14اگست کی آمد کے ساتھ ہی ارض ِ
وطن کے طول و عرض میں جھنڈیا ں اور ملکی پرچم ہر جانب لہراتے نظر آتے ہیں ۔
14 اگست ہر سال یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس دن سرکاری ، نیم
سرکاری اور غیر سرکاری کم و بیش تمام اداروں میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں
۔ ان تقریبات میں بہت سا پیسہ بھی خرچ کیا جاتا ہے ۔مساجد ، گرجا گھروں اور
عبادت گاہوں میں ملکی سلامتی اور ملک میں امن و امان کے لیے خصوصی دعائیں
مانگی جاتی ہیں ۔ اس عزم کا عیادہ کیا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی اوربقاء کے
لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا ۔ یوم ِ آزادی پر یہ دعائیں ہر
سال اسی کروفر سے مانگی جاتی ہیں ۔
لیکن ٹھہریے ! کیا تقریبات منعقد کر لینا، جھنڈیاں لہرا دینا ، دعائیں مانگ
لینا کافی ہے ؟ نہیں ۔۔۔ارض ِوطن کی بقاء ، سلامتی ، عزت و حرمت کے لیے یوم
آزادی شان و شوکت سے منا لینا کافی نہیں ہے ۔اس کے لیے عملی طور پر بے لوث
خدمت کے لیے ہر ایک چھوٹے بڑے ، عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہر ایک کو اپنے
فرائض سے آگاہی ، اور ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے جذبہ کی ضرورت ہے ۔حب
الوطنی کا یہ جذبہ صرف اورصرف یومِ آزادی تک ہی محدود رہتا ہے یہاں تک کہ
چودہ اگست گزر جانے کے بعد یہی جھنڈیاں جو یوم ِآزادی کے لیے سجائی جاتی
ہیں کسی عام کاغذ یا کوڑے کرکٹ کی طرح نالیوں اور سڑکوں کی زینت بن جاتی
ہیں ۔ لوگ انجھنڈیوں کو اپنے پاؤں تلے روند کر گزرتے جاتے ہیں ۔ کوئی بھی
احتراما ان جھنڈیوں کو اٹھانے کی زحمت نہیں کرتا اور اگر کوئی اٹھا کر
سنبھالے تو ارد گرد والے اسے حیرت سے دیکھتے ہیں اور بعض اوقات اس کا مذاق
اڑاتے ، طنز کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ واضع رہے کہ جب تک ہم خود اپنے پرچم
کی عزت اور احترام نہیں کرین کوئی دوسرا کیسے اس پرچم کا احترام کر پائے گا
؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس مقدس پرچم کی عزت و احترا م کیا جائے تو ہمیں خود
کو اور اپنے بچوں کو اس کا احترام سیکھانا ہو گا ۔ انھیں یہ بتانا ہوگا کہ
یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں جیسے یوم ِ آزادی پر اپنے گھر اور گلیوں میں
لگایا جائے اور پھر بھول جائیں چاہے یہ پھٹے یا پاؤں تلے روندا جائے ۔ْجنہوں
نے اس پرچم کو سر بلند کرنا ہے انھیں اس پرچم کے تقدس کا ادراک ہونا ضروری
ہے ۔جوخود اس کی حرمت کو پامال کرتے ہوں وہ کیسے کسی دوسرے کو اساس کی بے
حرمتی سے روک پائیں گے ۔اگر کسی غیر ملک میں ہمارے پرچم کو زمین پر پھینک
کر اس پر پاؤں مارے جائیں یا اس کی بے حرمتی کی جائے تو وہ ہمارے لیے نہایت
ہی افسوس ، غم و غصہ کی بات ہوگی لیکن جب ہم اور ہمارے بچے خود یہ کام کریں
،بے حرمتی کریں گے تو ہم کسی کو روکنے کی ہمت نہیں کر سکتے ۔
ہمارے ہر طبقے کو اس وطن ، اس پرچم کی عزت و احترام کا خیال رکھنا ہو گا ۔
چاہے وہ کوئی بھی ہو ، حکمران ہو یا عوام ، بڑا ہو یا چھوٹا ، اس وطن کی
عزت کے سبھی محافظ ہیں ۔ سبھی اپنی اپنی جگہ اس وطن کے سفیر ہیں ۔ ہمارا ہر
عمل صرف ہمارا نہیں اس ملک کا بھی عمل ہے وہ ایک پاکستانی کا عمل ہے ۔
خصوصا میڈیا پر ایک کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف اس معاشرے میں
موجود برائیوں کی تشہیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں موجود نعمتوں کو بھی
اس دنیا کی نظروں کے سامنے لایا جائے ۔ یہ مقدس زمین جس کو حاصل کرنے کے
لیے نہ جانے کتنی جانیں قربان ہوئیں ، کتنی عزتیں پامال ہوئیں صرف ایک زمین
کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ ہماری نسلوں کی بقاء کی ایک وجہ بھی ہے ۔ ہماری آنے
والی بیٹیاں اسی وطن کی بدولت عزت کی زندگی گزار سکیں گی اور یہ تبھی ممکن
ہے جب آج کی نسل ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظر ِ فردا نہ رہے بلکہ عملا کام کرے
، جدوجہد کرے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی کمی ہے ۔ ہمارا ملک ہر طرح کے خزانوں ،
قدرتی وسائل ، انسانی وسائل سے مالا مال ہے ۔ آئیے ! ایک نظر اس ملک کی
اچھائیوں کی جانب ڈالتے ہیں ۔قدرتی طور پر ہمارا ملک ایک بہترین جغرافیائی
حیثیت رکھتا ہے چاہے وہ حیثیت دفاعی ہو ، اقتصادی ہو یا سیاسی ۔اگر
جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک مسلم ممالک اور غیر مسلم دونوں
ممالک کے لیے ایک گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کی ایک جانب مسلم ممالک کا
بلاک ہے تو دوسری جانب غیر مسلم ممالک کا ۔پاکستان کے قریب ہی دنیا ایک بہت
بڑی اقتصادی قوت (چین ) واقع ہے جو کی مالی اعتبار ہے دنیا میں اپنا ایک
مقام رکھتا ہے ۔شمال مشرق میں روس سے آزادی حاصل کرنے والے اسلامی ممالک
واقع ہیں ۔اس طرح ہمارا ملک ان تمام ممالک کو جوڑنے اور ان کے درمیان ایک
تجارتی شاہراہ کی حیثیت سے کثیر زرِمبادلہ حاصل کر سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ
پاکستان کے پاس گرم پانی کی بندرگاہیں ہیں جو کہ اسے دوسرے ممالک میں ممتاز
کرتی ہیں ۔لیکن آج تک ان بندرگاہوں سے اس طرح سے فائدہ حاصل نہیں کیا گیا
جس طرح سے کیا جانا چاہیے ۔ گوادر کی بندرگاہ ابھی تک فعال نہیں کی جاسکی ۔صرف
یہی نہیں یہ سرزمین اپنے اندر بیش بہا خزانے چھپائے ہوئے ہے ۔تمام صوبوں کی
زمین ہی ایک سے ایک بڑھ کر اہمیت کی حامل ہے ۔ اگر بلوچستان کو دیکھا جائے
تو یہ وہ علاقہ ہے جو اپنے اندر سونا ، قیمتی دھاتیں محفوظ رکھے ہوئے ہے ،
سرحد اور شمالی علاقہ جات سے دنیا کا بہترین قیمتی پتھر حاصل کیا جاتا ہے ،
پنجاب پورے ملک کو گندم فراہم کرتا ہے، اور یہ صوبہ زراعت کے میدان میں
اپنی مثال نہیں رکھتا ، صوبہ سندھ ہے تو ا س کی زمین میں کوئلے (دنیا کے
تیسرے بڑے) ذخائردفن ہیں جو کئی سو برس تک توانائی کے متبادل ذرائع کے طور
پر استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ ان ذخائر کو استعمال میں لایا
جائے ۔
ہمار االمیہ یہ ہے کہ ملک پاکستان میں جس کو بھی حکمرانی ملی چاہے وہ فوجی
آمر ہو یا جمہوریت ،جس کو حکومت ملی اس نے اپنے بنک لاکر روپے پیسے سے بھرے
، عوام کا پیسہ اپنے محلوں کی تزین و آرائیش میں استعمال کیا ، اپنے بچوں
کو باہر ممالک میں اعلیٰ سے اعلی ٰ سہولیات فراہم کی ۔ ملکی خزانے کو جی
بھر کے لوٹا۔ملکی مفاد کے نام پروہ فیصلے کیے جن کی وجہ سے اقوام ِ عالم
میں قوم کا سر جھکا ۔ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی اس ملک کی جغرافیائی حیثیت
کا استعمال نہیں کیا ۔سفارتی طور پر اگر اس ملک کو صرف چند ایک ممالک کے
لیے تجارتی شاہراہ بنا دیا جاتا تو ملکی معیشت اس سے کہیں اچھی حالت میں
ہوتی جس میں آج ہے ۔ اس کی مثال یوں لیں کہ اگر گوادر کی بندرگاہ کو فعال
کر دیا جائے تو اس علاقے کے رہنے والوں کے لیے رزق کے کتنے ذرائع پیدا ہو
سکتے ہیں ۔ کتنے ہی کاروبار از خود جنم لے سکتے ہیں ۔کسی نے بھی ان قدرتی
ذرائع کو احسن طریقے سے استعمال میں نہیں لایا ۔ زمین میں صدیوں سے دفن
خزانے آج بھی دفن ہیں ۔ان دفن خزانوں کو ملکی سطح پر کبھی تلاش کرنے یا
نکالنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی ۔بلکہ غیر ملکی کمپنیاں ان خزانوں کی تلاش
اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں ۔لیکن ہمارے اپنے ملک کی
حکومتوں کا اس جانب کوئی خیال نہیں گیا۔
قدرتی طور پر ہر لحاظ سے بہترین حیثیت رکھنے والی یہ زمین ہم سے تقاضا کرتی
ہے کہ ہم اس کی جغرافیائی حیثیت ، قدرتی خزانوں ، بندرگاہوں سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے ملک پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط ترین ممالک کی صف میں لا
کھڑا کریں ۔
|