پاکستان کی ترقی چند قدم پر

پاکستان ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس تمام زرائع موجود ہیں جن سے ملک ترقی کر سکتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے ملک میں کوئ ایسا بندا نہیں جو ملک کی ترقی کے لیے ملک کے اندر انوسٹ کرے۔ کوئ ایسا فرد نہیں جو ملک کا پیسہ ملک میں ہی رکھے۔ ہر انسان ڈرتا ہے کہیں اس کا پیسہ اس کا کاروبار خاک نہ ہو جائے۔

پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری اس کے سیاستدان ہیں جو پاکستان کا پورا پیسہ صرف اپنے نام کرنا چاہتے ہیں یہ نہیں جانتے ان کے جانے کے باد ملک میں سے خوشحالی چلی جاتی مگر یہ اتنا ضرور جانتے ہیں ان کی اولاد اب عیاشی کر سکتی ہے۔ کیوں ہم اپنے ملک کا پیسہ محفوظ نہیں کر سکتے۔ جب تک یہ پیسہ ملک کے اندر محفوظ نہیں ہوگا تب تک ملک ایسے دھکے کھاتا رہے گا۔ لعگ بھوک سے مرتے رہیں گے کعئ پوچھنے والا نہیں ہو گا۔

ملک میں ترقی آ سکتی ہے لوگ اپنا روزگار کما سکتے ہیں پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔ لوگ اپنی ضروریات زندگی خود پوری کر سکتے ہیں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔چند ایک ایسے اقدامات جن سے ملک میں ترقی بہت تیزی ہو سکتی ہے۔

۱۔ ملک کے تمام پڑھے لکھے لوگ جو اپنے کام میں ماہر ہو صرف ان کو ملک کے اندر چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کر دیں تاکہ وہ ملک میں اشیاء کے ساتھ ساتھ لوگوں کو روزگار بھی دے سکیں۔
۲۔ ملک میں روزمارا کی اشیاء اور آٹو مابائل کی صنعتیں قائم کی جائیں جس سے ملکی ضروریات ملک کے اندر باآسانی پوری ہوسکتی ہیں۔
۳۔ نمائشی اشیاء ملک کے اندر بنائ جائیں جس سے غیر ملک جانے والا پیسہ بچ جائے گا اور ملک اشیاء کی طلب بڑھ جائے گی۔
۴۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہر قسم کے پروجکٹ شروع کیے جائیں جس سے کم لاگت اور میاری اشیاء باآسانی بنانے کے نئے طریکے متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔
۵۔ ملک میں کاروباری سکیموں پر بہت کم ٹکس لگایا جائے جس سے کاروبار کو زیادہ ترقی مل سکے۔
۶۔ پاکستان زراعی مشینری خود تیار کرے جس سے ملکی برامدات میں اضافہ آجائے گا۔

پاکستان ترقی کی دوڑ میں ضرور چل رہا ہے مگر اس رفتار سے نہیں جو ملکی ضروریات کو باآسانی پورا کر سکیں۔ پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے اضافی مہنت کرنی پڑے گی اپنے لوگوں کا استعمال کرنا پڑے گا جس ترقی کے ساتھ خوشحالی بھی آجائے گی۔ صرف چند اقدامات سے ملک میں ترقی آ سکتی ہے۔ لوگ اپنا روزگار کما سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ چند دن کی مہنت سے پاکستان غربت کے اندھیروں سے آزاد ہو سکتا ہے۔
Muhammad Jan Shair
About the Author: Muhammad Jan Shair Read More Articles by Muhammad Jan Shair: 9 Articles with 7482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.