گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی
میں 11اگست کو 2قرار دادیں منظور کی گئی ۔پیپلزپارٹی کے عمران ندیم اور
اسلامی تحریک پاکستان کے کیپٹن(ر) محمد شفیع نے ایوان میں قرارداد پیش کی
جس میں مطالبہ کیاگیا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ
بنایا جائے جو ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلی۔ جمعیت علماء اسلام ،ن لیگ
، مجلس وحدت مسلمین اورتحریک انصاف نے مکمل حمایت کی،تاہم معروف قوم پرست
رہنماء نواز خان ناجی نے قرارداد کی مخالفت کی ۔ قانون سازاسمبلی میں گزشتہ
6سال میں پیش ہونے والی اس نوعیت کی غالباً یہ چوتھی قرارداد ہے۔ ایسا
لگتاہے کہ جس طرح پہلی قرارداد کو وفاق نے کوئی اہمیت نہیں دی اب بھی اسی
رویے کا اظہار ہوگا ،تاہم اسپیکر حاجی فدامحمد ناشاد کا دعویٰ ہے کہ یہ
قرارداد نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ نواز خان ناجی نے کھل قرارداد کی مخالفت کرتے
ہوئے کہاکہ ایسی قرارداد جو قابل عمل نہ ہو پیش کرنے کے بجائے ہمیں 2009کے
اصلاحاتی پیکج کے استحکام کے لئے اقدام کرنے چاہیے اور ہمارے مسائل کے حل
کی راہ میں اصل رکاوٹ معاہدہ کراچی ہے۔
نواز خان ناجی کی یہ بات درست ہے کہ گلگت بلتستان کے آئینی مسائل کے حل کے
میں ایک بڑی رکاوٹ 28اپریل 1949کا معاہدہ کراچی ہے ،جو گلگت بلتستان کے
عوام سے پوچھے بغیر آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان ہوا ہے۔ گلگت
بلتستان کا آئینی صوبہ بننے میں اصل رکاوٹ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جن
میں اس خطے کو بھی متنازعہ قراردیا گیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اکتوبر
1947تک قائم ریاست جموں وکشمیر کا گلگت بلتستان اہم صوبہ تھا۔ اقوام متحدہ
میں پوری ریاست جموں و کشمیرمتنازع ہے ایسی صورت میں کیا پاکستان کے لئے
گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں آئینی صوبہ قراردینا ممکن نہیں ہے؟ اور
اگرپاکستان ایسا کرتاہے تو یہ انڈیا کیلئے بہت اچھا موقع ہوگا کیونکہ بھارت
چاہتاہے کہ پاکستان کوئی ایسا اقدام کرے جس کو جواز بناکر بھارتی آئین کے
آرٹیکل 370کاخاتمہ کیا جائے۔ اس آرٹیکل میں بھارت نے جموں وکشمیر کو نہ صرف
خصوصی حیثیت دی ہے بلکہ متنازع بھی تسلیم کیا ہے۔اس لئے پاکستان کے لئے
گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر کو اپنا آئینی حصہ بناناتقریباً ناممکن ہے۔
مزید یہ کہ بھارتی آئین آرٹیکل370 کی طرح پاکستانی آئین کے آرٹیکل 257میں
بھی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی ہے۔ آرٹیکل 257میں واضح درج
ہے کہ’’ جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں،
تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کی عوام کی
خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے‘‘۔ جس طرح بھارتی آئین میں ریاست جموں و
کشمیر سے مراد ’’بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر ، گلگت بلتستان ، آزاد
کشمیر اور چین کے زیر انتظام اسکائی چن‘‘ ہے، اسی طرح پاکستانی آئین کے
آرٹیکل 257میں بھی ریاست جموں وکشمیر سے مراد مذکورہ بالا تمام علاقے ہی
ہیں۔ پاکستان اگر گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بناناہے تو اسے پہلی تو آئین
کے آرٹیکل 257کو ختم یا ترمیم کرکے واضح کرنا ہوگا کہ گلگت بلتستان متنازعہ
ریاست جموں وکشمیر حصہ نہیں ہے اور ایسا پاکستان کیلئے ممکن نہیں ۔
اس لیے گلگت بلتستان کے عوام اور نمائندے( جو پاکستان سے حقیقی محبت رکھتے
ہیں) کوئی ایسا ناقابل عمل مطالبہ کرکے پاکستان کو مشکل میں ڈالنے سے گریز
کریں۔ آئینی صوبے کیلئے آئین کے آرٹیکل 2میں ترمیم کی بھی ضرورت ہے،یہ
آرٹیکل پاکستان کا حدود اربہ بیان کرتا ہے ۔آرٹیکل2 کی زیلی شق (الف) میں
چار صوبوں کا نام، (ب) میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد،(ج) میں وفاقی کے
زیر انتظام قبائیلی علاقوں کا ذکر ہے جبکہ (د) میں کہا گیا ہے کہ’’ ایسی
ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے پاکستان میں شامل
ہیں یا ہوجائیں‘‘ ۔ دراصل بعض افراد لفظ ’’ہوجائیں ‘‘کو بنیاد بناکر آئینی
صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ آئین کے آرٹیکل 257کی جانب توجہ نہیں دے
رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے
مطابق پاکستان کی کسی بھی حکومت کے لئے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ
قراردینا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ،تاہم عالمی حمایت ،کشمیریوں کے جذبات،
اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف کومستردکرے تو
پاکستان کے لئے ایسا ممکن ہے۔
قانون ساز اسمبلی کے ارکان کو شاید یہ قرارداد پاس کرنے کی اس لیے ضرورت
پڑی کہ مسلم لیگ (ن)کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے
انتخابات سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھاکہ وہ آئینی حقوق دیں گے اور اس حوالے
سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی قائم کی، جبکہ
گزشتہ سواماہ سے وفاقی دار الحکومت میں گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ
قرار دینے پر مشاورت اور ڈرافٹ تیاری کی بازگشت ہے ،جس پر آزاد کشمیر کی
حکومت اور سیاسی قیادت نے بے جا سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا۔8اگست کو ڈپٹی
اسپیکر گلگت بلتستان جعفراﷲ خان نے اسلام آباد میں ایک انٹرویومیں انکشاف
کیاکہ’’ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا حتمی فیصلہ ہوچکاہے، گلگت
بلتستان قانون ساز کونسل ختم کرکے گلگت بلتستان کے لئے قومی اسمبلی میں
6اور سینیٹ میں 3نشستیں مختص کی جا رہی ہیں ‘‘،موصوف نے یہ فیصلہ بھی
سنادیاکہ ’’گلگت بلتستان متنازعہ نہیں ہے بلکہ کشمیر متنازعہ ہے ‘‘مگر وزیر
اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے 11اگست کو شائع ہونے والے ایک
انٹرویومیں عملاً اس کی تردید کی ہے اور کہاہے کہ ’’20اگست تک قانون سازی
مکمل ہوجائے گی اور اگست کے اختتام تک کونسل کے 6ارکان کا انتخاب ہوگاگا جن
میں سے پانچ نشستوں پرن لیگ کی کامیابی کا امکان ہے‘‘۔
ہم نے وضاحت کے لئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے متعدد بار
رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن شاید’’ ان کی بے حد مصروفیات کی وجہ سے رابطہ
ممکن نہ ہوسکا !‘‘ ،تاہم حافظ صاحب کے انٹرویو سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ
ن لیگ آئینی حقوق دینے کے وعدے صرف انتخابی ہی تھے، یہی وجہ ہے کہ اسمبلی
کو قرارداد پیش کرنے کی ضرورت پڑی ۔
اسمبلی میں قرارداد کی منظور ی کے دوران بعض ارکان نے کہاکہ’’ دنیا میں
علیحدگی کی تحریکیں چلتی ہیں لیکن گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں
الحاق کیلئے تحریک چل رہی ہے، اگر پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بنایا گیاتو
علیحدگی کی تحریک بھی اٹھ سکتی ہے‘‘اور بعض نے قوم پرستوں کی پزیرائی کی
جانب اشارہ بھی کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان کے غیر واضح پالیسی اور
مختلف سیاسی جماعتوں کے متضاد بیانات کی وجہ سے خطے میں بے چینی پائی جاتی
ہے ،جس کا تدارک لازمی ہے۔جہاں تک قوم پرستوں کی پزیرائی کا تعلق ہے یہ بھی
درست ہے، نواز خان ناجی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں اور بابا جان جیل میں ہونے
کے باوجود اسمبلی میں پہنچنے والے ہیں،اس کو منفی نہیں مثبت پیش رفت کہا
جاسکتا ہے۔،مگرمقامی انتظامیہ اور حکومت معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کے
بجائے طاقت آزمائی کررہی ہے ،جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔اس وقت
باباجان ،طاہر علی طاہر ،کرنل (ر)نادر حسین ، صفدر حسین سمیت ایک درجن سے
زائد قوم پرست رہنماء جیلوں میں ہیں جبکہ عوامی مسائل پر آواز اٹھانے کی
پاداش میں قوم پرست رہنماء منظور حسین پروانہ کے خلاف’’کار سرکار میں
مداخلت‘‘کے درج مقدمے میں فردجرم عائد کی گئی ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ ایک
سنگین غلطی ہے ، اس لیے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور ان
کے ساتھی باہمی مشاورت اور سوچ بچار سے قوم پرست رہنماوں کی رہائی اور
انہیں اپنے حقوق کیلئے قانونی راستہ اختیار کرنے کے لئے راضی کرنے میں اپنا
کردار ادا کریں تاکہ مشکلات سے بچا جاسکے۔
قانون ساز اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے 11اگست کو ایم کیوایم کے قائد
الطاف حسین کے حالیہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پاکستان واپس لا کر
قانون کے مطابق سخت کاروائی کا مطالبہ کیاگیا۔
|