتھا۔اس لئے گلاب سنگھ کو اس حد تک کریڈت ملنا چاہیے لیکن کچھ عرصہ سے ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ زاتی اناد ،بغض اور حسد کے ملے جلے جذبات کے پیش نظریا معصومیت کے باعث گلاب سنگھ کو ریاست کا بانی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس پر ستم کہ ہزاروں لاکھوں اہل قلم علم ودانش تاریخ کے ساتھ ہونے والی اس چھیڑ چھاڑ کو تماشبین کی طرح خامشی سے د یکھ رہے ہیں ۔گلاب سنگھ کو اس عظیم مقام پر فائز کرنے والے اور بے حسی کی تصویر بنے ہمارے اہل علم۔۔۔ یہ دونوں کردار ہمارے سماج کی اجتماعی انتہا پسند رویوں کی تلخ وبدترین تصویر ہیں۔جذبادیت میں اپنی ہی تاریخ کو خود پامال ومسخ کر نے کے درپہ ہیں ۔برصغیر کی تقسیم کے دوران جو سیاسی صورت حال سامنے ائی اس میں تو گلاب سنگھ کا فقط اتنا ہی کردار رہا ہے لیکن ہمیں یہ قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارہ مادر وطن ایشا ء میں سب سے قدیم تاریخ کا حامل ملک ہے پانچ ہزار سالہ تاریخ میں یہ دیس صدیوں آزاد وخود مختار رہا ہے ،راجہ للتہ دتیہ سے لے کرصدرالدین ’’بلبل شاہ‘‘ سلطان شہاب الدین اور پھر تاریخ کے عظیم ترین بادشاہ سلطان زین العابدین (بڈشاہ) یوسف شاہ چیک اور حبا خاتوں یہ سب لوگ مملکت ریاست جموں کشمیر کے حکمران تھے اور ان کے ادوار میں ہمارا شمار ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا تھا اور یہاں کے لوگ خوشحال تھے ۔صدیوں سے آزاد و خود مختار ریاست جموں کشمیر کے مختلف حکمرانوں کے ادوار میں اس کی سرحدوں میں ردو بدل ہوتا رہا ہے لیکن سرحدوں کی تبدیلی سے کوئی بانی نہیں بن جاتا اگر ایسا کریں گے تو درجنوں بانی سامنے آئیں گے ۔جب کہ بانی کے معنی وہ شخص جو کسی دیس کو پہلی بار بناتا ہے دریافت کرتا ہے سامنے لاتا ہے یا متعارف کرواتا ہے ۔ چہ جائیکہ گلاب سنگھ صاحب نے لداخ سمیت کچھ علاقوں کو ریاست میں شامل کیا تو وہ علاقے اصل ریاست میں شامل’’مرج‘‘ ہوئے ناں کے کشمیر ان میں شامل ہوا ہے اگر ایسا ہوتا تو آج مورخ کشمیر کو کشمیر نہیں ’’لداخ یاجموں‘‘کہتے اور گلاب صاحب کو اس کا بانی بھی ماننے میں کوئی حرج نہ ہوتا،اور تحریک آزادی کے حالیہ فیز میں ایک بڑی تاریخی تبدیلی رونما ہوئی جب شہید کشمیر محمد مقبول بٹ نے اپنی تاریخ ساز جدوجہد کے باعث ریاست جموں کشمیر کی اجتماعی سوچ و سمت کو بدل ڈالااوردیس کی نظریاتی سرحدوں پر ایک مستقل لکیر کھینچ ڈالی اور یوں گلاب صاحب کو جدید کشمیر کا بانی کہنا بھی دوکروڑ ریاستی عوام کے جذبات سے کھلواڑ کے مترادف ہو گا اس لئے صدی کے وہ ریاستی سیاستدان جنہوں نے زاتی وفروہی مفادات کے لئے دیس کی تاریخ و تشخص کو مسخ کیا اور تقسیم کے زمہ دار ٹھہرے واقعی قومی مجرم ہیں لیکن ان کی نفرت میں اس حد تک نہیں جائیں کہ ہم ۱۸۴۶ میں دیس کا حکمران بننے والے کو اس دیس کا بانی کہنا شروع کر دیں ؟اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ہزاروں سالہ تاریخ کے حامل ہونے کے دعٰوے سے دستبردار ہونا پڑھے گا جو ریاست جموں کشمیر اور تحریک آزادی کشمیرکے حق میں نہیں ہے ۔اس لئے نفرت ہو یا محبت سب انسانی جذبوں کو سنبھال کر رکھئے انہیں اپنے آپ پر حاوی مت ہونے دیجئے اور ہر صورت میں میانہ روی اختیار کیجئے ۔کیوں کہ بے حسی ، نفرت ،مخاسمت اور محبت میں انتہا پسندی ہمیشہ انفرادی و اجتماعی زندگی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.