کرپشن کا ناسور

کچھ لوگ بے پَرکی اُڑاکر ’’چَسکے‘‘ لینے کی عادتِ بَدمیں مبتلاء ہوتے ہیں۔ایساکرتے ہوئے وہ یہ تک بھی نہیں سوچتے کہ جس شخص کووہ طنزکے تیروں سے گھائل کررہے ہیں وہ مسندِاحترامِ کے کس درجے پرفائز ہے ۔اِن لوگوں نے توپروفیسرڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری کوبھی نہیں چھوڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ علامہ صاحب ڈی چوک اسلام آبادمیں دیاجانے والادھرنا ایک ’’ڈیل ‘‘کے تحت ختم کرکے ’’پھُر‘‘ ہوگئے۔ایسا پراپیگنڈاکرنے والے ہمارے مُرشدپر انتہائی لغواور بے بنیادالزام لگارہے ہیں۔ اُنہوں نے دھرناکسی ڈیل کے تحت نہیں بلکہ خرابیٔ صحت کی بناپر چھوڑاتھا ۔سبھی جانتے ہیں کہ علامہ صاحب دھرنے کے دنوں میں روزانہ 36 مختلف اقسام کی ادویات استعمال کیاکرتے تھے اوریہ تمام ادویات بیرونی ممالک سے درآمدکی جاتی تھیں کیونکہ اُنہیں پاکستان میں بنی ادویات پرسرے سے اعتبارہی نہیں۔ جب ’’سازشی‘‘ نوازلیگ نے ’’اَندرواَندری‘‘سازش کرکے اُن کی’’درآمدی ادویات‘‘ پرپابندی لگائی تو مولانابیمار پَڑگئے۔جس طرح دھرنوں کے دنوں میں ہمارے پختون بھائی ’’نسوار‘‘کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے اسی طرح ہمارے علامہ صاحب ادویات کی تلاش میں سَرگرداں۔ چاروناچار اُنہیں دھرنا چھوڑکر ’’اپنے دیس‘‘سدھارنا پڑاجسے سازشیوں نے ’’ایویں خواہ مخوا‘‘ڈیل کانام دے کرعلامہ صاحب کوبدنام کرنے کی ناپاک سازش شروع کردی ۔یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ علامہ صاحب پاکستان جیسے چھوٹے موٹے غریب ملکوں کے سربراہان سے ڈیل توکجا ،بات کرنابھی گوارانہیں کرتے ۔وہ توہمیشہ امریکہ ،کینیڈاجیسے ملکوں سے ڈیل کرکے ہی پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ پھربھلا اُنہیں پاکستانی حکمرانوں سے ڈیل کرنے کی کیاضرورت ہے۔ ویسے اُنہیں یہ غریب ملک دے بھی کیاسکتا ہے۔اُن کے تو ایک اشارۂ اَبروپر بیرونی ممالک اُن کے قدموں میں ڈالروں کے ڈھیرلگا دیتے ہیں ۔کچھ شَرپسند کہتے ہیں کہ علامہ کو ’’فارن فنڈنگ‘‘ انارکی پھیلانے کے لیے کی جاتی ہے جوسرے سے غلط ہے ۔یہ تواُن کی علمی وجاہت کاثمرہے کہ بیرونی قوتیں اُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے بیٹھی ہیں ۔مولانااپنی تحریروں اور تقریروں میں متعددبار غیرملکی سربراہان سے اپنی ملاقاتوں کا ذکرکر چکے ہیں ۔علامہ صاحب نے میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا’’صحت کاایشو آیاتھامگر علاج کے بعدمیں انقلاب کے لیے مکمل تیارہوں۔ ڈِیل کی تہمت کاحکومتی پراپیگنڈا اپنی موت آپ مرگیا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل زیادہ عرصہ اسلام آباداور لاہورکے ایوانوں پر مسلط نہیں رہ سکیں گے‘‘۔

علامہ صاحب دراصل بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ملک میں انقلاب لانے کے جذبے کے ساتھ پاکستان تشریف لائے لیکن حکمرانوں نے مولاناکی نیت بھانپتے ہوئے بلدیاتی انتخابات پرہی ’’پھڈا‘‘ ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول مؤخرکرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے التواکے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ الیکشن کمیشن کامؤقف یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی اورریلیف میں مصروفیات کے باعث ڈیوٹیوں کے لیے سرکاری ملازمین کی خدمات الیکشن کمیشن کے سپردکرنے سے معذرت کرلی ہے ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ 55 ہزارسے زائد نشستوں پر انتخاب میں حصّہ لینے والے 2 لاکھ سے زائداُمیدوار مایوسیوں کے بحرِعمیق میں غوطے کھارہے ہیں کیونکہ 2013ء سے اب تک باربار اُن کے ساتھ یہی ’’ہَتھ‘‘ ہورہا ہے۔ اُن کے 9 کروڑروپے سیکیورٹی کی مَدمیں قومی خزانے میں جمع ہیں جن کی واپسی کی کوئی سبیل نظرنہیں آتی۔ وہ بیچارے ’’نیب‘‘ میں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں’’پلی بارگین‘‘ کے تحت 9 کروڑمیں سے صرف 9 سو روپے ملنے کی ہی توقع ہے۔ نیب توہم نے بنایاہی اِس لیے ہے کہ اگرکرپشن کے مگرمچھوں کوکہیں اور پناہ نہ ملے تونیب حاضرہے ۔مگرمچھ اربوں، کھربوں کی کرپشن کرتے ہیں اورلاکھوں ،کروڑوں دے کرپاک صاف اورمزید کرپشن کے لیے پھرتیار۔ نیب نے اپنے قیام سے لے کراب تک 14 سالوں میں پلی بارگین کے تحت صرف 18 فیصدرقم وصول کی اوروہ بھی ایسے کہ کئی بڑے مگرمچھ جھانسادینے میں کامیاب ہوگئے ۔150 مگرمچھوں نے پلی بارگین کے تحت رہائی حاصل کی اورنیب کوکئی سوارب روپے کے بدلے میں صرف 2 ارب روپے وصول ہوئے ،باقی سب ’’پھُر‘‘ ہوگئے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق 262 ارب روپے کی رقم پر15 ارب روپے کی پلی بارگین ہوئی لیکن وصول ہوئے صرف 2 ارب روپے۔ کئی کھرب روپے ہڑپ کرجانے والے 285 فراڈیوں نے نیب کوچند ارب روپے دینے کاوعدہ کرکے رہائی حاصل کی لیکن فراڈ ثابت ہونے کے باوجودوہ بھی نیب کوجھانسا دینے میں کامیاب رہے ۔اب یہ حقیقت توکھُل کرسامنے آچکی ہے کہ آمرپرویز مشرف نے بااثر افرادکو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملانے کے لیے یہ ادارہ قائم کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بااثر افرادکو بچانے کے لیے نیب پلی بارگین کاسہارا لیتارہا اور کرپٹ ترین افرادسے اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے برابررقم لے کراُنہیں پاکیزگی کے ایسے سرٹیفیکیٹ جاری کرتا رہاکہ ’’دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکریں‘‘۔

پرویزمشرف صاحب نے نیب کی صورت میں جو’’ گَند‘‘ ڈالا، اب اُسی گَندکو عزمِ صمیم کے مالک جنرل راحیل شریف صاف کرنے میں مگن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کی تمامتر ہمدردیاں اور دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔وہ اتنے انتھک ہیں کہ صبح شمالی وزیرستان کے اگلے مورچوں پر ہوتے ہیں تو شام کوکوئٹہ۔ سیاسی قیادت نے پاکستان کواقتصادی بلندیوں پر لے جانے کے لیے چین کے ساتھ گوادرسے خنجراب تک اقتصادی راہداری بنانے کامعاہدہ کیاجس پرہندولالے کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے۔اُس نے نہ صرف سرحدوں پر اشتعال انگیزکارروائیاں شروع کردیں بلکہ ہرفورم پر اقتصادی راہداری کے خلاف واویلابھی شروع کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرجگہ اسے ’’شٹ اَپ‘‘ کال کاسامناہی کرناپڑا۔ ہمارے سپہ سالارنے ہندولالے تک یہ دوٹوک پیغام پہنچادیاکہ اقتصادی راہداری ہرصورت میں بنے گی خواہ اِس کے لیے فوج کوکتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اُنہوں نے فرمایا’’فوج ہرقسم کی قربانی کے لیے تیارہے‘‘۔ حیران کُن ،انتہائی حیران کُن کہ محض چندماہ میں اقتصادی راہداری کے 870 کلومیٹرمیں سے پاک آرمی نے 502 کلومیٹرسڑک بنابھی ڈالی۔ ۔۔ ۔ کراچی آپریشن کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں تھااگر اِس کے پیچھے وزیرِاعظم صاحب کی شدیدترین خواہش اورفوج کی طاقت نہ ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’شریفین‘‘کا ایک صفحے پرہونا ہی دراصل قوم کی خوش بختی کی علامت ہے۔بھلاکون یہ سوچ سکتاتھا کہ کراچی ایک دفعہ پھرروشنیوں کی طرف اپناسفر شروع کرسکے گا۔ کسے خیال تھاکہ کراچی سے ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری ختم ہوسکے گی ۔کون جانتاتھا کہ نوگوایریاز اورعقوبت خانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔کیا نائن زیروپر متواتر چھاپوں کا کوئی تصوربھی کرسکتا تھا؟۔ کیاکسی کے ذہن میں یہ خیال بھی آیاتھا کہ مختلف اداروں میں بیٹھے کرپشن کے مگرمچھوں کے گریبانوں تک رینجرزکے ہاتھ پہنچ پائیں گے؟۔ اگرنہیں توپھر یقین جان لیں کہ یہ سب کچھ ہوا، تاحال ہورہا ہے اور’’شریفین‘‘کے عزم کے مطابق اُس وقت تک ہوتارہے گاجب تک ہرکس وناکس کواپنی آغوشِ محبت میں سمیٹ لینے والاکراچی ایک دفعہ پھرروشنیوں کے شہرمیں ڈھل نہیں جاتا۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643226 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More