پرچم حسین شاد باد

ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
یہ پرچموں میں حسین پرچم
برنگ موج نسیم پرچم
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاک سرزمین کے گوشے گوشے میں سبز ہلالی پرچم کی بہار رقص کرنا شروع کردیتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بہار ہر شخص اور ہر نظارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گھر ,بازار ,دفاتر,گلیاں,محلے,اسکول,گاڑیاں ہر سمت ایک ہی بہار نظر آتی ہے۔ سبز لہراتے پرچم کی بہار۔ کیا بچہ کیا بوڑھا ہر شخص خوشی سے جھومتا گنگناتا نظر آتا ہے۔
"دل دل پاکستان
جان جان پاکستان"

اور کیوں نہ جھومے کہ یہ خوشی ہے آزادی کی۔ غلامی سے نجات کی۔ خوشی ہیایک علیحدہ ریاست پاکستان کے وجود میں آنے کی۔ ایک طویل ,صبر آزما اور لاکھوں قربانیوں کی جدوجہد کے بعد جب پاکستان بنا اسوقت قومی پرچم کا ڈیزائن اور کلر منتخب کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کے اراکین میں قائداعظم محمد علی جناح,سردار عبدالرب نشتر اور نوابزادہ لیاقت علی خان شامل تھے۔ انگریزوں کی شدید خواہش تھی کہ پاکستانی پرچم میں یونین جیک یعنی برطانوی حکومت کا پانچواں حصہ شامل کیا جائے۔ کیونکہ مکار و عیار بھارتی حکومت نے ایسا ہی کیا تھا اور پاکستان چونکہ اصل میں بھارت سے ہی علیحدہ ہوا تھا تو انگریزوں نے اس بات کو بنیاد بنایا۔سردار عبدالرب نشتر نے تو فوراً ہی اس بات سے اتفاق کرنے انکار کردیا لیکن قائد نے اسوقت دانشمندانہ طریقے سے جواب دیا کہ ہم سوچ کر بتائینگے۔ اور بعد میں وائسرائے تک انکار کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ وائسرائے نے قائداعظم سے طویل بحث و مباحثے کئے لیکن قائداعظم نہ مانے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہم نے آزادی جبر و ستم اور دوسروں کی خود پر اجارہ داری سے آزادی کیلئے حاصل کی ہے,اور یونین جیک کیلئے حصہ مختص کرنا مطلب انگریزوں کو خود سے بہتر تسلیم کرنا ہے۔ اور ویسے بھی پاکستان کا وجود ایک اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تو ایک اسلامی ملک کے جھنڈے میں صلیب اور اس جیسے دوسرے نشانات اسلام کی توہین تھے۔ انگریزوں کو انکار کے بعد ایک طویل سوچ وبچار کے نتیجے میں سبز ہلالی پرچم کی تشکیل انجام پائی۔ سبز اور سفید رنگ کے اس خوبصورت پرچم میں سبز رنگ کا تناسب سفید رنگ سے کہیں زیادہ ہے۔سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سفید رنگ اقلیتوں کی۔ ملک کے جھنڈے میں اقلیتوں کے لئے جگہ مختص کرنا اس دور کے عظیم قائد کی عظیم سوچ کو واضح کرتا ہے۔ جھنڈے میں سبز حصے کے عین درمیان میں سفید رنگ کا چاند اور پانچ کونوں والا ستارہ ہے۔ سفید چاند ترقی اور پانچ کونوں والا ستارہ روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔قومی پرچم محض ہمارا قومی جھنڈا نہیں بلکہ اس جھنڈے کے وجود کی خاطر لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے ہم غلامی کے طوق میں بندھے ہوئے تھے۔ مسلمان مکین مکانوں میں رہتے تو تھے مگر ایسے جیسے کوئی تنگ و تاریک راہداری ہو اور ہر طرف سے خاردار جھاڑیاں انکا وجود ریزہ ریزہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتی ہو۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کو چھوت کے مرض کی طرح ناقابل برداشت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان بے بس تھے,مجبور تھے۔ لیکن پھر ایک مرد مجاہد کی پکار نے جیسے ہی انکے دل کی آواز بلند کی سب یک جا ہوئے۔ پھر ایک طویل صبر آزما اور تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد انہیں جیت ملی۔ لیکن یہ جیت جو ہم سب کے لئے آزادی کا تہوار ہے حقیقت میں لاکھوں مسلمانوں کے خون کو نذرانہ عقیدت ہے۔ وہ مائیں بہنیں جنکی عزتیں نیلام ہوئی انکی شہادت کو خراج تحسین ہے۔ یہ ان لاکھوں لوگوں کی جان کی قربانی دیکر ہمیں باوقار اور خود مختار بنانے پر داد تحسین ہے۔

انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہم نے آزادی کا مطلب کچھ اور ہی سمجھ لیا ہے۔ ہمارے نزدیک جشن آزادی منانے کا مطلب اب محض تفریح رہ گیا ہے۔ہم خود کو زندہ دل کہتے ہیں لیکن در حقیقت ہم مردہ ہوچکے ہیں ہم اپنا اخلاق و اقدار کھو چکے ہیں۔ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنے پرچم پیارے پرچم قومی پرچم کی حفاظت تک نہیں کرسکتے۔گزشتہ برس ایسے ہی کئی واقعات آنکھوں کے سامنے سے گذرے جن کو دیکھ کر دل دکھ کی شدت سے بھرگیا اور آنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں۔ ہم اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی بہت اہتمام سے جشن آزادی کے تہوار کی تیاریاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ گھروں,بازاروں,محلوں اور گاڑیوں کو سجاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی تہوار ختم ہوتا ہے ہمارے نزدیک قومی پرچم کی اہمیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہی جھنڈیاں جو گھروں کو سجانے کیلئے لگائی گئیں ہوتی ہیں کچھ دنوں کے بعد جابجا بکھری نظر آتی ہیں۔ ایسے واقعات دیکھ کر ایک بار تو جی میں آتا ہے کہ چیخ چیخ کر پورا پاکستان اکھٹا کرلوں اور انہیں بتاؤں کہ اس سبز ہلالی پرچم کے پیچھے کیسی دردناک کہانیاں ہیں۔کتنی خون کی ندیاں ہیں۔ میں جب پرچم کی ایسی تذلیل ہوتی دیکھتی ہوں میری آنکھوں کے سامنے تعمیر پاکستان سے پہلے کی فلم چلنے لگتی ہے۔ چلتی ٹرینیں ,کٹتی لاشیں,بے سرو سامان مسافر اور تلوار بردار دشمن آہ!دل چیرنے والی آوازیں۔ میری سوچ بے اختیار وہاں پرواز کرجاتی ہے جہاں کوئی تلوار بردار سکھوں کا جتھہ کسی پاکستان کے حامی مسلمان کے گھر گھس گیا ہو اور اس کے مکین تھر تھر کانپتے ہوں۔ اس گھر کے مردوں اور بچوں کو عورتوں کے سامنے تلواروں کے پے در پے وار کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا ہوگا۔ میں سوچتی ہوں اسوقت کیسا منظر ہوگا کیسی دھاڑیں ہونگی جو باپ, بیٹے,بھائی اور شوہر جیسے رشتوں کا خون اپنے سامنے دیکھ کر ماری گئی ہونگی,نہیں نہیں بلکہ ان کا تو حلق خشک ہوگیا ہوگا اور سکتہ طاری ہوگیا ہوگا شاید دکھ کی ایسی اذیت پر بیہوش ہوکر گر گئی ہوں اور ایسے عالم بیہوشی میں انکو گھسیٹ کر ساتھ لے جایا گیا ہوگا عزتیں لوٹیں گئی ہونگی۔ میری سوچ میرا شعور بہت پرانا تو نہیں لیکن وطن عزیز کے پرچم کو پیروں میں گرا دیکھ کر جی میں آتا ہے اسی جگہ بیٹھ جاؤں زمین کھودں اور لوگوں کو دھاڑیں مار مار کر بتاؤں کہ اس پرچم کو جہاں پھینکا گیا ہے عین اسی جگہ اس زمین میں کتنے آزادی کے متوالوں کا خون جذب ہے۔ مجھے رات کے وہ وقت یاد آجاتا ہے جب کچھ لوگ آزادی کی چاہ میں تانگوں اور بیل گاڑیوں پر سوار سرزمین پاکستان پہنچنا چاہتے ہونگے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف آزادی چاہتے ہونگے لیکن راہ میں اچانک انکو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ہوگا۔ وہ کیسا لمحہ ہوگا جب کٹے ہاتھوں پیروں کے ساتھ بھی انکو پاکستان پہنچنے کی امید ہوگی اور پھر کسی کا تو سر بھی علیحدہ کردیا ہوگا اور اس سر نے گرنے پہلے دور کہیں اپنی منزل پاکستان کی طرف آنکھیں گھمائیں ہوں گی۔ کسیا کرب ہوگا اس ایک لمحے کا سوچتی ہوں تو لرز لرز جاتی ہوں۔ روح کانپ اٹھتی ہے۔ رواں رواں درد سے بھر جاتا ہے۔کاش ہم سب پرچم کی اہمیت کو سمجھ جائیں آزادی کا مطلب سمجھ جائیں۔ ہم سمجھ جائیں پاکستان کا مطلب اگر لا الہ الا اﷲ ہے تو لا الہ الا اﷲ کا مطلب پورا نظریہ ہے پورا اسلام ہے اسلام کی تعلیمات ہیں۔ کاش ہم ان لا کھوں لوگوں میں سے کسی ایک کے شخص کے ایک قطرہ خون کی قیمت کو جان جائیں۔ ہمارا پرچم ہمارا وقار ہے ہماری عزت ہے۔ ہم سب کا محافظ ہے۔آئیے آج ہم سب عہدکریں کہ وطن عزیز کے پرچم کی جان سے بڑھ کراعزاز و تکریم کرینگے۔ اپنے ملک کی آن بان اور شان کی خاطر جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرینگے۔ اﷲ ہمارے پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ میری طرف سے تمام اہل پاکستان کو جشن آزادی مبارک.پاکستان پائندہ باد

Saba Eishal
About the Author: Saba Eishal Read More Articles by Saba Eishal: 51 Articles with 47278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.