بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مفتی شفیع صاحب رحمتہ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ً حق ہمیشہ غالب رہتا ہے
اور ترقی کرتا ہے ،جبکہ باطل میں ابھرنے کی طاقت نہیں ، اگر کوئی باطل قوت
ابھرتی ہوئی نظر آئے تو سمجھ لو کہ کوئی حق کی خوبی ساتھ لگ گئی ہے، اور
اگر حق والے تنزل میں نظر آئیں تو سمجھ لو کہ کوئی باطل کی خرابی ساتھ لگ
گئی ہے۔
ہم یہاں یہ جائزہ لیتے ہیں کون سی خرابی ہم نے اپنا لی ہے جس کی وجہ سے اس
قدر گر چکے کہ غیر تو غیر اپنے بھی ملک کو برا بھلا کہتے ہیں ، پاکستان کے
لئے قربانی دینے والے اس صورت حال کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں۔
اکثر ہم جب ہم موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہیں تو ساری ذمہ داری
حکمرانوں پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھتے ہیں ، اس میں شک نہیں کہ
اول ذمہ داری تو حکمرانوں کی ہی ہوتیں ہیں لیکن ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں جس
کو سر انجام دے کر ہم ملک ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں چاہے ہمارا تعلق
کسی بھی شعبے سے ہو مثلا اگر ہم ملازم ہیں تو ہم اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر سر
انجام دیں ، کام کے جتنے گھنٹے مقرر ہیں پور ی دیانتداری سے پور ا وقت کام
کو دیں او ر قائد اعظم کے اس ارشاد کی تعمیل کریں کے کام ، کام، اور بس کام،
ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ باتیں ، باتیں اور کام کے دوران بھی باتیں، اس طرز
عمل نے ہماری قوم کو دنیا کی دوسری بڑی باتونی قوم بنا ڈالا، حدیث شریف کا
مفہوم ہے ًجو خاموش رہا اس نے فلاح پائی ً ہمارے بزرگ تو کام کے دوران ذاتی
کام کو لکھ لیا کرتے پھر اتنی تنخواہ کم لیتے، موبائل فون کی آمد سے یہ
وباء اور عام ہو گئی ہے ،پھر شکایت ہوتی ہے کہ تنخواہ میں برکت نہیں ہوتی،
آج کے دن عہد کریں کہ کام زیادہ اور باتیں کم کریں گے۔
اگر ہمارے ماتحت عملہ ہے تو ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ، آپ ﷺ نے اس دنیا سے
پردہ فرمانے سے پہلے ماتحت کے حقوق کے بارے میں خاص تلقین فرمائی،انہیں وقت
پر تنخواہ دیں ، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں ان پر خرچ کرنے پر بہترین
صدقہ کرنا کا ثواب ملتا ہے، ملازم و مزدور اگر خوش ہوں گے تو ان میں انہماک
بڑھے گا اور ملکی ترقی کا باعث بنے گا۔
بحیثیت تاجرو صنعت کار ،اپنی ذمہ داریا نبھائیں ، عوام کے ضروریات و طلب کا
اندازہ لگائیں او ر اس کے مطابق اشیاء متعارف کرایں کہ لوگوں کی نظر درآمد
شدہ اشیاء سے ہٹ جائیں جیسے ماشاء اﷲ کپڑے کے صنعت کاروں نے ایسی ترقی کی
کے لوگ غیر ملکی کپڑوں کو بھول گئے۔ایسے ہی خریدار کی حیثیت سے اپنی ذمہ
داری نبھائیں ، ملکی اشیاء کو ترجیح دے کر تاجروں اور صنعت کاروں کی حوصلہ
افزائی کریں تاکہ ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور قیمتی زرمبادلہ بچایا
جا سکے، برآمد کننداگان اپنی ملک کی نیک نامی کا خاص خیال رکھیں ، معاہدے
کے مطابق مال کی فراہمی کو یقنیی بنائیں ، اگر نقصان کا سامنا بھی ہو تو
ملک کی خاطر اسے برداشت کر لیں لیکن معیار کو نہ گرایں ۔
بیروں ملک کام کرنے والے اپنے ملک کی عزت کا خیال رکھیں ، خلاف قانون کسی
کام ملوث نہ ہوں ، اپنی رقوم قانونی طریقے سے بھیج کر ملک کی ترقی میں اپنا
حصہ ڈالیں۔
خواتین بھی ملکی ترقی میں حصہ دار بنیں ، اولاد کی تعلیم و تربیت میں اپنی
ذمہ داری نبھائیں ، ٹی، وی کی اسکرین کے سامنے بٹھا کر انکے اخلاق تباہ نہ
کریں ، مستقبل کے یہ معمار ہمارا بہت بڑا قیمتی اثاثہ ہیں ۔
ٹریفک کا حال دیکھ کر دنیا ہم ہنستی ہے ، جاپانی وفد نے کراچی کی ٹریفک پر
ایک رپورٹ بنائی جس میں یہ درج تھا کہ ٹریفک کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ًپہلے
میں نکل جاؤں ً ہے ۔ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ پیاسے جان دے دی لیکن بھائی
سے پہلے پانی پینا گوارہ نہ کیا ،آج ہم اتنے گرگئے کہ اپنے بھائی کو راستے
کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ، آج عہد کریں کے جلد بازی نہیں کریں گے اور
ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کریں گے، علماء فرماتے ہیں کہ سگنل توڑنا گناہ
کبیرہ ہے۔
بجلی کے بحران سے ملک کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے صنعت و کارخانوں کی
پیداوار متاثر ہو رہی ہے جنریٹر کے استعمال سے لاگت میں اضافے کے باعث بین
الاقوامی مارکیٹ ہمارے ہاتھ سے جا کر بھارت و دیگر ممالک کے ہاتھوں لگ رہی
ہیں ، ہم اس کے حل میں اپنا کردار ادا کریں کفایت شعاری کو اپنائیں ، تاجر
اپنا کاروبار صبح سویرے برکت والے وقت میں شروع کریں اور سورج غروب ہونے پر
بند کر دیں ۔اپنے گھروں و دکانوں کو شمسی توانائی پر منتقل کریں تاکہ بجلی
کی یہ بچت صنعت میں کام آسکے۔
رشوت نے ہماری ملک کے بنیاد ہلا کر رکھ دی ہے اﷲ تعالی رشوت لینے والوں کا
ہدایت دے۔ رشوت دینے والے بھی جلدی ہتھیار نہ ڈال دیں ۔ رشوت نہ دینے سے
کام کی تاخیر کو برداشت کریں اﷲ تعالی سے مد د طلب کریں ، اس ناسور کو
نکالیں کے لئے ہمت سے کام لیں ،اس پر تکلیف برداشت اجر عظیم ملے گا ۔۔انشاء
اﷲ
ناجائز تجاوزات ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے، جس سے ٹریفک کے مسائل اور بھتہ
خوری کا راستہ کھلتا ہے ۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کو نرمی سے
سمجھائیں اور سڑکوں و فٹ پاتھوں سے خریداری نہ کرکے اس مسئلے کو حل کرنے
میں مد د دیں-
نظم و ضبط کی پابندی کریں ، نماز میں صف بندی سے ایسی تربیت ہوتی ہے کہ
دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، لیکن عملی زندگی میں افراتفری کو عالم ہے
، ہر جگہ قطار لگانے کی عادت اپنائیں
الغرض ہر فرد اپنی جگہ ذمہ داری کا احساس کر کے عمل کرے تو ہم ایک عظیم قوم
بن جائیں گے، وہ ممالک جو ہمارے پاسپورٹ کو حقارت سے دیکھتے ہیں ہمیں سلام
کرنے پر مجبور ہوں گے ۔۔۔۔۔ انشاء اﷲ تعالی |