ہسپتال اور ڈاکٹرز سوالیہ نشان کیوں!
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
یہ اموات قدرتی و حادثاتی ہیں
تحقیقات کی گئی ہیں اور ان میں کسی بھی ڈاکٹر یا عملے کی کوئی غفلت پائی
گئی ہے اور نہ ہی آکسیجن کی کمی کا کوئی ایشو تھا۔ ویسے بھی وکٹوریہ ہسپتال
میں بچوں کے اموات کی شرح 1.67 فیصد ہے جو کہ پاکستان بھر کسی بھی ہسپتال
کے مقابلے میں سب سے کم ہے ۔یہ بیان تھا پرنسپل میڈیکل کالج بہاولپور ڈاکٹر
ہارون کا جنہوں نے ایم ایس بہاول وکٹوریہ ہسپتال ڈاکٹر ارشاد کو رپورٹ کرتے
ہوئے بتایا تھا ۔12 نومولود اور نامولو د بچوں کی اموات پر یہ بیان دیا گیا
اور پھر بری الذمہ ہوگئے۔ لیکن دوسری طرف والدین ،لواحقین اور عینی شاہدین
چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ سب ڈاکٹروں کی غیر حاضری ڈاکٹروں کی غفلت نرسوں
کی لاپرواہی ،آکسیجن کی عدم دستیابی،سہولیات کی کمی اور بروقت طبی امداد نہ
ملنے کی بنا پر ہوا۔ کہیں ڈاکٹر موجود نہ تھا تو کہیں نرس غائب تھی کہیں
متعلقہ دوائی نہ تھی کو کہیں انجکشن ندارد۔سینئر ڈاکٹرز عید سے دو روز قبل
ہی غائب تھے اور جونیئر ڈاکٹر سائیں کا ڈر نہ ہونے کی بنا پر عید کی شاپنگ
میں مصروف تھے جبکہ نرسزٹولیوں کی شکل میں خوش گپیوں میں مشغول ۔تو پھر
ایسا تو ہونا ہی تھا کہ وہ بچے جو اس بے رحم دنیا میں پاکستان میں کسی بھی
بیماری کو ساتھ لئے پیدا ہو ہی گئے تھے تو اس بے حس معاشرے کے مسیحاؤں نے
بھی ان سے مسیحائی نہ کی ،کوئی دو روز بعد تو کوئی پانچ روز بعد ہی دنیا کی
بے ثباتی کا رونا روتا ہوا واپس راہی عدم ہوگیا اور کچھ ایسے بھی تھے جو
دنیا میں آنے سے پہلے ہی واپسی کا سفر اختیار کرگئے۔ لیکن اہل ثروت ، اہل
اقتدار اور اہل ہوس کو تو کان کھجانے کی فرصت ہی نہیں-
خادم اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب! یہ وہ ہسپتال ہے جہاں پر لوگ
اس امید پر جاتے ہیں کہ وہاں وزیر اعلی پنجاب کی ہدایات کی روشنی میں ہر
کام اوکے ہے ہر شخص اپنی اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ یہاں
پر ڈاکٹرز عملہ ادویات سمیت ہمہ وقت مریضوں کو موت کے منہ میں جانے سے
روکنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں لیکن یہ اموات تو کچھ اور ہی منظر پیش
کررہی ہیں یہاں پر کہیں بھی وزیر اعلی کے احکامات کی بازگشت سنائی نہیں دے
رہی۔ ڈاکٹرز عملہ ادویات اور سہولیات کی عدم دستیابی وزیر اعلی اور ان کی
صحت کے حوالے سے کاوشوں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ وزیر اعلی پر ہی کیا اکتفا
کرنا وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوا ز شریف کے سکواڈ کیلئے10 جدید ترین
اور مہنگی ترین گاڑیوں کو خریدا گیا ہے ایک شخص کی حفاظت کیلئے یہ گاڑیاں
کئی افراد کیلئے موت کا باعث بنیں گی۔ یہ اسکواڈ جہاں سے گزرے گاوہاں سے
عام انسان کا گزرنا ممنوع ہوگا۔ کوئی گاڑی میں ہی بند دم گھٹنے سے مرجائے
گا تو کوئی رکشے میں اپنی جان دے گا۔ کسی کی سانس کی تان بیچ بازار میں
رستہ نہ پرملنے پر ٹوٹ جائے گی تو کوئی بند گلی کے موڑ پر جان بلب ہوگااور
تو اور ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ جب رعایا کے شہنشاہ کہیں سے گزرتے ہیں تو
سکیورٹی رسک کی بنا پر مساجد میں نماز ادا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی
جاتی ہے۔ سابقہ مثالوں کو چھوڑیئے جناب!ہمارے محترم المقام صدر پاکستان
ممنون حسین عید کے رو زفیصل مسجد میں نماز عید کیلئے گئے تو پروٹوکول کی
وجہ سے تمام راستے مسدود کردیئے گئے ہزاروں شہری نماز عید کیلئے مساجد اور
عیدگاہوں کا رخ نہ کرسکے فیصل مسجد تو ویسے ہی کیموفلیج کردی گئی تھی۔ بس
پھر کیا تھا جب صدر محترم نماز ادا کرکے باہر نکلے نماز کی ادائیگی سے رہ
جانے والے لوگوں نے انہیں’’ہاتھ دکھا دکھا کر‘‘ عید کی’’ مبارکباد‘‘ دی جس
پر خوشامدی ٹولہ بتاتا رہا کہ یہ لوگ آپ کو اس طرح کے مبارکباد دے رہے ہیں
سبحان اﷲ کیا پاپولیریٹی ہے
حکمران کو جہاں اختیار ودیعت کئے جاتے ہیں کہ وہ ان کا استعمال کرکے امور
سلطنت چلا سکے اپنی من مانی کر سکے وہاں پر اس پر بہت سی ذمہ داریاں بھی
عائد ہوتی ہے جس میں اولین ترجیح رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کو تمام
بنیادی حقوق کی فراہمی ہے چاہے وہ خوراک کے حوالے سے ہو کہ صحت کے سلسلے
میں۔تعلیم کی فراہمی ہو کہ انصاف کی فراہمی راستے کے حقوق ہوں کہ روشنی کی
آمد، پانی کے نکاس کا معاملہ ہو کہ ہوا کے اخراج کے بات یا دیگر کوئی بھی
بنیادی انسانی حقوق تو یہ سب ذمہ داری حکمران پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انہیں
بلاتفریق عوام سے باہم پہنچائے۔ اسی طرح حکمرانوں کیساتھ ساتھ ڈاکٹرز کو
بھی اپنے پیشے کی لاج رکھنے کیلئے ہی سہی مسیحائی کو بھرپور انداز میں
مریضوں تک پہنچائے یہ فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔ لہذا یہ قرض اور فرض مرض کو
ختم کرنے کیلئے ادا کرنا ضروری ہے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.