تاریخ کے اوراق تحریک پاکستان کے روشن کرداروں کی تصویرکشی !!!

برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہواان پر کیا گزری ۔کیا کیا ستم کی آندھیاں چلی ۔شعار اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو صفحہ ٔ ہستی سے ٹھکانہ نے لگانے کا کوئی نشانہ خطا نہ جانے دیا۔ان حالات میں مسلمانوں میں علماء کرام نے ایک فکر ایک امنگ اور ایک سوچ بیدار کی ۔انھیں ایک ملّت ایک وجود ہونے کااحساس دلایا۔ایک آزاد وطن ایک آزاد سرزمین کے حصول کا ذہن دیا۔جس پر علماء اہلسنّت کے ساتھ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع ہوتا چلاگیا یوں فرد سے افراد اور افراد سے کاروان بنتے چلے گئے ۔تحریک پاکستان میں علماء اہلسنّت کا کردار تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے ۔

آج یوم آزادی ہے ۔کتنی خوشی سے ہم یہ دن منا رہے ہیں لیکن اس آزادی کے پیچھے کتنے عظیم ذہن کتنی بلند ہستیوں کی شب و روز کی محنت ،مالی و بدنی قربانی کی ایک طویل داستان ہے ۔جس کو پڑھیں تو عقل حیران و خیرہ رہ جاتی ہے اور ان کے احسانات کے آگے گردن جھک جاتی ہے ۔

تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو علماء کی ایک فہرست ہے جنھوں نے اس وطن کے حصول میں تن من دھن سے کام کیا اور ہمیں یہ آزاد فضا نصیب ہوئی جہاں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔ جنگ آزادی و تحریک آزادی میں علمائے اہل سنت اور مشائخ طریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیاد ی کردار انہی کا رہا ہے ۔ان عظیم ناموں میں سرفہرست نامشاعرعلامہ مولانا مفتی فضل حق شہید خیر آبادی ، مفتی صدر الدین خاں آزردہ دہلوی ، مولانا سید احمد اﷲ شاہ مدراسی ، مفتی عنایت احمدکاکوری، مولانا رحمت اﷲ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ، مولانا وہاج الدین مراد آبادی ، مولان رضا علی خاں بریلوی ، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی ، مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اﷲ قادری کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اورشہیدِ جنگ آزادی حضرت مولانا مفتی سید کفایت علی کافی مراد آبادی علیھم الرحمۃکا نام اس فہرست میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔

تحریک آزادی کے ان عظیم کرداروں کے متعلق مختصر آپ کی خدمت میں معلومات پیش کرتے ہیں ۔

دو قومی نظریہ کی حمایت میں امام المحدثین سید ابو محمد دیدار علی شاہ الوری رحمۃ اﷲ علیہ کا کردار نہایت روشن اور نمایا ں ہے ۔آپ نے دو قومی نظریہ کی حمایت میں ایک جامع فتویٰ مرتب فرما کر شائع کیا ۔ آپ نے سینہ سپر ہو کر اُن کا مقابلہ کیا ۔تحریک پاکستان میں فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی رحمۃ اﷲ علیہ کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے ۔آپ نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حق میں جگہ جگہ پر جوش تقریریں کر کے مسلمانوں کو حق کے لیے بیدار اور منظم کیا ۔26،27اکتوبر 1945ء کو ڈسٹرکٹ سنی کانفرنس امر تسر کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کا عرس منعقد ہوا ۔ عرس کی تقریب کی صدارت حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ کر رہے تھے ۔ ان تقریبات میں حضرت فقیہ اعظم محدث کوٹلی ،صدر الافاضل مولانا سید محمدنعیم الدین مراد آبادی ،محدث اعظم سید محمد محدث کچھو چھوی ،شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی کے اسماء گرامی نہایت نمایاں ہیں ۔

ان تمام علماءِ حق نے تصور پاکستان اور مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کا اعلان کیا ۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں علماء کرام اورمشائخ عظام کی حمایت کا واضح اور دو ٹوک موقف بنارس سنی کانفرنس (منعقد ہ27تا30جولائی 1946ء)میں ظاہر ہوا ۔حضرت فقیہ اعظم نے دیگر علمائے سیالکوٹ کے ہمراہ بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور مطالبہ پاکستان کو تقویت پہنچائی ۔

دو قومی نظریہ کی پاسبانی میں حجۃ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی ررحمہم اللّٰہ علیہ کاکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔4شعبان المعظم 1343 ھ بمطابق 1945ء میں مسلمانوں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علماء حق نے آل انڈیاسنی کانفرنس کی بنیاد رکھی ۔کانفرنس کے بانی اراکین میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ کانفرنس سے پہلے تاسیسی اجلاس منعقد ہ20تا23شعبان المعظم 1343ھ مراد آباد میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی ،معاشی ،معاشرتی عمرانی ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے ۔وقت گذرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے۔ اسی خطبے میں مسلمانوں کے آپس میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔

مولانا رضا علی خان اورمولانا نقی علی خان وغیرہ نے آزادی حریت کی شمع روشن کی،جبکہ 1857 ؁ء کے بعد امام اہلسنّت امام مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اِس قافلہ حریت کی فکری آبیاری فرمائی اور دو قومی نظریئے کا شعور دیا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء اور علمائے اہلسنّت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مبلغ اسلام علامہ عبدلعلیم صدیقی،سیّد محمد محدث کچھوچھوی، مولانا امجد علی خان، ابوالحسنات سید محمداحمد قادری، ابوالبرکات سید احمد قادری،علامہ عبدالحامد بدایونی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ابراہیم علی چشتی، مولانا غلام محمد ترنم، مفتی سرحد مفتی شائستہ گل، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریف، پیر آف مانکی شریف اورپیر آف زکوڑی شریف وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا اور تحریکِ پاکستان میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ۔

بے شک قیام پاکستان علماء و مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہے، کوئی غیر جانبدار مورخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک پاکستان کے سفر میں تکمیل پاکستان تک کوئی ایک موڑ بھی ایسا نہیں تھا، جہاں حضرات علماء و مشائخ اہلسنّت قوم کی رہبری و رہنمائی کیلئے موجود نہ تھے۔

مولانا کافی مراد آبادی اور مولانا فضلِ رسول بدایونی کو سرِ عام تختہ دار پر کھینچ دِیا گیا۔ علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی کو قید کر کے جزیرہ انڈیمان (کالے پانی)بھیج دِیا گیا اور ان کی حمایت کرنے والوں کو صرف اِس جرم کی پاداش میں گولیوں سے بھون دِیا گیا کہ اُنہوں نے اِن پیکرانِ حق و صداقت کا ساتھ دِیا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کو اِس تحریکِ آزادی میں بظاہر ناکامی ہوئی مگر آگے چل کر انہی مبارک ہستیوں کی قربانیاں قیامِ پاکستان کا باعث بنیں۔

اعلیٰحضرت نے فتویٰ میں نہایت حُسن و خوبی اور جامعیت کے ساتھ "دو قومی نظریہ" پیش فرمایا اور اسی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا۔

اعلیٰحضرت فاضل بریلوی کے دیئے ہوئے "دو قومی نظریئے" کو لے کر علماء و مشائخ اہلِ سنّت اپنے بزرگوں کی سابقہ روایات کے مطابق میدانِ عمل میں نکل آئے اور قیامِ پاکستان کی حمایت کے لیے اُنہوں نے "بنارس آل اِنڈیا سنّی کانفرنس" منعقد کی۔ اِس کانفرنس کے سرپرست امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری تھے اور محرّک حضرت علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی، ناظم اعلیٰ صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی اور اُس کے رُوح و رواں حضرت شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی و مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان بریلوی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مولانا محمد عمر نعیمی، مولانا عبد الغفور ہزاروی، علامہ سید ابو البرکات اور مفتی ظفر علی نعمانی تھے۔ حضرت پیر بھر چونڈی کی معیت میں فقیر بھی اس تاریخی کانفرنس میں حاضر تھا۔ اس کانفرنس میں پانچ ہزار سے زیادہ علماء و مشائخ اہلِ سنّت نے شرکت فرما کر "مطالبہ پاکستان" کی زبردست حمایت کی اور برصغیر کے دور دراز علاقوں کا طویل دورہ کر کے قوم میں بیداری کی لہر دوڑا دِی۔ سب نے شب و روز کام کیا۔ بالآخر پاکستان کی صورت میں ایک عظیم اِسلامی مملکت دُنیا کے نقشے پر اُبھر آئی۔

آج تحریک پاکستان کے تذکروں میں ان کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ،یہ تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہی تو ہے کہ جنہوں نے پاکستان کی خاطر اتنی قربانیاں دیں ان کا تو ذکر ہی موجود نہیں اور جوپاکستان کے بننے کے مخالف تھے۔اب آپ خود سوچ لیں کہ کہاں کہاں تاریخی خیانت ہوئی ۔اپنی تاریخ ضرو ر پڑھیے ۔۔۔۔۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544509 views i am scholar.serve the humainbeing... View More